احوال وطن

بھارت: قدامت پسند ‘گاؤ رکشک’ انتخابات سے قبل کیسے اپنی طاقت بڑھا رہے ہیں؟

؟ریانہ کے رہائشی تیس سالہ وشنو داباد بھی ایسے ‘گاؤ رکشکوں’ میں شامل ہیں جو کئی برس سے یہ کام کر رہے ہیں اور اب مقامی سیاست میں اُنہیں اہمیت مل رہی ہےہندوؤں کے نزدیک گائے کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اترپردیش سمیت بھارت کی کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ جہاں جرم ثابت ہونے پر 10 سال تک قید اور تقریباً پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔بھارت کی کچھ ریاستوں میں گائے کے تحفظ کے لیے ٹاسک فورسز بھی بنائی گئی ہیں جن میں وشنو جیسے گاؤ رکشکوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ ایسی ٹاسک فورسز کا کام گائے کی اسمگلنگ، ذبح کو روکنا اور آوارہ مویشیوں کا تحفظ کرنا ہے۔وشنو کا ماننا ہے کہ یہ کام کرنے سے اُن کی اپنے علاقے میں اہمیت بڑھی ہے اور اب وہ مقامی سیاست میں لوہا منوانے کے بعد آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔بھارت میں سن 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد ‘گاؤ رکشکوں’ کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گاؤ رکشکوں پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور گائے کا گوشت فروخت کرنے والے یا استعمال کرنے والے افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔اگرچہ حکومتی اعداد و شمار گائے سے متعلق تشدد کے واقعات اور عام واقعات میں فرق نہیں کرتے۔ تاہم ‘ہیومن رائٹس واچ’ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے دوران گائے سے متعلق تشدد کے واقعات میں 44 افراد ہلاک ہوئے جن میں 36 مسلمان شامل تھے۔گاؤ رکشکوں کی مقامی سیاست میں پذیرائیخبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق 90 سے زائد گاؤ رکشکوں کے انٹرویوز، بی جے پی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں سے بات چیت اور سیاسی تجزیہ کاروں سے گفتگو کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ یہ گاؤ رکشک اپنے سخت گیر ایجنڈے اور اثر و رسوخ کو مقامی سیاست میں استعمال کر رہے ہیں۔ان افراد کے مطابق گائے کی حفاظت ان نوجوانوں کے لیے ایک بہترین درس گاہ بن گئی ہے جو مبینہ طور پر مویشیوں کے اسمگلروں کے خلاف بڑے گروہوں کومتحرککرتےہیںاوراس کے نتیجے میں ہونے والی مقبولیت کو سیاست میں استعمال کرتے ہیں۔—بھارت میں آئندہ برس شیڈول پارلیمانی انتخابات سے قبل ‘گاؤ رکشک’ یعنی رضاکارانہ طور پر گائے کا تحفظ کرنے والے افراد بھی اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ہریانہ کے رہائشی تیس سالہ وشنو داباد بھی ایسے ‘گاؤ رکشکوں’ میں شامل ہیں جو کئی برس سے یہ کام کر رہے ہیں اور اب مقامی سیاست میں اُنہیں اہمیت مل رہی ہے۔ہندوؤں کے نزدیک گائے کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اترپردیش سمیت بھارت کی کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ جہاں جرم ثابت ہونے پر 10 سال تک قید اور تقریباً پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔بھارت کی کچھ ریاستوں میں گائے کے تحفظ کے لیے ٹاسک فورسز بھی بنائی گئی ہیں جن میں وشنو جیسے گاؤ رکشکوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ ایسی ٹاسک فورسز کا کام گائے کی اسمگلنگ، ذبح کو روکنا اور آوارہ مویشیوں کا تحفظ کرنا ہے۔وشنو کا ماننا ہے کہ یہ کام کرنے سے اُن کی اپنے علاقے میں اہمیت بڑھی ہے اور اب وہ مقامی سیاست میں لوہا منوانے کے بعد آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔بھارت میں سن 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد ‘گاؤ رکشکوں’ کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گاؤ رکشکوں پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور گائے کا گوشت فروخت کرنے والے یا استعمال کرنے والے افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔اگرچہ حکومتی اعداد و شمار گائے سے متعلق تشدد کے واقعات اور عام واقعات میں فرق نہیں کرتے۔ تاہم ‘ہیومن رائٹس واچ’ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے دوران گائے سے متعلق تشدد کے واقعات میں 44 افراد ہلاک ہوئے جن میں 36 مسلمان شامل تھے۔

گاؤ رکشکوں کی مقامی سیاست میں پذیرائی

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق 90 سے زائد گاؤ رکشکوں کے انٹرویوز، بی جے پی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں سے بات چیت اور سیاسی تجزیہ کاروں سے گفتگو کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ یہ گاؤ رکشک اپنے سخت گیر ایجنڈے اور اثر و رسوخ کو مقامی سیاست میں استعمال کر رہے ہیں۔ان افراد کے مطابق گائے کی حفاظت ان نوجوانوں کے لیے ایک بہترین درس گاہ بن گئی ہے جو مبینہ طور پر مویشیوں کے اسمگلروں کے خلاف بڑے گروہوں کو متحرک کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مقبولیت کو سیاستمیں استعمال کرتے ہیں۔بہت سے گاؤ رکشک اب آئندہ برس پارلیمانی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔بھارت کی 36 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں سے نصف میں گائے کے ذبیحہ پر جزوی یا مکمل پابندی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ناقدین کا کہنا ہے گاؤ رکشک گائے کی اسمگلنگ روکنے سمیت اس نوعیت کی دیگر ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں جس کے ذریعے نہ صرف یہ فنڈز جمع کرتے ہیں بلکہ مزید افراد کو بھی اس جانب راغب کرتے ہیں۔بھارت میں گاؤ رکشک کی تحریک بہت پرانی ہے، تاہم وشنو کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔وشنو کے مطابق اُن کے گروپ میں شامل افراد کے پاس لاٹھیاں، پتھر، چاقو اور درانتیاں ہوتی ہیں جن سے وہ اسمگلروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اور "ہم گائے کی حفاظت کے لیے جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔”اُن کے بقول مشتبہ گاڑیوں کو روکنے کے لیے سڑک پر کیل بچھانے کے ساتھ ساتھ بسا اوقات اُنہیں اسمگلرز کی گاڑیوں کا پیچھا بھی کرنا پڑتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے کیوں کہ اُنہیں ایک ماہ سے زائد جیل میں بھی گزرانے پڑے۔مقامی پولیس کے مطابق وشنو پر ایک مسلمان تاجر پر تشدد کے الزام سمیت مذہبی بنیادوں پر تشدد میں ملوث ہونے کی نو شکایات سامنے آ چکی ہیں۔مقامی سیاست دانوں پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے ان گاؤ رکشکوں کو استعمال کرتے ہیں۔ہریانہ کے نائب وزیرِ اعلیٰ دشینت چوٹالہ کی پارٹی کے چھ عہدیداروں نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ وشنو ان کی انتخابی مہم کے لیے ایک اُبھرتا ہوا ستارہ ہیں۔گاؤں رکشکوں میں سے بعض بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں جب کہ کچھ دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں۔گاؤ رکشکوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اپنے طور پر گائے سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کرائے تو پھر شاید کسی ایک گاؤ رکشک کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔کنگز کالج لندن میں بھارتی سیاست کے پروفیسر کرسٹوف جیفرلوٹ کہتے ہیں کہ ریاست اقلیتوں کو کھلے عام ہراساں نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسے گاؤ رکشکوں کو یہ اجازت دے کر اکثریتی طبقے کو مطمئن رکھنا چاہتی ہے۔اُن کے بقول اب ان گاؤ رکشکوں کو مقامی سطح پر حکمرانی اور طاقت میں حصہ دیا جا رہا ہے۔ اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×