اسلامیاتسیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

متحد ہوتو بدل ڈالو دنیا کا نظام !

ووٹ کوبکھرنے اور تقسیم ہونے سے بچانا اور متحدہ طورپر استعمال کرنا اہم ترین ذمہ داری

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
ڈائرکٹر القلم فاؤنڈیشن کریم نگر
لکھا ہے کہ:’’ ایک شخص کے دس لڑکے تھے،سب لڑکے تندرست اور ہوشیار تھے اور مل جل کر رہتے تھے،اس کی وجہ سے ہر جگہ ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی،ان کا ہر کام آسانی سے ہوجاتا تھا،کوئی شخص ان کے خلاف کاروائی کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔اس خاندان کا اتحاد اور اس کی طاقت لوگوں کے درمیان ضرب المثل بن گئی تھی۔لڑکوں کا باپ بوڑھا ہوکر مرض الموت میں مبتلا ہواتو اس کو سب سے زیادہ اندیشہ یہ ہواکہ اس کے بعداس کے لڑکے باہمی اختلاف کا شکار ہوکر الگ الگ نہ ہوجائیںاور اس طرح اپنے آپ کو کمزور کرلیں۔سوچتے سوچتے ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی ،اس نے ایک روز تمام لڑکوں کوبلایااور کہا کہ دیکھواب میں بہت جلد مرجاؤں گا،میں تم لوگوں کو ایک سبق دیناچاہتاہوں ،اگر تم میرے اس سبق کو یادرکھوگے تو زندگی میں کبھی ناکام نہ ہوگے۔اس کے بعد اس نے ایک موٹی رسی نکالی اور کہا کہ اس کو توڑو۔
ہر ایک نے باری باری کوشش کی ،مگر پورا زور لگانے کے بعد بھی کوئی اسے توڑ نہ سکا،اس کے بعد سب نے مل کر اس کوتوڑنے کی کوشش کی ،مگر وہ اب بھی کامیاب نہ ہوئے۔اب بوڑھے باپ نے یہ کہا کہ رسی کو کھولا جائے تو اس کی دس لڑلیاں الگ الگ ہوگئیں ،اس نے ایک ایک لڑی ہر لڑکے کو دے کر کہا کہ اسے توڑو،اب معاملہ آسان تھا۔ہر لڑکے نے معمولی کوشش سے اپنی اپنی رسی توڑڈالی ۔یکجا لڑیوں کوئی توڑنہ سکا۔مگر منتشرکو ہر ایک نے توڑکر دوڑٹکڑے کردیا۔اس تجربہ کے بعد باپ اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوا،اس نے کہا :دیکھو جب تک رسی کی دس لڑلیاں ایک ساتھ ملی ہوئی تھیں ،تم لوگ اسے توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے ،مگر وہی رسی جب الگ الگ لڑیوں میں بٹ گئی تو تم میں سے ہر شخص نے بہ آسانی اسے توڑڈالا۔اس مثال سے تم اپنا معاملہ سمجھ سکتے ہو،تم دس بھائی ہو،گویا یہ رسی کی دس لڑیاں ہیں جو اب تک ایک ساتھ ملی رہی ہیں،اس لئے تم لوگ ہرجگہ طاقت ورثابت ہوتے رہے،کوئی تمہارا کچھ بگاڑنہ سکا،اگر تم لوگ اسی طرح ایک ساتھ ملے رہوگے تو ہرگز کوئی تم کو توڑ نہ سکے گا،اور اگر تم الگ الگ ہوگئے تو تمہارے دشمن تم کو اسی طرح ایک ایک کرکے توڑڈالیں گے جس طرح تم نے رسی کی لڑلیوں کو الگ الگ ہونے کے بعد توڑدیا۔( اتحاد ملت:۲۹)
مسلمانوں کی شان ان کے آپسی اتحاد و اتفاق میں ہے ،نبی کریم ﷺ نے اپنی مبارک تعلیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو شیر وشکر کی طرح جوڑا اورایک کیا اور قرآن وحدیث میں اتحاد و اتفاق کی ترغیب بھی دلائی گئی۔امت نے جب تک اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو سمجھا وہ باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے اور جب میں ان انتشار اور خانہ جنگی شروع ہوئی اور آپسی تنازعات پیدا ہونے لگے اور بہانے بنا کر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرنا شروع کیا تو زوال اور ذلت مقدر بن گیا ،ناکامی و نامرادی سے دو چار ہونا پڑا،اس بات کا تجزیہ کرتے ہوئے شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒنے اس وقت فرمایا وجب وہ مالٹا کی جیل سے رہا ہوئے جنہیں تحریک ِ آزادی کے سرخیل ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا تھا جن میں سے ایک مالٹا کی قید و بند کی زندگی ہے ،جب وہ وہاں سے دارالعلوم دیوبند آئے اور علماء وطلباء کے ایک بڑے مجمع میں فرمایا کہ :ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں اور فرمایا:میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پور ی دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی لحاظ سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے ،ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا ،دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ،اس لئے میں وہیںسے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروںکہ قرآب کریم کولفظاً اورمعنا عام کیا جائے ۔بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی قائم کئے جائیں ۔بڑوں کو درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشنان کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے۔اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کوکسی قیمت برداشت نہ کیا جائے ۔( وحدت ِ امت :۳۹)
علامہ اقبال ؒ نے بہت خوب کہا تھا:
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک  بھی،  اللہ بھی،  قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھ ایک
فرقہ بندی ہے  کہیں  اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے  میں  پنپنے  کی  یہی باتیں ہیں
اسلام ایمان والوں کو متحد رہنے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم بھی دیا اور اسلام نے جو بے مثال اتحاد پیدا فرمایا اور ٹوٹے دلوں کو جوڑا ،بکھرے ہوئے انسانوں کو ایک جگہ کیا اس کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا :واعتصموابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا  واذکرو ا نعمت اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ۔( اٰل عمران :۱۰۳)اور اللہ کی رسی کوسب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو ،اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو ،اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ،پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑدیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔
اس وقت ہمارے اتحاد کاامتحان ہے،کیوں کہ 13؍مئی کو ہماری ریاست میں لوک سبھاالیکشن ہونے والا ہے،ویسے پورے ملک میں الگ الگ تاریخوں میں ووٹنگ ہورہی ہے،اور بہت سی ریاستوں میں ووٹنگ ہوبھی چکی ہے اور چند ریاستوں میں ہونے والی ہے۔یہ اس ملک کی تاریخ کا اہم ترین الیکشن ہے،مفکرین کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جس میں انتخابات ایک تاریخ ساز موڑ پر ہے ،ظالم طاقتوں کے ظلم وجور کو ختم کرنے،ملک کی امن وسلامتی کی بقا،دستور وحقوق کے تحفظ کے لئے پورے اتحاد کے ساتھ مسلمانوں کو بالخصوص ووٹ کے استعمال کرنے کی سخت ضرورت ہے،ہماری معمولی کوتاہی اور لاپرواہی سنگین نتائج سے دوچار کرے گی۔
مسلمان ویسے ووٹ کے استعمال کرنے اور حق رائے سے فائدہ اٹھانے میں غافل ثابت ہوئے ہیں ،مسلمانوں کی بڑی تعدادغفلت میںووٹ ڈالنے سے ہی بے خبر رہتی ہیں ،جب کہ گذشتہ کئی مہینوں بلکہ اسمبلی انتخابات سے قبل سے ہی علماء ومفکرین ملت کو اس سلسلہ میں بیدارکرتے آئے ہیں اور ووٹ کے استعمال کرنے کی طرف ہرممکن اعتبار سے توجہ دلاتے رہے ہیں ۔اس کے باوجود بھی لاپراہی کے نمونے ہمارے سامنے ہیں ۔مزید برآ ں یہ ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ بکھرجاتا ہے،مسلمان جلد ہی لالچ اور مادی منفعت کے سبز باغ سے متاثر ہوکر اپنے ضمیر کا سوداکرنے سے دریغ نہیںکرتے،ہرسیاسی جماعت کا نمائندہ مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،اور ان سیاسی نمائندوں ولیڈروں کے چمچے مسلمانوں کے ووٹ کا سودا بھی آسانی کے ساتھ کردیتے ہیں۔لیکن اس مرتبہ کی صورت حال بہت مختلف ہے،اس موقع پر نہ ہمیں ووٹ ڈالنے سے پیچھے رہنا ہے اور نہ ہی ووٹ کو بٹنے وتقسیم ہونے دینا ہے۔
  ہمارا ووٹ ان شاء اللہ ملک کی تاریخ رقم کرنے والا ہوگا،ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے ظالم حکومتوں کو اقتدارسے محروم کرسکتے ہیں،ہم اپنے ووٹ کے ذریعے ملک کی سلامتی ،امن وانصاف کے قیام اور حقوق ودستور کے تحفظ کے لئے اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔یہ صحیح بات ہے کہ کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کے حق میں صد فی صد مخلص اورہمدرد نہیں ہے لیکن ہمیں ایسے موقع پر اس اصول کو فراموش نہیں کرناچاہیے کہ ہمیں کم مُضراور نقصان دہ کا انتخاب کرنا ہے اور ایسی جماعت کے حق میں اپنے ووٹ کو استعمال کرنا ہے جو ملکی سطح پر ظالم جماعت کا مقابلہ کرسکے ،ہمارے ووٹ غیر مستحکم اور غیر ملحق مقامی جماعتوں کے حق میں چلاجائے گا تو اس کے نتیجے میں ہم فرقہ پرست جماعت کو کامیان ہونے سے نہیں روک سکتے۔
گذشتہ دس سالہ کارکردگی ،تفرقہ وتعصب کی سیاست ،ظلم وانصافی ،حقوق سلبی ،بے روزگاری اور امن وامان کی تباہی،بے قصوروں کی اموات ،مسلمانوں کی املاک بربادی کی داستان ِالم ہمارے سامنے ہیں اس کو پیش نظر رکھ کر ملک وملت کی بھلائی وخیر خواہی کے سچے جذبے اور دین وشریعت کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف متحد ہوکر اپنے ووٹ کو استعمال کریں۔کوشش کرنا ہمارا کام ہے،نتائج ظاہر کرنا کائنات کے خالق ومالک پروردگارعالم کے قبضہ میں ہیں۔ظاہری تدبیروں ،عملی کوششوں کے ساتھ رب تعالی کی بارگاہ میں دست بہ دعا رہنا،خیر وسلامتی کے لئے التجائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔شاعر نے خوب کہا ہے:
     ؎   متحد ہوتو بدل ڈالودنیا کا نظام     منتشر ہوتو مرو شور مچاتے کیوں ہو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×