اسلامیاتمولانا خالد سیف الله رحمانی

کامیابی کا نسخہ

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مشکل حالات میں مسلمانوں کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے؟ قرآن مجید نے بہت ہی مختصر الفاظ میں اس کی رہنمائی فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یاایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ، ان اللہ مع الصابرین (بقرہ: ۱۵۳)
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
دنیا میں انسان کو جو مصائب پیش آتے ہیں، ان کو حل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ظاہری اسباب ووسائل کا استعمال کیا جائے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے، اسلام کا تصور یہ ہے کہ حالات بھی اللہ کی طرف سے پیش آتے ہیں، اور ان کے تدارک کے لئے وسائل بھی اللہ ہی نے پیداکئے ہیں؛اس لئے ان وسائل کو استعمال کرنا چاہئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ ہی نے بیماریاں بھی پیدا کی ہیں اور دوائیں بھی؛ اس لئے دوائیاں لیا کرو (سنن ابی داؤد عن ابی الدرداء، حدیث نمبر: ۳۸۷۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود ظاہری وسائل کا استعمال فرمایا ہے، منزل تک جلد اور آسانی کے ساتھ پہنچنے کے لئے سواریاں استعمال کی ہیں، دشمن سے دفاع کے لئے ہتھیار استعمال کیا ہے، اور اس کی ترغیب دی ہے، نیز مختلف ضرورتوں کے لئے اس دور کے جدید ترین وسائل کا استعمال کیا ہے، جائز وسائل کو استعمال نہ کرنا اور اپنے آپ کو بہ تکلف تکلیف میں ڈالنا رہبانیت ہے، جو ایک من گھڑت عمل ہے، اور قرآن مجید نے اس کی مذمت کی ہے (الحدید:۲۷)
 دنیا میں ہدایت الٰہی سے مختلف قوموں نے اس راستہ کو اختیار کیاہے،آج بھی خود ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو تارک الدنیا ہو جاتے ہیں، یوروپ پر تو ایک زمانہ میں اس کا ایسا غلبہ تھا کہ علاج کرانے کو بھی خدا کی مرضی میں خلل ڈالنے کا عمل سمجھا جاتا تھا، اسلام نے اس غیر فطری تصور کو رد کر دیا اور اسلامی تاریخ میں کبھی بھی معتبر علماء اور مشائخ نے اس سوچ کو قبول نہیں کیا۔
مشکلات کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ روحانی ہے، جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام سے ہے، قرآن مجید کی اس آیت میں اس کی واضح رہنمائی فرمائی گئی ہے، اور وہ ہے: صبر اور صلاۃ،  صبر کے معنیٰ ناگوار خاطر باتوں کو برداشت کرنا ہے،اور جو مومن اللہ کے لئے ایسی باتوں کو برداشت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا دروازہ کھلتاہے اور مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی خاص کر مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں اسی ہتھیار کا استعمال کیا، معاندین جوش وخروش کے ساتھ حق وراستگی کے چراغ کو بجھانے کے لئے حملہ آور ہوتے تھے؛ لیکن صبر کی طاقت ان تمام سازشوں کو ناکام ونامراد کردیتی تھی، صبر کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص آپ کو نشانہ بنا کر پتھر مارے اور آپ اپنی جگہ سے دائیں یا بائیں ہٹ جائیں اور پتھر آگے جا کر گر جائے، تو آپ محفوظ رہیں گے اور پھینکنے والے کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
صبر مسائل کو حل کرنے کا انفرادی طریقہ بھی ہے اور قومی طریقہ بھی، مثلاََ اس وقت ملک دشمن اور مسلمان دشمن طاقتیں نفرت انگیز باتیں کہنے میں اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں، سیاست کے بازی گر چاہتے ہیں کہ وہ ایسی باتیں کہہ کر مسلمانوں کو مشتعل کریں، جب مسلمان مشتعل ہو جائیں گے تو مسئلہ کو اور گرمانے کا موقع فراہم ہوگا، اسی سے فائدہ اٹھا کر دو چار فسادات کروا دئے جائیں گے، اور جب اقلیت کے خلاف اکثریت کا غصہ اپنے شباب پر پہنچ جائے گا، تو اکثریت کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا جائے گا، گزشتہ دنوں جس انداز پر مسلمانوں کے خلاف بیان دئیے گئے، اگر مسلمان اسی لب ولہجہ میں اس کا جواب دیتے تو ملک کے حالات بہت زیادہ خراب ہو جانے اور نفرت پھیلانے والی طاقتوں کو اس کا پورا پورا فائدہ پہنچتا؛ لیکن مسلمانوں کی خاموشی نے ان کے فرقہ وارانہ وار کو خالی کر دیا ہے اور اکثریت کے سمجھ دار لوگ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ یہ حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے، اسی بات نے شرپسندوں کو پریشانی اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، ان کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنے جھوٹ اور مکاری پر کس طرح پردہ ڈالیں؛ اس لئے ملک کے موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان موقع ومحل دیکھ کر ضرورت کے بقدر سنجیدہ لب ولہجہ میں سوالات کا جواب دیں، رد عمل کا شکار نہ ہوں، تیز وتند بیانیہ جاری نہ کریں؛ ورنہ اس کا نقصان خود ہم ہی کو ہوگا۔
صبر کا ایک اور معنیٰ روزہ کا ہے، مشہور مفسر امام مجاہدؒ نے اس آیت میں صبر سے روزہ ہی مراد لیا ہے، یہ بعض اور مفسرین کا قول بھی ہے المراد ھھنا الصوم وھو الصواب(تفسیر قرطبی، آیت مذکورہ) ؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی نسبت سے رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے: وھو شھر الصبر(صحیح ابن خزیمہ عن سلمان الفارسی، حدیث نمبر: ۱۸۸۷) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے، انسان اپنے جائز مقصد کے لئے نفل روزہ رکھے اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرے۔
 دوسرا طریقہ نماز کا ہے، نماز عبادت بھی ہے اور دعا بھی؛ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کم وبیش ہر ضرورت کے لئے نمازیں رکھی ہیں، اگر کوئی شخص دنیا سے گزر جائے تو گزرنے والے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مالک کائنات اس کو معاف کر دے، اس کے لئے نماز جنازہ رکھی گئی ہے، پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اگر بارش رک جائے تو کھیتیاں بھی متأثر ہوں گی اور پینے کا پانی بھی ختم ہو جائے گا، اس کے لئے نماز استسقاء رکھی گئی ہے، سفر میں جانے سے پہلے نماز سفر، اگر کسی مسئلہ میں طبیعت غیر مطمئن ہو اور ذہن کسی ایک جہت کو متعین کرنے سے قاصر ہو تو نماز استخارہ، بہ تقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے لئے نماز توبہ، اور اگر ضرورت در پیش ہو اور اپنے خالق و مالک سے اس کے لئے التجا کرنا چاہتا ہو تو نماز حاجت، یہ اللہ تعالیٰ سے نصرت ومدد کی ایسی کلید ہے، جو ہر موقع پر بندہ کے لئے میسر ہے۔
نماز حاجت ہر ضرورت کے لئے ہے، چاہے کوئی شخصی ضرورت ہو یا قومی اور اجتماعی ، غزوۂ بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفیں آراستہ کیں اور خود خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، اِس وقت ملک میں جو حالات ہیں، اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، اور مسلمانوں کے خلاف جو جھوٹے پروپیگنڈے کئے جا رہے ہیں، اس کا حل یہی ہے کہ ایک طرف ظاہری تدابیر اختیار کی جائیں، دوسری طرف نماز حاجت پڑھ کر اور نفل روزہ رکھ کر آہ وزاری کے ساتھ اللہ سے مانگا جائے، حالیہ الیکشن جس کی حیثیت ایک فیصلہ کن موڑ کی ہے، کے نتائج آنے سے پہلے تک ہمیں خاص طور پر ان ظاہری اور باطنی تدابیر کا پورا لحاظ رکھنا چاہئے، ایک طرف اپنے آپ کو اشتعال اور جذباتی بیان سے بچائے رکھنا ، اپنے حق رائے دہی کا لازمی طور پر استعمال کرنا ، زیادہ سے زیادہ متعلقین کو رائے دہی کے مراکز تک پہنچانا، اور ان کو سمجھانا کہ وہ اپنا ووٹ امن پسند اور  انصاف پسند جماعت کے حق میں استعمال کریں، اور نفرت کے سوداگروں کو اقتدار حاصل کرنے سے دور رکھیں، دوسری طرف نماز حاجت اور نفل روزہ کا اہتمام کریں؛ کیوں ایک صاحب ِایمان کے لئے یہی کامیابی کا سب سے بڑا نسخہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×