اسلامیات

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

محسن احسان رحمانی مبلغ: جامعہ اسلامیہ دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد

کٹیں جو چند گردنیں تو قوم کی نجات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

"جہاد” روئے زمین پر فتنہ وفساد کو ختم کرتاہے، امن کو عام کرتاہے، اللہ کا کلمہ بلند کرتا ہے، اور کفر کے کلمہ کو ذلیل ورسوا کرتاہے، نیز "جہاد” اسلام کو پھیلانے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے جو حق کی دعوت کے راستہ میں داعیوں اور مبلغین کے آڑے آتی ہیں، اسی طرح ان لوگوں کا ہاتھ پکڑنے کے لیے جہاد مشروع کیا ہے جن کا نفس ان داعیان کو تکلیف دینے اور ان پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔(تلخیص ازرحمۃاللہ الواسعۃ،ج:۵،ص:۳۷۴)
جہاد کا مقصد یہ ہے کہ اہل اسلام مامون و مطمئن ہو کر خدا کی عبادت کر سکیں اور دولت ایمان و توحید کفار کے ہاتھوں سے محفوظ ہو_

قارئین کرام! اسلام جہاد کے ذریعے دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اسلام جہاد کے ذریعے شدت پسندی اور جارحیت کا درس نہیں دیتا٬ لوٹ مار غارت گری نہیں سکھاتا بلکہ اسلام جہاد کے ذریعے امن و امان کی بقا چاہتا ہے٬ یہی وجہ ہے کہ اسلام ناحق قتل و قتال کو حرام قرار دیتا ہے
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (اسراء: 33)

اور جس نے کسی شخص کو بغیر جرم کے قتل کیا تو اسلام کہتا ہے: فكأنما قتل الناس جميعا کہ اس نے تمام انسانوں کا خون کیا(مائدہ 23 )

لیکن جب مسلمانوں پر ظلم کیا جائے٬ فلسطین جیسی انبیاء کی سرزمین پر شدت پسندی اور جارحیت کو عام کیا جائے٬ خدا کے گھروں کو بموں سے اڑادیاجائے٬ ماؤں بہنوں کے سَروں سے چَھتوں کو کھینچ لیا جائے٬ معصوم بچوں کے چیتھڑوں کو اڑایا جائے٬ دینِ اسلام کی حامی قوم کو ہر طرح سے تار تار کرنے کفار کا جمِّ غفیر اپنے ٹینکوں کے ذریعے برسر پیکار ہو جائے٬ لومڑی کی چال چل کر٬ آدم خور درندوں کے رنگ میں رنگ کر٬ خدائی قانون کے خلاف اور خدائی مخلوق کے خلاف بغاوت کا پرچار کیا جائے تو ایسے وقت میں قرآن ببانگِ دُہل یہ اعلان کرتا ہے وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّہ "ان سے اس حد تک جہاد کیا جائے کہ فساد ختم ہو اور پورا دین اللہ کا رہ جائے”(انفال:39)

پروردگار عالم نے مجاہد کو غیر مجاہد پر فضیلت دی ہے: فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً (نساء:آیت 95)

خود قرآن نے یہ تقسیم عمل میں لائی ہے کہ کچھ مسلمان جہاد کا کام کریں اور کچھ تعلیم دین میں مشغول رہیں فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ (توبہ:122)

پروردگار عالم کا ارشاد ہے: فقاتل فی سبیل اللہ اے نبی! اللہ کے راستے میں جہاد کیجیے_ اورحرض المؤمنین مسلمانوں کو (بھی)جہاد کی ترغیب دیجیے (نساء:84)
مجاہدوں کے سالار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے ذریعے تین مرتبہ شہادت کی تمنا کی_
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ

قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر شہید کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر شہید کردیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر شہید کردیا جاؤں۔‘‘(کتاب الجہاد: ح: 2797 بخاری)

یہ بھی فرمایا: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرے وہ اللہ کے راستے میں ہے (مسلم: 4922)

قرآن پیغام دے رہا ہے: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُـبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَـمِيْعًا اے ایمان والو! جہاد کے لیے انفرادی و اجتماعی ہر طرح تیار رہو (نساء:71)

سورہ نساء کی 71 تا 78 آیتوں میں رب ذوالجلال مسلمانوں کو حسبِ ضرورت جہاد پر ابھار رہے ہیں اور جہاد کو نماز اور روزے کے ساتھ بیان کر کے واضح کر رہے ہیں کہ وقت آنے پر جہاد بھی ارکانِ اسلام میں سے ہے بلکہ جہاد دیگر ارکان کی ادائیگی میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے_

پوری سورہ "انفال” و "توبہ” کو پڑھیے! خلاق عالم اپنی راہ میں گردن کٹانے کا حکم دے رہا ہے_
جس درخت کے نیچے جہاد کی بیعت لی گئی اسے بھی یاد دلاتا ہے! لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (الفتح 81 )
مجاہد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں! مجاہد قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ رنگ تو خون کا ہوگا مگر خوشبو مشک کی پھوٹ رہی ہوگی اور یہ بھی فرمایا! جو مسلمان جہاد کی تمنا نہیں رکھتا اس کے دل میں جہاد کا کوئی اثر نہ ہو اور جہاد میں بزدلی کی توفرمایا مات علی شعبۃ من النفاق وہ نفاق کی ایک خصلت پر مرا_

اج اس عنوان کے انتخاب کا مقصد کم از کم ہمارے اذہان و قلوب میں جہاد کی تمنا ہوجائے٬ آج ہمارے دلوں میں جہاد کی آرزو نہیں٬ جہاد کی تمنا کے شوق کو لیے بغیر ہم مٹی میں دفن ہو رہے ہیں_
یادرکھیے! جب تک امت مسلمہ نے قانونِ جہاد پر عمل کیا اس وقت تک ظالم اور جابر بادشاہوں کے سر ان کے قدموں میں رہے٬
ان کے عزم و حوصلوں سے پہاڑوں کے جگر شَق ہوتے رہے٬ ان کی تلواریں تقدیریں بدلتی رہیں٬ لیکن جب ہم نے جہاد کے فریضے کو چھوڑ دیا تو ذلت و نکبت ہمارا مقدر بن گئی٬ جب ہماری تلوار کو زنگ لگ گیا تو ہماری قسمت بھی زنگ آلود ہوگئی٬ جب ہمارے بازؤں کی طاقت ختم ہونے لگی تو ہماری بہنوں کی عزتیں بھی لٹنے لگی٬ جب ہمارے خون کی حرارت سرد پڑ گئی تو ہماری ایمانی جرات بھی ماند پڑنے لگی٬ آج فلسطین کی سرزمین کتنی ہی بہنوں کے خون سے سرخ ہو رہی ہے٬ غزہ جیسے کتنے ہی مظلوم ملکوں کی چیخوں سے تاریخ کا کلیجہ دہل رہا ہے_
یہ ہماری اپنی غلطی کی سزا ہے ہم نے تلوار ہاتھ سے چھوڑ دی غلامی کا طوق ہماری گردن میں آپڑا____
یاد رہے ہمیں اس عبادتِ جہاد کی شمع کو دل میں جلائے رکھنا ہے__
خواہ ہوائیں مخالف ہو٬ راستہ پرخطر ہو٬ ساری دنیا دشمن ہو___
باطل طاقتیں ہمارے قدم اکھاڑنے کے لیے اکٹھے ہو چکی ہوں____
بقولِ شاعر؂
مانا کہ بساطِ عالم پر٬ مجبور ہے تو لاچار ہے تو
باطل کے عصاکر کے آگے٬ ٹوٹی ہوئی تلوار ہے تو
آباد ہیں وہ برباد ہے تو٬ زردار ہیں وہ نادار ہے تو
وہ روئے زمین کے مالک ہیں اور دوشِ زمین پہ بار ہے تو
لیکن یہ جہاں سب تیرا ہے٬ تاریخِ سلف دہراتا چل
ایمان و عمل کے پربط پر٬ اسلام کا نغمہ گاتا چل
وہ نعرہ لگا تو میدان میں٬ کہ شیروں کے سینے پھٹ جائیں
ہر جنبشِ چشمِ ابرو سے شیطان کے لشکر کٹ جائے

آج بھی اسلاف کی قربانیاں میدانِ جہاد سے یہ آواز دیرہی ہیں کہ؂

شعلہ بَن کے پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو

کلمہ گو خون سے لالہ زار معصوم غزہ کی بہنیں ہمارے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑ رہی ہیں ؂

کیوں گرفتارِ طلِسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی امتی بزدل وناکام نہیں ہر ایک اپنے بھائی کے لیے وقت آنے پرخون کا نزرانہ پیش کرنے کا جذبہ رکھتاہے ؂

ناکام ہے تو کیا ہوا پھر بھی کچھ کام کر جاؤ
مردانہ وار جیو اور مردانہ وار مر جاؤ

زمین کے نقشے پر مشکل سے نظر آنے والے رذیل وزلیل اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر یہ بول بولنے کی ہمت رکھیں؂

جاں نثار ہیں ہم٬ مار کے یا مَر کے رہیں گے
میدان میں آئیں گے تو کچھ کر کے رہیں گے
اے دورِ فتن ! اے دورِ انگریزاں
پیمانہ تیری عمر کا ہم بھر کے رہیں گے

سوائے ہم ہمارے آقا کے کسی ملک یا کسی شخص کے غلام نہیں٬ تاریخ گواہ ہے ہم نے غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دی ہے کیونکہ ؂

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ہم ہر مذہب اور انسان کا احترام کرتے ہیں مگر اپنے مذہبی شعار اور انسانیت پر آنچ کسی مائی کے لعل کی بھی برداشت نہیں کر سکتے؂

تمہیں مبارک ہو حکمرانی٬ مخالفت نہ ہم کریں گے
اگر شریعت پہ ہاتھ ڈالا٬ نہ تم رہو گے نہ ہم رہیں گے

قارئین! ہمارا روحانی رشتہ سید المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم کے بے خوف و با ضمیر اصحابؓ سے ملتا ہے جی ہاں ہم سیف اللہ خالدؓ کی اولاد ہیں مزاجا فولاد ہیں٬
ہماری رگوں میں اسماعیل شہیدؒ کا جذبہ آج بھی کروٹیں لیتا ہے جن کے خون نے ہمیں یہ درس دیا ؂

ہے مقصد زندگانی کا کہ کوئی کام کر جانا
خیالِ موت بیجا ہے وہ جب آئے تو مر جانا

ہاں محمد بن قاسمؒ کی غیرت ہمارا ایمان ہے جن کی بہادری اور جذبۂ جہاد نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ؂

جب جان اسی کو دینی ہے تو پھر پرواہ نہ کر
موت تجھ پر آپڑے یا تو موت پر جا پڑا

طارق ابن زیادؒ کی جرات ہماری پہچان ہے جس نے ہمیں بتایا؂
فدا کرے جو بہرِ ایماں سر بھی سینہ بھی
مبارک اس کاجینا بھی مبارک اس کا مرنا بھی

ہاں ہاں صلاح الدین ایوبیؒ کا جذبہ ہمارا ہتھیار ہے٬ ٹیپوؒ کا حوصلہ ہماری تلوار ہے٬ قاسم نانوتویؒ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ہمارے سالار ہیں؂
جو ہزار بار کفن سر سے باندھ کے نکلے
ہزار بار اٌس کی راہ میں حیات ملی

ہاں ہمیں امن و امان کی بزم سجانا بھی آتا ہے اور اللہ کی راہ میں گردن کٹانا بھی آتا ہے ہمارے سینوں میں جہاد کی تمنا ہے موقع کا انتظار ہے پھر دیکھنا انشاءاللہ دشمن پر یلغار ہی یلغار ہے_
اخیر میں اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ پاک57 اسلامی ممالک میں فلسطین کے لیے تڑپنے کے اسباب پیدا پیدافرمائے اللہ نے جو جسمی ذہنی معدنی اور جغرافیائی طاقتیں عطا کی ہیں اس کو بروئے کار لانے کی توفیق عطافرمائے اوریہ سمجھ عطاکرے اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ کہ بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے (توبہ:111) ؂

فنا فی اللہ کی تہ میں بَقا کا راز مُزمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

اور

وہ قوم جس پہ فرض ستاروں کا کام تھا
وہ غرقِ زن نشانۂ طاوس و چنگ ہے
یا رب ہماری قوم کو شوقِ جہاد دے
اب تک دلوں میں دہشت تیغ و تفنگ ہے
وما توفیقی الا باللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×