افکار عالم

بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملوں کے خلاف ٹاسک فورس، امریکی اتحادی تذبذب کا شکار

امریکی صدر جو بائیڈن نے اُمید ظاہر کی تھی کہ ایک نئی بحری فوج متعارف کرا کے بحیرہ احمر میں یمن کے حوثیوں کے حملوں کا مضبوط عالمی ردعمل دیں گے تاہم اس کی لانچ کے ایک ہفتے بعد بہت سے اتحادی اس کے ساتھ منسلک نہیں ہوئے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے دو یورپی اتحادی اٹلی اور سپین جو آپریشن ’پراسپرٹی گارڈین‘ کے شراکت دار تھے، نے ایسے بیانات جاری کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بحری قوت سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ’یہ فورس 20 سے زیادہ ممالک پر مشتمل ایک دفاعی اتحاد ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اربوں ڈالر کی تجارت یمن سے دور بحیرہ احمر کے پانیوں میں ایک اہم جہاز رانی چوکی کے ذریعے آزادانہ طور پر ممکن ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ان میں سے تقریباً نصف ممالک اب تک اپنے تعاون کو تسلیم کرنے کے لیے آگے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی امریکہ کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔
یہ شراکت جنگی جہاز بھیجنے سے لے کر سٹاف آفیسر بھیجنے تک ہوسکتی ہے۔ کچھ امریکی اتحادیوں کی جانب سے خود کو اس فورس سے جوڑنے میں ہچکچاہٹ غزہ کے تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی دراڑ کی عکاسی کرتی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی جارحیت پر بین الاقوامی تنقید کےباوجود اسرائیل کی بھرپور حمایت جاری رکھی۔
میڈرڈ کی کمپلیٹینس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈیوڈ ہرنینڈز نے یورپی عوام کی اسرائیل پر بڑھتی ہوئی تنقیدکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یورپی حکومتیں بہت پریشان ہیں کہ ان کے ممکنہ ووٹرز کا ایک حصہ ان کے خلاف ہو جائے گا۔‘
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے 19 نومبر سے میزائلوں اور ڈرونز سے درجن بھر بحری جہازوں پر حملہ اور ان پر قبضہ کیا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی بحری افواج نے حوثی باغیوں کے ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرایا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کے خیالات سے واقف ایک ذرائع نے کہا کہ ’امریکہ کا خیال ہے کہ حوثیوں کے بڑھتے ہوئے حملے غزہ میں جاری تنازع سے الگ بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
بحیرہ احمر نہر سویز استعمال کرنے والے بحری جہازوں کے لیے ’اینٹری پوائنٹ‘ ہے جس پر دنیا بھر کی تجارت کے تقریباً 12 فیصد کا انحصار ہے جبکہ ایشیا اور یورپ کے درمیان سامان کی نقل و حرکت کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
ڈنمارک کی کنٹینر فرم مارسک نے سنیچر کو کہا تھا کہ وہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں شپنگ دوبارہ شروع کرے گی تاہم جرمنی کے ہاپاگ لائیڈ نے بدھ کو ایک بیان میں بتایا کہ اسے اب بھی یقین ہے کہ بحیرہ احمر بہت خطرناک ہے اور وہ کیپ آف گڈ ہوپ کے ارد گرد بحری جہاز بھیجنا جاری رکھے گا۔
اگرچہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی میری ٹائم ٹاسک فورس کے لیے 20 ممالک نے دستخط کیے ہیں تاہم اس نے صرف 12 کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔
یورپی یونین نے حوثیوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے مشترکہ بیان میں میری ٹائم ٹاسک فورس کی حمایت کا عندیہ دیا تھا۔
اگرچہ برطانیہ، یونان اور دیگر نے امریکی آپریشن کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا لیکن امریکی اعلان میں جن ممالک کا ذکر کیا گیا تھا ان میں سے متعدد نے فوری طور پر کہا تھا کہ وہ براہ راست ملوث نہیں ہیں۔
ایرانی حمایت یافتہ حوثی کئی مرتبہ بحری جہازوں پر حملے کر چکے ہیں جن کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں ایسا کر رہے ہیں۔
حوثیوں کی جانب سے تازہ حملوں کا سلسلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد شروع ہوا ہے۔
حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے جواب میں 21 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×