اسلامیاتفقہ و فتاوی

قربانی کے چند ضروری مسائل

مفتی عبدالمنعم فاروقی

قربانی اسلامی عبادات میں ایک اہم اور عظیم الشان عبادت ہے، یہ دراصل بندہ کی اپنے رب سے بے پناہ محبت وچاہت اور غیر معمولی تعلق کی نشانی و علامت ہے، بوقت قربانی بندہ بظاہر جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے مگر اصلاً وہ حکم الٰہی پر سر تسلیم خم کر رہا ہوتا ہے اور اس عمل کے ذریعہ زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ جس طرح بحکم الٰہی جانور کے گلے پر میں نے بخوشی چھری چلا ہے جب کبھی حکم الٰہی اور خواہش نفسانی میں ٹکراؤ ہوگا تو اس وقت حکم الٰہی کو پورا کرنے کے لئے بخوشی خواہشات کو ذبح کردوں گا اور اس موقع پر مجھے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی ،بندہ اپنے اس مخلصانہ جذبہ کے ذریعہ تقرب الٰہی کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ شریعت(حکم الٰہی ) طبیعت پر غالب آجاتی ہے تو پھر اسے محبوبیت کا پروانہ دے دیا جاتا ہے اور یہ تقرب کا اعلیٰ مقام ہے جو دراصل بڑی قربانیوں کے بعد دیا جاتا ہے ،قربانی حضرت خلیلؑ کی اپنے رب سے محبت و چاہت کا بالکل نرالہ اور حکم الٰہی کی عظمت و اہمیت بتانے کا عاشقانہ انداز ، یہ درحقیقت اپنے مضبوط ارادہ کا عملی اظہار ، تسلیم ورضا کا پیکر اور سعادت مندی کا عظیم مظہر اور خلیل اللہ ؑ محبت الٰہی میں ڈوب کر اپنے بیٹے ذبیح اللہ ؑ کو قربان کرنے کی کی عظیم یاد گار اور اس کی نقل ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیل ؑ کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیا تک اہل ایمان کے لئے اس کی نقل کو لازم قرار دے دیا گیا بلکہ اپنے حبیب ؐ کی زبانی یہ اعلان کروادیا گیا کہ ایام قربانی میں خون بہانا(جانوروں کی قربانی )سے زیادہ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت خلیلؑ اور ان کے لائق فرزند حضرت ذبیحؑ کی یادگار اور کی اپنے رب سے بے پناہ وابستگی ووارفتگی کی علامت ہے جو انہوں نے ذبح اسماعیل ؑ کی شکل میں دربار ِ الٰہی میں پیش کیا تھا اور تقرب الٰہی کی چاہت رکھنے والوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ محبت الٰہی زبانی نہیں بلکہ اطاعت کا تقاضہ کرتی ہے اور سچی محبت کرنے والا سب کچھ قربان کرنے تیار ہوجاتا ہے اور محبت الٰہی تو ایسی محبت ہے جس پر تمام محبتوں کو قربان کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
قربانی اسلامی شعار: قربانی اسلامی شعار اور اس کی اہم ترین نشانی ہے ، جس کی حفاظت ہر صاحب ایمان پر اپنی بساط کے مطابق لازم ہے ، یہی وجہ ہے کہ چودہ سوسال سے مسلمان ہر سال قربانی کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ حکم الٰہی بجالاتے ہوئے اسلامی شعار کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے آرہے ہیں ، اپنے عملی کردار کے ذریعہ قربانی کی اہمیت کو دنیاکے سامنے واضح کرتے جارہے ہیں اور دنیا کو بتارہے ہیں کہ مسلمان احکام الٰہی کے کس قدر پابند ہیں اور ان کے نزدیک شعائر اسلام کی کس قدر اہمیت وقدر ومنزلت ہے۔ قربانی کا وجوب ۔ قربانی اسلامی شعار ہے ، ایک مہتم بالشان عبادت ہے ، اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے ، تقرب کا اہم ذریعہ ہے ، اللہ تعالیٰ کے یہاں ایام نحرمیں قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل پسندیدہ نہیں ،رسول اللہ ؐ نے پوری زندگی مواظبت کے ساتھ فربانی فرماتے تھے ،اسی مواظبت کی وجہ سے جمہور علمائے کرامؒ نے قربانی کو واجب کہا ہے اور ہر صاحب استطاعت پر ایام قربانی میںقربانی کو لازم قرار دیا ہے اوراستطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے شخص گناہگار قرار دیا ہے (رد المحتار:۵؍۲۰۰)۔قربانی نہ کرنے پر وعید۔ جس طرح قربانی کرنے پر غیر معمولی اجر وثواب کی نوید سنائی گئی ہے اسی طرح استطاعت کے باوجودقربانی نہ کرنے پر سخت وعید بتلائی گئی ہے، ایسے شخص پر رسول اللہؐ نے اپنی ناراضگی ظاہر ہوتے ہوئے فرمایا : استطاعت کے باوجود جولوگ قربانی نہیں کرتے انہیں چاہئے کہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے،( مسند احمد: ۸۲۷۳)۔
قربانی کس پر واجب ہے؟قربانی ہر اس عاقل،بالغ،مقیم، مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو عید الاضحیٰ کے دنوں میں نصاب کا مالک ہویعنی ساڑھے سات تولہ سونا( 4875.87گرام) یاساڑھے باون تولہ چاندی(4125.612)یا اس کی قیمت کے برابر رقم اس کی ملکیت میں موجود ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورت واستعمال سے زائد اتنا سامان ہو جس کی ملکیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے یا رہائش کے مکان سے زائد مکان یا جائداد وغیرہ ہو یا استعمال سے زائد گھریلو سامان ہو جس کی ملکیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو یامال تجارت ،شیئرز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہے(سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو،تجارتی ہو یا تجارت کے علاوہ،اگر وہ استعمال میں نہ ہو تو اسے بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا،لہذا اگر مذکورہ سب چیزیں ملا کر یا بعض ملا کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر قربانی واجب ہے) رد المحتار ،ج۶،ص۳۱۲)۔ قربانی کے لئے مال پر ـ سال گزرنے کی شرط نہیں:قربانی کے واجب ہونے کے لئے نصاب کے مال یارقم یا ضرورت سے زائد سامان پرسال گزرنا شرط نہیں ہے نیز مال کا تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے (حوالہ سابق) ۔ ایام قربانی میں صاحب نصاب ہوجائے؟۔ ایک شخص قربانی کے دنوں کے آنے سے پہلے صاحب نصاب نہیں تھا مگر قربانی دنوں میں یعنی دسویں ذوالحجہ سے لے کر بارہویں ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے صاحب نصاحب ہوجائے یا ضرورت واستعمال سے زائد مال کا مالک ہوجائے تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی( شامی ۹؍۴۵۸) ۔
قربانی کے ایام گزر جائیں اور قربانی نہ کرے تو؟ قربانی کے ایام گزرجائیں اور صاحب نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی ہو تو اس صورت میں توبہ واستغفار کرے اور اس کوتاہی کی تلافی کرے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک متوسط بکرایا اس کی قیمت کے برابر رقم صدقہ کرے (رد المحتار :۶/۳۲۰)البتہ بعض فقہا کے نزدیک بڑے جانور (بیل،گائے،اونٹ) کے ایک حصے کے برابر رقم صدقہ کرنا بھی کافی ہے (فتاوی دارالعلوم دیوبند ،فتوی نمبر ۱۳۵۹)۔ قربانی کے جانوراور انکی عمر یں‘‘ : بکرا ،بھیڑ،دُنبہ،گائے،بھینس،اونٹ ،،مادہ ہویانر سب درست ہے ،بکرا اور بھیڑ ایک سال سے کم نہ ہو،دُنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے جب کہ خوب فربہ ہو اور دیکھنے میں پورے ایک سال کا معلوم ہوتا ہو،گائے اور بھینس پورے دوسال کے ہوں،اور اونٹ پورے پانچ سال کے ہوں ،ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے(عالمگیری ۵؍۲۹۷،درمختار مع الشامی ۹؍۴۶۶)۔عیب دار جانور کی قربانی ؟ جو جانور اندھا،کانا،لنگڑا ،پوپلا،مکمل دم کٹا ہوا،تھن سوکھے ہو یا تہائی یا پھر اس سے زائد روشنی سے محروم ہو،یا تہائی کان کٹا ہو،یا اتنا لنگڑا ہو جو چل کر مذبح تک بھی نہ جاسکے ،یا دم کاا کثر حصہ کٹا ہو، بکری کے دونوں تھن میں سے ایک خشک ہوجائے یا کٹ جائے،گائے اور اونٹ کے چار تھن میں سے دومکمل خشک ہو جائے یا پھر کٹ جائے ،زبان اتنی کٹ جائے جس سے وہ چرنے پر قادر نہ ہو،سینگ ٹوٹ جائے اور اس کا اثر دماغ تک پہنچ جائے ،کان کا اکثر حصہ کٹ جائے یا پھر اتنا لاغر ہو کہ جس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ رہے تو ان میں سے کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی(عالمگیری ۵؍۲۹۸،۲۹۷،۲۹۸،۲۹۹، مسائل قربانی)۔خصی اور گابھن جانور کی قربانی؟ خصی کیا ہوا جانور عیب دار نہیں بلکہ صحت مند کہلاتا ہے اس لئے اس کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے،گابھن جانور کی قربانی اس وقت مکروہ ہے جبکہ ولادت کا وقت قریب ہو ورنا مکروہ بھی نہیں(۵؍۲۸۷،۵؍۲۹۸)۔ قربانی کے وقت جانور میں عیب پیداہوجائے ؟ قربانی کا جانور پہلے بے عیب تھا لیکن قربانی کرتے وقت اچھل کود کی وجہ سے عیب دار ہوگیا تو اس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ،ایسے جانور کی قربانی شرعاً درست ہے( ہندیہ ۵؍۲۹۹)۔ قربانی کے ایام: عید الاضحی کی دسویں تاریخ کی صبح سے لے کر بارہویں تاریخ کے غروب تک قربانی کا وقت ہے ،لیکن ان میں پہلا دن افضل ہے ،پھر دوسرا دن اس کے بعد تیسرا دن(البحر الرائق:۸/۲۰۰)۔
رات میں قربانی کرنا؟ ، قربانی کے دنوں کی راتوں میں قربانی کو فقہا نے مکروہ تنزیہی بتایا ہے کیونکہ تاریکی کی وجہ سے غلطی کا احتمال رہتا ہےکہ ذبح میں جانور کی جن رگوں کو کاٹنا مطلوب ہے وہ صحیح طور پر کٹ پائیں مگر قربانی کے ان مقامات پر جہاں روشنی کا معقول نظم ہے وہاں رات میں قربانی کرنا بلا کراہت جائز ہے(کتاب الفتاویٰ:۴/۱۶۳)۔
قربانی کا وقت:شہر میں کسی ایک جگہ نماز عید پڑھنے کے بعد اور ایسے دیہات جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو وہاں صبح صادق کے بعد قربانی کر نا درست ہے اگر کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں(مثلا شدید بارش کی وجہ سے) تو ایسی صورت میں بعد زوال یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد قربانی کرے،اگر کسی نے شہر میں نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تو اسکی قربانی درست نہ ہوگی(عالمگیری۵؍۲۹۵، البحر الرائق ۹؍ ۳۲۲) ۔ کس جانور میں کتنے حصے ؟بکرا اور دُنبہ میں ایک آدمی کی طرف سے ،گائے اور اونٹ میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی کی طرف سے ،اگر سات سے کم ہوتو بھی درست ہے(ابوداؤد حدیث ۲۸۰۸،عالمگیری ۵؍۳۰۴)۔حصہ افضل ہے یا بکرا؟مستقل بکرے کی قربانی زیادہ افضل اور بہتر ہے ،جب کہ اس کی قیمت بڑے جانور کے ساتویں حصہ کے برابر یا اس سے زیاد ہو،(فتاوی محمودیہ ۲۶؍۲۵۷)۔قربانی کے بجائے قیمت صدقہ کرنا ؟ قربانی کے ایام میں صاحب استطاعت پر قربانی کرنا ہی واجب ہے ، قربانی نہ کرکے کسی غریب وفقیر کو اس کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہ ہوگی بلکہ اس کے لئے قربانی کرنا ہی لازم ہوگا،اگر کسی نے ایام قربانی میں کسی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو پھر قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا(عالمگیری ۵؍۲۹۴،الدرالمختار مع الشامی ۶؍۳۲۱) ۔ قربانی کے بجائے رقم کا صدقہ کرنا؟ گندگی اور تعفن کے خوف اور عدم صفائی کا بہانہ بناکر بعض لوگ قربانی کے بجائے اس کی رقم صدقہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جو کہ بالکل غیر شرعی ہے ،جب مکمل احتیاط کے ساتھ دیگر ضروری کام انجام دئے جا سکتے ہیں تو پھر اسی احتیاط کے ساتھ قربانی کیوں نہیں کی جا سکتی ہے ،قربانی کے دنوں میں ہر صاحب استطاعت پر قربانی ہی لازم ہے ،قربانی نہ کرتے ہوئے اس کی رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے اس طرح کی حماقت کردی تو اس کا ہرگز بدل بن نہیں سکتا (فتاوی دارالعلوم دیوبند)۔ پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی؟ ہر صاحب نصاب مردو عورت پر الگ الگ قربانی واجب ہے ، اگر ایک گھر میں متعدد صاحب نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحب نصاب بالغ مرد وعورت پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگا کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے لہذا دیگر عبادات (نماز،روزہ،زکوۃ وغیرہ ) کی طرح ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہے (الدر المختار علی رد المحتار ۵؍ ۲۰۰)۔ ضروری وضاحت: ترمذی شریف اور بعض دوسری روایات کی وجہ سے بعض فقہا نے پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی کو درست قرار دیا ہے لیکن اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث ثواب پر محمول ہے یعنی کوئی شخص ایک جانور یا جانور میں قربانی کا ایک حصہ رکھے اور اس میں بطور ثواب کے پورے افراد خانہ کو شامل کرے تو اس کی اجازت ہے کیونکہ خود رسول اللہؐ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا ان لوگوں کی طرف سے فرمایا تھا جو قربانی نہ کر سکیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر میں متعدد صاحب نصاب ہوں اور سب کی طرف سے ایک کافی ہوجائے ،رہا وہ حدیث جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہؐ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا تھا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا ،یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ غربت عام تھی اور بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی یا کسی پر بھی قربانی واجب نہیں ہوتی تھی مگر وہ حصول ثواب کے لئے قربانی کرتا تھا اور اس میں گھر کے سارے افراد کو شامل کر لیتا تھا ۔ رسول اللہؐ اور مرحومین کی طرف سے قر بانی کرنا ؟ صاحب نصاب پہلے اپنی قربانی ادا کرے ،کیونکہ یہ اس پر واجب ہے ، اگر گنجائش ہو تو دیگر مرحومین کی جانب سے قربانی دینا جائز ہے اور رسول اللہ ؐ کی طرف سے قربانی دینا مستحب اور بڑے اجر کی بات ہے اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی مستقلاً ایک حصہ اسی نیت سے لے،لیکن اگر اسکی بھی گنجائش نہ ہوتو چھ آدمی مل کر بھی ایک حصہ آپ ؐ کی طرف سے دے سکتے ہیں(فتاوی محمودیہ ۲۶؍ ۳۱۰- ۳۱۴)۔
حاجی کی طرف سے قربانی؟حض قران یا حج تمتع کرنے کی صورت میں حاجی کے لئے دم شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ حرم مکی کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے ،یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں دی جاتی ہے ،رہی بات اگر حاجی مقیم مالدار ہے تو اس پر مالداری اور اقامت کی وجہ سے عید الاضحی کے دنوں میں قربانی واجب ہے ،چاہے وہ حج کے مقام پر دے یا دوسروں کے ذریعہ اپنے ملک میں دے ،اگر حاجی مسافر ہے تو اس پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہے یعنی اگر حاجی ایام حج میں پندرہ دن یا اس سے زائد مکہ میں قیام کی نیت سے ٹہرے اور آٹھ ذیالحجہ کو منی روانہ ہونے سے پہلے پندرہ دن مکمل ہو جائیں تو یہ حاجی مقیم شمار ہوگا اور صاحب استطاعت ہونے کی صورت میں دم شکر کے علاوہ عید کی قربانی بھی واجب ہوگی(بدائع الصنائع:۲/۱۷۴)۔
قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا؟قربانی کے دنوں میں بڑے جانور میں قربانی کے حصوں کے ساتھ عقیقہ کی نیت سے حصے رکھنا بھی جائز ہے (فتاویٰ محمودیہ ۲۶؍ ۴۱۲)۔ ایک مُلک والے کی دوسرے مُلک میں قربانی ؟ اگر ایک ملک کا شخص دوسرے ملک میں اپنی قربانی کا کسی کو وکیل بنائے توقربانی کے وقت میں تو جانور کی جگہ کا اعتبار ہوگا لیکن تاریخ میں قربانی کرانے والے شخص کے ملک کی تاریخ کا اعتبار ہوگا(کتاب المسائل ۲؍۳۰۱)۔ قربانی کرنے ولا اگر وفات پاجائے تو ؟ دس ذوالحجہ سے قبل یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہو جائے تو قربانی ساقط ہو جائے گی اور خریدا ہوا جانور وارثوں کا ہوگا (فتاویٰ ہندیہ)۔ مرنے والا اگر قربانی کی وصیت کرے تو؟کسی شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس کی قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے ،خود کچھ نہ کھائے(قربانی کے احکام ومسائل ،مفتی حسن ٹونکی 2015) ۔شہرت کی خاطر گراں قیمت جانور خریدنا ؟آج کل بعض لوگ محض ناموری اور دکھاوے کیلئے گراں قیمت جانور خریدتے ہیں اور پھر اس کا خوب چرچا کرتے ہیں ،تو اس ریاکاری کے ساتھ ثواب کی امید رکھنا محض فریب ہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عمل مقبول ہے جو خالص اللہ کی رضا کیلئے کیا جائے ،ریا کاری کا جانور کتنا ہی قیمتی ہو اللہ کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہیں ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُم(الحج ۳۷)۔جانور ذبح کرتے وقت تمام شرکا ء کا نام لینا لازمی ہے؟اگر بڑے جانور میں حصے دار متعین ہوچکے ہیں تو ذبح کے وقت ہر ایک کا نام لینا ضروری نہیں ،بلکہ مطلق ذبح سے سب کی قربانی درست ہو جائے گی(عالمگیری۵؍۲۹۴)۔ تمام شریکوں کا عبادت کی نیت کرنا ضروری ہے: بڑے جانور میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کا قربت وعبادت کی نیت کرنا لازم ہے ،مثلاً اضحیہ،ولیمہ ،عقیقہ کی نیت ،اگر کسی شخص نے اس کی نیت نہ کی تو اس میں حصہ لینے والے کسی بھی شریک کی قربانی درست نہ ہوگی(شامی ۹؍۴۷۲)۔بڑے جانور میں قربانی اور نذر کا حصہ رکھنا؟ قربانی کے بڑے جانور میں قربانی اور نذر دونوں طرح کے حصے رکھنا درست ہے ،البتہ مختلف جہات کے واجب کو ایک جانور میں جمع کرنا بہتر نہیں ہے ،نیز چونکہ نذر کے قربانی کا گوشت صدقہ کرنا واجب ہے اس لئے اس حصہ کو فقرا میں تقسیم کرنا لازم ہے( فتاوی عالمگیر:۵؍ ۳۰۴ )۔ بوقت قربانی بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو ؟جانور ذبح کرنے والا شخص اگر مسلمان ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دے تو پھر ذبیحہ حلال نہ ہوگا(ہندیہ۵؍۲۸۸)۔عورت اور باشعور بچے کا ذبیحہ حلال ہے؟ مسلمان عورت اگر جانور ذبح کر ے تو بلاشبہ ذبیحہ حلال ہے ،اسی طرح نابالغ باشعور بچہ جو اللہ کا نام لے کر ذبح پر قادر ہے تو اس کا ذبیحہ بھی حلال ہے(درمختار ۹؍۳۵۹،ہندیہ۵؍۲۸۵) ۔قربانی کا مسنون طریقہ کیا ہے؟قربانی خود اپنے ہاتھ سے کرے، اگر خود نہ کر سکے تو کم از کم قربانی کے وقت سامنے موجود رہے ،جانور کو لٹانے سے قبل چھری تیز کر لے،جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رُخ لٹائیں ،ذبح کے وقت قربانی کی نیت کرے۔دعائے قربانیذبح کرتے وقت یہ آیت پڑھے:انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین ،قل ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین ،لا شریک لہ وبذٰلک امرت وانا اول المسلمین (ابوداؤد ۲؍۳۸۶)ذبح سے پہلے بسم اللہ ،اللہ اکبرپڑھے،ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے :اللھم تقبل منی کما تقبلت من حبیبک محمد ﷺ ومن خلیلک ابراہیم علیھما السلام ( کتاب المسائل ۲؍ ۳۲۳ بحوالہ تاتار خانیہ ۱۷؍۴۰۰)۔قربانی کا گوشت : قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا مستحب ہے ،ایک اپنے لئے ،دوسرا حصہ رشتہ دار ،دوست و احباب کیلئے اور تیسرا حصہ غریب ونادارلوگوں کیلئے ،لیکن اگر خود ہی سارا گوشت کھالے تب بھی کوئی حرج نہیں ( عالمگیری ۵؍۳۰۰ )۔قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا؟ غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا جائز اور درست ہے ،موجودہ حالات میں اس طرح کا سلوک کرنا مستحب اور مستحسن ہے ( کتاب الفتاوی ۴؍۱۵۰)۔قربانی کی کھال کا مصرف:بہتر یہی ہے کہ قربانی کی کھال صدقہ میں دے دی جائے،اسی طرح مدارس میں پڑھنے والے نادار طلبہ کو دینا بھی درست ہے (مسائل قربانی وعقیقہ ،فتاوی محمودیہ ۱۷؍۴۶۲)قربانی کرنے والے کیلئے ناخن اور بال کاٹنا؟جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے اور جو شخص قربانی دینے کا ارادہ رکھے تو ایسے شخص کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے جب تک کہ وہ اپنی طرف سے قربانی نہ دے دیں ،اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو قربانی کا ارادہ رکھے ہوں،(سنن نسائی ۴۳۶۶)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×