اسلامیات

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

از قلم : مفتی محمد سعید احمد قاسمی (استاذ مدرسہ قاسم العلوم تانڈور )

انسانی زندگی میں آرزؤں اور تمناؤں کی کوئی انتہا نہیں ہے، اس لیے یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہترین اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے،چوں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دین فطرت بھی ہے،اس لیے وہ ترقی اور عروج کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا،اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب اسلام آخرت کی زندگی کو اہمیت دیتا ہے،اخروی کام یابی کو مطمح نظر بنانے کی تاکید کرتا ہے اور انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے اسی پہلو سے ان کو بشیر و نذیر یعنی جنت کی خوشخبری دینے والا اور جہنم سے ہوشیار کرنے والا کہا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب اسلام دنیاوی ترقی سے منع کرتا ہے البتہ اسلام نے اس کے لیے ایک معیار اور حدمتعین کر دی تاکہ انسان آخرت سے غافل نہ رہے، اسلام کا راستہ اعتدال اور میانہ روی کا ہے وہ انسان کا مادی وعقلی ارتقا بھی چاہتا ہے اور اخلاقی بلندی اور روحانی پاکیزگی بھی چاہتا ہے ۔ پہلے زمانہ کے مسلمان دین کے ساتھ دنیوی اعتبار سے بھی آگے بڑھنے کا ہنر جانتے تھے محتاجگی اور بے جاقتاعت کی زندگی انہیں پسند نہیں تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ علم و ہنر یاکسی فن میں دوسروں سے پیچھے رہیں یہی وہ فکرتھی کہ جس کی وجہ سے وہ مستقبل کی تعمیر وترقی کے لیے نئی تدبیریں سوچتے اور عزت کی زندگی گزارتے ۔

آج جو سائنس اہل مغرب کے لیے نقطہ عروج سمجھی جارہی ہے اور جس کے برگ و بار سے دنیا آج لطف اندوز ہورہی ہے اور جو دیگر ضروریات زندگی کی طرح انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ اور لازمہ بن چکی ہے اس کی تخم ریزی مسلمانوں نے ہی کی،چنانچہ بیسویں صدی کے معروف عالم دین مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی فرماتے ہیں: ’’یور پی احیاء کا کوئی واحدگوشہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی فکر کا مقروض نہ ہو۔

ایک زمانہ میں مسلمانوں نے نہایت ہی محیر العقول طریقہ پر ترقی کی اور اپنے کارناموں کا نقش صفحہ تاریخ پر اس طرح ثبت کیا کہ دنیا کی دوسری قومیں ان کی عظمت و برتری کے سامنے سر اطاعت خم کر دینے پر مجبور ہوگئیں ۔ ایک زمانہ تک مسلمان تدبیر وطریق عمل میں اتنا زیادہ آگے تھے کہ ان کے مخالفین ان کی تدبیروں کو دیکھ کر پکاراٹھتے تھے کہ ہم تو ابھی تک ایسی تدبیروں سے واقف بھی نہ تھے ۔ غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکین کی دس ہزارفوج نے ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر چڑھائی کی تھی جب وہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے اور وہاں شہر کے کنارے گہری خندق کھدی ہوئی دیکھی تو ابوسفیان نے کہا خدا کی قسم! یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اس طرح تدبیر کرنا ابھی تک عرب نہیں جانتے تھے ۔ فرانسیسی مؤرخ والٹیر نے لکھا ہے کہ پہلی گھڑی جس سے یورپ واقف ہوا وہ مسلم خلیفہ ہارون الرشید کی گھڑی تھی جو اس نے ۸۰۷ء میں بطور تحفہ فرانس کے بادشاہ شار لیمان کو بھیجی یورپ کے لیے وہ اس زمانہ میں بالکل نئی چیز تھی دربار کے لوگوں نے جب اس کو دیکھا تو حیران ہو کر رہ گئے۔ دنیا میں رائج نظام تعلیم پرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ یورپ نے آج تک کسی نئے علم وفن کا اضافہ نہیں کیا بلکہ سارے کے سارے علوم وفنون وہی ہیں جو مسلمانوں کے بتائے ہوئے ہیں : علم قرآن ، حدیث، فقہ میراث، عقائد، کلام، تصوف، اخلاق، نفس، بدائع،عجائب ،صرف، نحو لغت، اشتقاق،الهیات منطق، ریاضیات،حساب، ہندسہ، مساحه، نجوم، طبیعیات، کیمیا،معدنیات، طب، معاشیات ، عمرانیات، بحریات وغیرہ یہ سارے وہ علوم ہیں جن کی نشاند ہی اسلام اور مسلمانوں نے کی ۔ آنحضرت ﷺﷺ کی وفات کے چند سالوں بعد ہی مسلمانوں نے جزیرۃ العرب سے نکل کر دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنا شروع کیا تو سخت ترین عداوتوں اور حوصلہ فرسا مقاومتوں کے باوجود اس انداز سے آگے بڑھتے رہے کہ پہلی صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے انہوں نے مشرق میں سندھ اور مغرب میں اندلس تک اپنی حکومت و مملکت کے حدود وسیع کر لیے اور ان ملکوں میں صرف سیاسی طاقت وقوت ہی نہیں بلکہ اسلام کی حقانی تعلیمات اور اسلامی تمدن و تہذیب کی ناقابل رد دلکشی کو ایسے عام کیا کہ چندملکوں کو چھوڑ کر تمام مفتوحہ ممالک خالص اسلامی ملک بن گئے ۔
لیکن اب حالات بالکل دگرگوں ہیں مسلمان جوکسی وقت ساری دنیا میں سب سے آگے تھے آج دنیا میں سب سے پیچھے ہو گئے زندگی کے ہر شعبہ میں ان پر ادبار وانحطاط کا تسلط ہے اور علم وعمل کے ہر میدان میں وہ سب سے پیچھے نظر آتے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایمانی قوت، اسلامی غیرت اور تعمیری ذہن نہیں رہا، آگے بڑھنے کا حوصلہ جوترقی یافتہ اقوام کی کامیابی کاراز ہے مسلمانوں نے اس سے منہ موڑ لیا تقلید اورغلامانہ نقل وحرکت کو باعث افتخارسمجھنے لگے ظاہر ہے کہ یہ احساس انسان کو انحطاط اور ذلت و رسوائی کا ہی تحفہ دے سکتا ہے اس سے عظمت کا نشان حاصل نہیں کیا جا سکتا، حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اپنی زندگیو ں میں مقصد کا فقدان نظر آتا ہے جب انسان کی زندگی کا کوئی اہم مقصد نہ ہوتو و ہ لازمی طور پر ترقی کے جذبہ سے خالی ہو گا اور ایسے لوگ زندہ لاشوں کی طرح روئے زمین پر وقت گزار رہے ہوتے ہیں ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ایسے لوگ اپنے آرام دہ کمروں سے باہر نکل کر محنت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ یادرکھیں! جس قوم کے افراد جوش، مقصد اورلگن سے بیزار ہوں اور جن میں تبدیلی اور ترقی کا جذبہ نہ ہو وہ اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بامقصد بنائیں اور اپنے مستقبل اور قوم کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ترقی کے جذبات کے ساتھ میدان عمل میں کو د پڑیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×