ملت اسلامیہ کی رسوائی کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لیتے ،ایسا لگتا ہے کہ ذلت و رسوائی ہماری زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، گزشتہ یکم مئی ۲۰۱۹ کو روزنامہ سیاست کے صفحات پر ایک ایسی خبر شائع ہوئی جسے پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا ، اطلاع کے مطابق ملکاجگری کے علاقہ میں ایک مسلم لڑکی نے اپنے عاشق کے ساتھ ایک مند ر میں شادی رچالی ،لڑکی کے والدین کو اس بات کا علم اس وقت ہو ا جب خود پولیس اس کی اطلاع دی ،کہ تمہاری لڑ کی نے شادی کر لی ہے اور تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ، اس بات کو سننے کے بعد والدین کے قدموں تلے زمین کھسک گئی اور انہوں نے فوری طور پر ملکاجگری پولس اسٹیش کا رخ کیا ،جہا بتایا گیا کہ ان کی لڑکی معراج نے اپنے عاشق راجو سے شادی رچالی ہے اور شادی کے لئے مندر کا انتخاب کیا گیا ہے ،لڑکی کی زندگی کی خود اس کے ہاتھوں تباہی پر افسوس ظاہر کر تے ہوئے والدین نے اس لڑ کی کو اپنے حق میں مردہ قرار دیا،اور صدمے کے عالم میں لڑ کے اور اسکے رشتہ داروں پر الزام لگا یا کہ انہوں نے زبردستی شادی مندر میں کروائی ہے(روزنامہ سیاست یکم مئی ۲۰۱۹ء)۔
اس قسم کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے آئے دن ایسے افسوس ناک واقعات تسلسل کے ساتھ رونمہ ہو رہے ہیں ، ملک کی تقریباً تمام ریاستوں کی یہی صورت حال ہے ،صدمہ سے دوچار والدین کی خدمت میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اس قسم کے واقعات کے لئے جہاں مخلوط نظام تعلیم اور بے حیائی کا ماحول ذمہ دار ہے، وہیں اولین ذمہ دارخود والدین اور گھر کے سر پرست ہیں،اگر والدین بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں ایمان کی قدرو قیمت اور خدا و رسول کی محبت راسخ کر تے تو ہماری بچیاں ماحول سے متاثر ہو کر ایمان کا سودا نہ کر تی ،روز اول سے بچوں کی دینی تربیت نہ کر نا ایک ایسی مجرمانہ حرکت ہے ، جس سے پوری نسل تباہ ہو جاتی ہے ، کیا مسلمان والدین نہیں جانتے کہ فرقہ پرست جماعتوں کی جانب سے مسلمان بچیوں کودام محبت میں پھانس کر انہیں مرتد بنانے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں؟
اس قسم کے واقعات محض اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بند کاوشوں کا نتیجہ ہے ، یہ کس قدر شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ مسلم والدین کی گود میں پل کر جوان ہو نے والی ایک مسلمان لڑکی غیر مسلم اولاد کو جنم دے، اور خود بھی ایمان کی دولت سے محروم ہو جائے، آخر ہماری غیرت کہاں گئی؟ آخر ہم کب جا گیں گے؟
محترم قارئین! ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس صورت حال کے تدارک کے لئے مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیں،پورے مسلم معاشرہ میں تحفظ ایمان کی مستقل تحریک چلانا نا گزیر ہے ، گھر گھر ایمان بیداری مہم کی ضرورت ہے کسی بھی قوم کا اصل سر مایہ اس کے نوجوان ہیں ، اگر یہی بے راہ روی کا شکار ہو جائیں تو پھر اس قوم کو تاریک مستقبل سے کوئی بچا نہیں سکتا،ارتداد کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے جہا ں طویل المدت منصوبہ بندی ضروری ہے وہیں فوری طور پر بعض عملی اقدامات ضروری انتہائی ضروری ہیں،مثلاً :
(۱) والدین اپنی لڑکیوں کو اسمارٹ فون سے دور رکھیں، یہ کام اگر چہ مشکل ضرور ہے لیکن ایمان کے تحفظ کے لئے اگر مشکل سے مشکل قدم اٹھانا ناگزیر ہو جائے تو ہمیں اس سے ذریغ نہیں کر نا چاہئے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو ان کے موبائل کونٹاکٹ لسٹ پر نظر رکھیں اور ہمیشہ جانچتے رہیں کہ ان کی لسٹ کسی ہندو لڑکے کا نمبر تو نہیں ہے ، بسا اوقات ہماری لڑکیوں کی غیر مسلم ساتھی لڑکیاں بھی مسلم لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکوں سے قریب کر نے میں اہم کر دار ادا کرتی ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ غیر مسلم لڑکیوں کے نمبر یا اس سے رابطہ پر نظر رکھیں۔
(۲) لڑکیوں کے دین و ایمان کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی لڑکیوں کو غیر مسلم منجمنٹ والے اسکو ل یا کالج میں تعلیم دلوانے سے گریز کریں، اکثر مسلمان معیاری تعلیم کے بہانے غیر مسلم کالجوں کو ترجیح دیتے ہیں،شہر کے بیشتر غیر مسلم کالجوں میں مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہو تا ہے ، ہماری لڑکیاں ماحول سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہیں ، اس تعلیم پر تف ہے جو دین و ایمان کی بربادی کی شرط پر حاصل ہو ، اس سے بہتر ہے کہ ہماری بچیاں تعلیم ہی سے محروم رہے تاکہ ان کا سر مایائے ایمان محفوظ رہے،غیر مسلم کالجوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ معیاری کالج قائم کریں،جہا ں اسلامی رویات و اقدار کے تحفظ رکے ساتھ تعلیم دی جائے ،اس وقت المیہ یہ ہے کہ اول تو مسلم کالجوں کی کمی ہے،پھر جو کالج ہیںوہ مخلوط تعلیم اور دین بے زار ماحول میں غیر مسلم کالجوں سے کچھ کم نہیں ہیں، بیشتر مسلم کالجوں کی انتظامیہ صرف تجارت پر نظر رکھتی ہے ۔
(۳) یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکیوں کی تنہا آمد رفت پر روک لگائی جائے ، بہتر ہے کہ والد سگا بھائی یا چچا اور ماموں وغیرہ کے ساتھ لڑکیاں کالج جایا کریں۔
(۴) اسی طرح ہم اپنی بچیوں کو اسکول یا کالج کی پکنک پر جانے کی اجازت نہ دیں، اس لئے کہ عورت کے لئے بغیر محرم کے سفر درست نہیں ، اس قسم کی پکنک مختلف برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔
(۵) نیز ہم اپنی بچیوں کو ایسی کمپیوٹر کلاسس یا ٹیوشن کلاسس سے دور رکھیں جو غیر مسلموں کی جانب سے چلائی جاتی ہیں، ایس کلاسس میں بالعموم مرد ٹیچر ہو تے ہیں اور فرقہ پرست جماعتیں ایسے مراکز کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتی ہیں۔
(۶) یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان لڑکیاں اور مسلم خواتین غیر مسلم اسکولس یا کالجس اور آفسوں میں ملازمت سے بالکلیہ احتراز کریں ،خصوصاً کال سنٹر کی ملازمت خطرے کی گھنٹی ہے ، اس وقت ہائی ٹیک سٹی میں مسلم لڑکیوں کی خاصی تعداد ہے جو رات کی شفٹ میں ملازمت کر تی ہے ، ایسی لڑکیوں کے والدین کو سوچنا چاہیے کہ وہ محض چند پیسوں کی خاطر اپنی بیٹیوں کو کس تباہی کی جانب دھکیل رہیں ہیں،
(۷) مسلمان بچیوں کے تحفظ کے لئے سب سے ضروری چیز پردہ ہے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو پردہ کا عادی بنائیں ،پردہ خدا کا حکم ہے اور اسی میں ناموس نسواں کا تحفظ ہے جب کہ بے پردگی ساری برائیوں کی جڑ ہے ، اسکول کی ابتدائی جماعتوں ہی سے ہم اپنی بچیوں کو برقع اور شرعی پردے کا پابند بنائیں،
(۸) آج کا سب سے بڑا فتنہ سیل فون ہے ، سیل فون کا غیر محتاط استعمال ساری مصیبتیں لا رہا ہے ، والدین کو چاہیئے کہ موبائیل کے سم کارڈ لڑکیوں کے نام پر نہ خریدیں ، بلکہ باپ بھائی شوہر یا گھر کے کسی مرد کے نام پر سم کارڈ لئے جائیں ،
(۹) اسی طرح موبائی رچارج کر نے کے لئے دکان پر لڑکیوں کو نہ بھیجیں اس سے فون نمبرات کے دوسروں کے ہاتھ لگنے کا امکان رہتا ہے۔
(۱۰) گھر کا الکٹرانک سامان خراب ہونے کی صورت میں اس کی درستگی کے لئے غیر مسلم افراد کو مدعو نہ کریں،اگر نا گزیر ہوتو گھر کی خوتین کو نامحرم کے روبرو آنے سے روکیں اور مردوں کی موجود گی میں ایسے افراد بلائے جائیں ،
یہ چند وقتی تدابیر ہیں ،لیکن اس فتنہ سے حفاظت کے لئے والدین کو منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے،چھوٹی عمر ہی سے بچوں کی دینی تربیت کا اہتمام، گھر میں دینی ماحول کی فراہمی، والدین کی دین داری اور اولاد میں خوف و خدا وفکر آخرت کو پروان چڑھانا انتہائی ضروری ہے ۔