ادبیات

نگاهِ شوق اگر ہے شریکِ بینائی

مفتی محمد سلمان قاسمی کریم نگری خادم التدریس مدرسہ عربیہ نعمانیہ

اس صفحۂ گیتی پر نہ جانے کتنے ایسے باکمال عبقری شخصیات، اتالیق وقت، عندلیب زماں، رونق افروز ہوئے اور اپنی فطری و کسبی صلاحیتوں سے دنیا کو محو حیرت میں ڈالتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی مہارت و کمالات کے لازوال نقوش چھوڑ کر چشم جہاں سے اوجھل ہوگئے، جنہوں نے محض اپنے شوق و ذوق سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ جن کے فیضان سے صرف اسی دور کے افراد ہی فیضیاب نہیں ہوئے بلکہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی ان کی خوشبو سے معطر ہو رہی ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کر رہی ہیں۔

یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ اگر آدمی کے اندر شوق ہوگا تو نہ مال کی ضرورت ہے اور نہ استاد کی نہ کسی اور چیز کی اس کا شوق ہی اس کے لیے ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے وہ بغیر کسی چیز کے ہر چیز حاصل کر لیتا ہے،اور جس شخص کے اندر شوق ہی نہ ہو تو پھر قابل ارزاں چیزیں بھی اس کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں اور ساری سہولیات کے باوجود وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے سے بھی عاجز رہتا ہے،

اپنے شوق وجذبہ، محنت و جدوجہد سے اپنی منزل پانے والوں میں ایک مثال استاد محمد یوسف دہلوی کی ہے جو 4 ستمبر 1894ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 11 مارچ 1977 میں راہی ملک عدم ہوئے،استاد یوسف مشہور و معروف خوش نویس تھے اور دہلوی طرز نستعلیق کے موجد تھے, ان کا آبائی علاقہ جنڈیالہ ڈھاپ والا نزد وزیرآباد ہےانکے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی اپنے زمانے کے معروف خطاط تھے انہوں نے 1932 میں غلاف کعبہ کی خطاطی کی تھی استاد یوسف دہلوی نے عہد شاہجہانی کے مشہور خطاط عبدالرشید دیلمی کے فن خطاطی کا دقت نظر سے مطالعہ کیا اور اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لا کر اپنے شوق کے بل بوتے پر ایک نئی اور خوبصورت روش ایجاد کی جسے دہلوی طرز نستعلق کہا جاتا ہے دہلی کی بہت سی عمارتوں میں ان کی خطاطی کےنمونے کندہ ہیں
انہوں نے خط نستعلق میں جدید روش اختیار کرکے حروف کے قدیم پیمانوں میں خوبصورتی پیدا کی ان کی اس طرز جدید کو مقبولیت حاصل ہوئی، تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔

استاد یوسف کی فن خطاطی پر غیر معمولی قدرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار جلی خط کا مقابلہ ہوا جمنا کے کنارے ریت کے میدان میں بہت سے خطاط جمع ہوئے، استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں بانس کا ایک بڑا ٹکڑا تھا انہوں نے بانس سے ریت کے اوپر لکھنا شروع کیا، الف سے ش تک پہنچے تھے کہ تقریبا ایک فرلانگ کا فاصلہ ہوگیا،لوگوں نے کہا کہ بس کیجیے، استادیوسف نے کہا "میں نے جو لکھا ہے اس میں رنگ بھر دو اور پھر ہوائی جہاز سے چھوٹے سائز میں اس کا فوٹو لے لو، مجھے یقین ہے کہ فوٹو میں وہی خط رہے گا جو میرا اصل خط ہے” اس کے بعد کسی اور کو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی، استاد یوسف سے ایک شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کسی سے نہیں۔انکے والد خود ایک مشہور خوشنویس تھے مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی بھی نہیں کی،پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے خوش نویسی کا فن لال قلعہ سے سیکھا ہے۔ لال قلعہ میں مغل دور کے استادوں کی تختیاں رکھی ہوئی ہیں ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیں جو فن خطاتی کے شاہکار نمونے ہیں،استاد یوسف 10 سال تک برابر یہ کرتے رہے کہ لال قلعہ جا کر ان تختیوں کو دیکھتے ہر روز ایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتے اور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کر لال قلعہ جاتے وہاں کی محفوظ تختی سے اپنے لکھے ہوئے کو ملاتے اور اس طرح مقابلہ کر کے اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔اس طرح مسلسل 10 سال تک ہر روز لال قلعہ کی قطعات کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہے اور ان کو دیکھ کر مشق کرتے رہے یہی دس سالہ جدوجہد تھی جس نے انہیں استاد یوسف بنادیا۔(ماخوذ از: "کتابوں کی درسگاہ میں”ص/164)

یاد رکھیئے! دنیا ہمیشہ باکمال لوگوں کی قدر کرتی ہے اور کمال و مہارت شوق کے بغیر حاصل کرنا نا ممکن ہے،اسی لیے تاریخ اسلام کے صفحات پر ان لوگوں کے نام سنہرے حروف سے نقش ہیں جنہوں نے اپنے اندر کمال پیدا کیا اور دنیا کو نہ صرف اپنا محتاج بنا لیا بلکہ دنیا کی ضرورت بن گئے،یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اس طرح کی انگنت مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ادمی اپنے شوق و ذوق سے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے بشرط کہ وہ جدوجہد کی شرطوں کو پورا کرے،کیونکہ انسان کو اپنے منزل کے حصول کے لیے مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو مشکل مواقع میں زندگی کا ثبوت دینا پڑے یہی وہ مشکلات ہیں جو آدمی کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں نیز زندگی کے بہترین سبق ہمیشہ ناموافق حالات میں ملتے ہیں،علامہ ابن تیمیہ کو کون نہیں جانتا ہے کتنی انقلابی اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے سب کچھ کرنے والی شخصیت تھی،جب ان کو جیل میں قید کیا گیا اور لکھنے پڑھنے کے اشیاء چھین لیے گئے تو ابن تیمیہ رحمت اللہ علیہ نے کوئلے سے دیواروں پر لکھنا شروع کر دیا چونکہ ان کا مقصد اور ان کا شوق انہیں خالی رہنے نہیں دیتا تھا،یہی دھن اور شوق کا دامن اگر ہمارے ملک کا مسلمان طبقہ تھام لے تو پھر اس ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوگا۔

آج ہمارے اس ملک کے ناموافق حالات میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ آج ہم آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی فکر نہیں کرتے ہیں اور غفلت لاپرواہی,سستی کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں مزید براں حالات سے متاثر ہو کر اپنی ہمت اور شوق کو دفن کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مشکل مراحل سے گزرنا پڑرہا ہے اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے "پدر من سلطان بود” کے مصداق بننے کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی فکر کریں،اپنے اندر ایسا ہنر اور فن پیدا کریں کہ ہم اس ملک کے لیے جزو لاینفک بن جائیں بلکہ اس ملک کی ضرورت بن جائے، اللہ تعالی ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کو اس ملک میں ترقی عطا فرمائے

کچھ اور ہی نظر آتا ہے یہ کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہے شریکِ بینائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×