اسلامیات

تسکین قلب ذکر الٰہی میں مضمر  

مفتی عبدالمنعم فاروقی

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کے ذریعہ دنیا کو وجود بخشا ، چاند ،سورج،ستارے ، سیارے، دریا ،سمندراور شجر وحجراور دیگر بے شمار حیوانات ،نباتات اور جمادات کے ذریعہ اس کو مزین کرکے اس کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگا دئیے، پھر اس خوبصورت ودلکش دنیا کو تمام مخلوقات میں اشرف  مخلوق حضرت انسان کے ذریعہ آباد فرمایاپھر انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی تمام چیزیں تمہارے لئے ہیں اور تم میرے لئے ہو یعنی دنیا میں موجود ہر قسم کی چیزیں تمہارے استعمال کیلئے ہیں لیکن تم لوگ صرف اور صرف ہماری عبادت اور اطاعت کیلئے ہو ، خالق کی نظر میں وہی انسان محترم ومکرم ہے جو دنیا میں رہتا ضرور ہے مگر اس کی دلکشی اور چمک دمک میں گم نہیں ہوجاتا بلکہ ہر وقت اپنے خالق ومالک کی تخلیق کردہ چیزوں میں غور فکر کرتے ہوئے اس کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرتا رہتا ہے اور زبان ِحال سے یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے اپنے ایمان ویقین میں پختگی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے : ان فی خلق السمٰوٰت والارض واختلاف الیل والنہار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السمآء من مآء فأحیا بہ الارض بعد موتھا وبث فیھا من کل دآبۃ وتصریف الریٰح والسحاب المسخر بین السمآء والارض لاٰیٰت لقوم یعقلون(البقرہ ۱۶۴) آسمانوں اور زمین کی پیدائش ،رات اور دن کا آنا جانا ،کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لے کر سمندروں میں چلنا،آسمان سے پانی نازل کرکے مردہ زمین کو زندہ کر دینا ،اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا ،ہواؤں کے رخ بدلنا اور بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ،ان سب میں عقل رکھنے والوں کے لئے قدرتِ خداوندی کی نشانیاں ہیں۔
کائنات ،اشیاء کائنات کے ساتھ خود اپنی ذات میںڈوب کر غور وفکر کرتے ہوئے ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق ومالک کی طرف اپنی جبین ِ نیاز ٹیک کر ہمہ وقت اسی کی عبادت و اطاعت اور اس کی شکر گذاری کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے ۔درحقیقت ایسے ہی لوگ دنیا میں کا میاب اور آخرت میں فلاح یاب ہو نے والے ہیں قرآن مجید ہے :یایھا الذین اٰمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم وافعلواالخیر لعلکم تفلحون(الحج ۷۷)،اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بعض مخصوص عبادتیں مخصوص اوقات کے ساتھ مختص فرمائی ہیں مگر اپنے نام ِ مبار ک کے ذکر اور اس کے ورد کیلئے نہ کوئی زمانہ متعین ہے نہ کوئی وقت اور نہ ہی کوئی حد مقرر ہے ،بلکہ ایک فرمانبردار بندہ کی پہچا ن یہ ہے کہ وہ ہر وقت ،ہر لمحہ اور ہر لحظہ اپنے رب کی یاد اور اس کے نام کے ذکر سے اپنی زبان تر رکھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں بڑی تسکین رکھی ہے ،جب بندہ خلوص دل کے ساتھ اپنے رب کا نام نامی اسم گرامی لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کے بے چین ومضطرب دل کو چین وسکون عطا فرماتے ہیں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب(الرعد ۲۸) ایمان والوں کے دل ذکر خداوندی سے اطمینان پاتے ہیں ،خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے۔  ذکر اللہ کے ذریعہ کیوں نہ دلوں کو اطمینان حاصل ہو گا حقیقت میں ذکر اللہ تو بے چین اور بے قرار دلوں کا قراراور لاعلاج مرض کا علاج ہے ،یہ وہ عظیم نسخہ ٔ شفاء ہے جس کا انتخاب طبیب اعظم ربِ دوعالم نے فرمایا ہے ،جس کے ذریعہ روز اول سے لے آج تک انگنت اور لاتعداد مریضوں نے شفاء پائی ہے اور قیامت تک پاتے رہیں گے،اور مریضوں کیلئے اس سے بڑھ کر خوش کُن بات کیا ہو سکتی ہے کہ یہ دواء بے حد قیمتی ہونے کے باوجود اس کی قیمت کچھ نہیں ،عقلمند ہیں وہ لوگ جو اس قدر قیمتی مگر نہایت آسان دوا کو استعمال کرکے اپنے دلوں کو سکون پہنچاتے رہتے ہیں اور بے وقوف بلکہ پاگل ہیں وہ لوگ جو اس کو استعمال نہ کر کے اپنے دلوں کو بے چین اور زندگیوں کو بے مزہ کر تے رہتے ہیں ، دنیا کی دھن دولت ،بلند وبالا محلات ،قیمتی اشیاء اور طاقت واقتدار سے سکون حاصل کیا نہیں جا سکتا سکون تو خدا کی یاد سے حاصل ہوتا ہے شاعر کہتا ہے   ؎
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کثرت سے اُس کا ذکر کیا کریں اور ہر حالت میں کریں ، ذکر کی مجالس قائم کریں یہ عمل محبوب اور پسندیدہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے یا أ یھا الذین آمنوا اذکراللہ ذکراً کثیراً(الاحزاب ۳۴)اے ایمان والو! اللہ کا ذکر خوب کیا کرو۔ رسول اکرم ﷺ نے ذکر کی مجلسیں قائم کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن کی خوش خبری سنائی ہے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بعض لوگوں کا حشر اس طرح فرمائیں گے کہ ان کے چہروں پر نور چمکتا ہوا ہوگا اور وہ موتیوں کے ممبروں پر ہوں گے ،لوگ ان پر رشک کر رہے ہوں گے وہ انبیاء اور شہدا نہیں ہوں گے (یہ سن کر حاضرین میں سے) کسی نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ ان (قابل رشک حضرات)کا حال بیان کر دیجئے تا کہ ہم انہیں پہنچان لیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:ھم المتحابون فی اللہ من قبائل شتی وبلاد شتی یجتمعون علیٰ ذکر اللہ یذکرونہ(طبرانی) وہ حضرات وہ ہوں گے جو اللہ کی محبت میں مختلف جگہوں سے مختلف خاندانوں سے آ آکر ایک جگہ جمع ہوکر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں گے۔نبی اکرم ﷺ نے امت کو کثرت کے ساتھ ذکر خداوندی کرنے کی تلقین فرمائی ہے ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ:اکثروا ذکر اللہ حتی یقولوا مجنون(مسند احمد)اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں۔
اللہ تعالیٰ نے آخرت میں اپنے ان بندے اور بندیوں کیلئے مغفرت اورجنت کا وعدہ فرمایا ہے جو کثرت کے ساتھ اُسے یاد کرتے ہیں ،ہر وقت یاد الہی سے اپنی زبانوں کو تر اور دلوں کو آباد رکھتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: والذاکرین اللہ کثیراً والذاکرات أعداللہ لھم مغفرۃ وأجراً عظیماً (الاحزاب ۳۴) (یاد رکھ لو کہ) کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ قابل مبارک باد بلکہ قابل تقلید ہیں وہ مرد وعورتیں جو معمول بنا کر پابندی کے ساتھ ذکر کیا کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ دنیا میں راحت وسکون اور آخرت میں رب کریم سے اجر ِ عظیم پاتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جن گھر وں میں ذکر ہوتا ہے اور وہ مکانات جن کے مکین ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں وہ مکانات آسمان والوں کیلئے ایسے چمکتے ہیں جیسے زمین والوں کیلئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔کتابوں میں حدیث بطاقہ کے نام سے ایک مشہور حدیثِ شریف ہے جس میں آپ ﷺ نے قیامت کے دن ایک گنہگار شخص کی بار گاہِ خداوندی میں پیشی کا ذکر فرمایا ہے ارشاد نبویﷺ ہے کہ: قیامت کے دن میری امت میں سے ایک شخص کو ساری مخلوق کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس کے سامنے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے جن میں سے ہر دفتر کی لمبائی گویا حد نظر تک ہوگی،پھر اس سے فرمایا جائے گا کہ تیرے جو اعمال ان دفتروں میں لکھے گئے ہیں کیا ان میں سے کسی کا تجھے انکار ہے ؟اور کیاتیرے اعمال کو نوٹ کرنے والے فرشتوں نے تجھ پر کوئی ظلم کیا ہے ،وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار! اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرے پاس کوئی عذر ہے ،وہ عرض کرے گا خدا یا میرے پاس کوئی عذر نہیں ، ( تمام حاضرین اور خود اسے اس بات کا یقین ہوگا کہ اب اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچنا مشکل ہے) پھراللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائیںگے ،ہاں! ہمارے پاس تیری ایک خاص نیکی بھی ہے ،اور آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا ،یہ فرماکر ایک کاغذ کا پُرزہ نکا لا جائے گا ،اس میں لکھا ہوگا’’ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘ اور اس سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے وزن کے پاس حاضر ہو ،وہ عرض کرے گا اے اللہ!ان دفتروں کے سامنے اس پُر زہ کی کیا حیثیت ہے اور اس سے اس کو کیا نسبت ہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گا ،نہیں آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا،رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ننانوے دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے ،اور کاغذ کا وہ پُرزہ دوسرے پلڑے میں ،پس ہلکے ہوجائیں گے وہ سارے دفتر اور وزنی ہوجائے گا وہ کاغذ کا پُرزہ ، (آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ) فلا یثقل مع اسم اللہ شیی اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے نام کے مقابلہ میں وزنی اور بھاری نہیں ہو سکتی۔ (ترمذی)اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے علماء امت فرماتے ہیں کہ یہ وہ بندہ ہو گا جس نے ایک زمانہ تک گناہوں میں ڈوب کر زندگی گذاری ہوگی اور پھر توفیق خداوندی سے کسی وقت اللہ تعالیٰ کا نام اور اس کے اسم گرامی کا ذکر دل کی گہرائی کے ساتھ کیا ہوگا تو اللہ تعالیٰ خلوص نیت اور دل کی گہرائی کے ساتھ ذکر خداوندی کے نتیجہ میں اس کی بخشش فرمادیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے مردہ دل زندہ اور بیمار دل شفا پاجاتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام سے غفلت اور لاپرواہی کے نتیجہ میں دلوں پر غفلت کے پردے اور بدبختی کے تالے پڑ جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے بدبختی ،محرومی بڑھتے بڑھتے دل کو مردہ کردیتی ہے اور یہی دوری قیامت کے دن عذاب خداوندی کا سبب بھی ہوسکتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ومن یعرض عن ذکر ربہ یسلکہ عذابا صعداً(الجن ۱۷)  یعنی جوشخص اللہ تعالیٰ کے ذکر یعنی احکامات الہی جس میں ذکر اور یاد خدا  بھی شامل ہے سے دوری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کل قیامت کے دن سخت ترین عذاب میں داخل کریں گے اور وہ دہکتی ،بھڑکتی ہوئی جہنم کی آگ ہوگی۔ آج مسلمانوں کی اکثریت یاد الہی سے غافل ہے ،ان کے پاس دنیاداری اور گپ شپ کے لئے تو وقت ہے مگر خدا کی یاد اور اس کے عظیم نام کے ذکر کیلئے وقت نہیں ،وہ زندگی کے قیمتی اوقات اور اہم ترین لمحات کو غیبت وچغلی میں صرف کررہے ہیں مگر خدا کے نام کی ایک تسبیح بھی پڑھنے کو تیار نہیں ، اللہ والوں سے محبت وعقیدت وعقیدت کا تو اظہار کرتے ہیں مگر وہ اللہ والے کس چیز کے ذریعہ وہاں تک پہنچے اس سے بے خبر ہیں ،اللہ تعالیٰ کے مقرب ومحبوب بندوں نے اللہ کے نامِ نامی کی رٹ لگا کر ہی اور اس اسمِ گرامی کو دل میں بٹھا کر ہی وہ مقام پایا ہے ،غیروں کی ڈگر پر چلتے ہوئے مسلمان بھی مادی چیزوں کے ذریعہ سکون وچین حاصل کرنے کی ناکام کو ششوں میں مصروف ہیں ،دنیا میں بہت سوں نے مادی چیزوں کے ذریعہ چین وسکون پانے کوشش کی مگر ناکام رہے ،بعضوں نے تخت وتاج کو سکون کا ذریعہ سمجھا مگر زبردست طریقہ سے منہ کی کھائی ،مسلمان اپنے نبی ﷺ اور ان کے سچے متبعین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کہ کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی کس طرح انہیں چین وسکون حاصل تھا اور کس درجہ سکون کے ساتھ وہ دنیا سے رخصت ہوئے ،قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بے شمار احادیث  میںجو نسخہ ٔ کیمیاء بتایا گیا ہے وہ ہے ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ ۔جب جسم شاکر ہوتا ہے اور دل ذاکر ہوتا ہے تو پھر اُسے کانٹے بھی پھول معلوم ہونے لگتے ہیں ، جب ذاکر کو ذکر کرتے کرتے اللہ کی محبت ومعرفت کا جام نصیب ہوجاتا ہے تو پھر کانٹوں بھرا  بستر بھی اُ س کے آرام میں مخل نہیں ہونے پاتا  اسی کو شاعر کہتا ہے    ؎
کتنی تسکین ہے وابستہ ترے نام کے ساتھ
نیند کا نٹوں پہ بھی آجاتی ہے آرام کے ساتھ!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×