مساجد واجتماعات کے تعلق سے مفتیان کرام اور بڑے دارالافتاوں کو فوری طور پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ مصیبت کے وقت تو مسجد میں جانا چاہیے اور لوگ مساجد سے روک رہے ہیں، کچھ لوگ تو فمن أظلم ممن منع مساجد الله والی آیت اس تناظر میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں مساجد میں داخلے کو محدود کردینا حرام ہے۔ احتیاط اور اسباب کا اختیار توکل کے خلاف نہیں ہے، اس موضوع پر کافی لکھا جا چکا ہے، مزید کی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مساجد میں جانا تقرب الی اللہ کا اہم ذریعہ ہے، لیکن اگر اجتماعات ہی ہلاکت یا مرض کا سبب ہوں، تو اجتماعات کے بغیر ہی اللہ کا تقرب حاصل کرنا شریعت کا مقصد سمجھا جائے گا۔ ملیشیا میں تبلیغی اجتماع میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور وہیں پر کووڈ 19 پھیل گیا۔ آج وہ ملک بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ ممبئی کی کسی مسجد میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آچکا ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ علماء اس تعلق سے فیصلہ کریں کہ مساجد میں داخلے کو محدود کیا جائے جو کہ خود مسلمانوں کے اختیار میں ہے، یا مساجد کو بند ہونے دیا جائے، جو حکومت بہر حال کرے گی۔ اس تعلق سے مہاراشٹر کے مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے جو تجویز دی ہے، پورے ملک میں اس پر عمل ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق امام و موذن اور خدام، مسجد میں رہ کر جماعت قائم کرتے رہیں اور بیرونی لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز قائم کریں۔ جہاں امام وموذن وغیرہ نہیں ہیں، وہاں محلے کے کچھ لوگ معتکف ہوجائیں۔ اس طرح جماعت کا نظام قائم رہے گا۔ ہم نے گزشتہ چند سالوں میں اکثر وبیشتر تاخیر سے فیصلے لیے ہیں جن سے بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوے آگے بڑھ کر فیصلے لینے چاہییں اور دشمنوں کے عزائم کو ختم کردینا چاہیے۔
بالکل بہت جلد فیصلے لینے چاہئیں