نئی دہلی: 22؍دسمبر(پریس نوٹ) صدسالہ تقریبا ت کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام مدنی ہال صدر دفتر جمعیۃ علماء ہند میں جمعیۃ کے سابق صدر فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادیؒ اوراولین پارلیامنٹ کے ممبر حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی خدمات و قربانیوں پر دورروزہ سیمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی نشست ِاول کی صدارت مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند اور دوسری نشست کی صدارت نائب امیر الہند حضرت مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے کی ،جب کہ نظامت کے فرائض کنوینر سیمینار مولانا حفظ الرحمنؒ مفتی محمد عفان منصورپوری اور کنوینر سیمینار مولانا فخر الدین مرادآبادی مفتی ضیاء الحق خیرآبادی نے مشترکہ طور پر انجام دیے ۔
اس موقع پر اپنے افتتاحی خطاب میں صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا محموداسعد مدنی نے کہا کہ مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد علیہما الرحمہ کی حیات وخدمات پر منعقد ہونے والے اس سیمینارمیں آپ حضرات کو خوش آمدید کہتے ہوئے قلبی مسرت محسوس کررہا ہوں۔ آپ حضرات نے اپنی مصروفیات کے باوجود ہماری دعوت پر لبیک کہا اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے یہاں تشریف لائے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخ ہند سے واقفیت رکھنے والے حضرات اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کی ایک طویل و روشن تاریخ ہے ، جس کے ہرہر صفحہ پر اس کے اکابر کی قربانیوں کی داستان ثبت ہے۔ ہم انہیں خدمات کو قوم کے سامنے ہر پہلو سے لانا چاہتے ہیں۔ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور فخر المحدثین مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی رحمہا اللہ بالترتیب جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری اور صدر تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ان کی عظیم الشان خدمات تاریخ ہند کا ایک روشن باب ہیں۔
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی تحریک آزادی کے بطل جلیل ، جمعیۃ علماء ہندکے پالیسی ساز جنرل سکریٹری ، معرکہ حریت میں قائدانہ رول ادا کرنے والے ، ندوۃ المصنفین جیسے معیاری تحقیقی وتصنیفی ادارہ کے بانیوں میں ایک ، مایہ ناز محقق ، قصص القرآن ، اخلاق وفلسفہ اخلاق اور اسلام کا اقتصادی نظام جیسی کتابوں کے مصنف،میدان سیاست کے نامور زعیم وقائد اور آزاد ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے قابل فخر ممبراور آزادی کے بعد یہاں کے شکستہ حال مسلمانوں کے محافظ وپاسبان تھے ۔آپ جمعیۃ علماء کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے دوٹوک انداز میں تقسیم ملک کی مخالفت کرتے ہیںاور جب تقسیم کا سانحہ پیش آیا تودہلی میں فسادات کی آگ بھڑکنے اور صورتحال کی شدت وسنگینی کے باوجود زخمیوں ، مظلوموں اور خانماں برباد افراد کی مدد کرنے کے لئے جان کی پروا کئے بغیر دہلی کی سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں ۔کچھ تو بات تھی کہ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری جیسا شخص کہتا ہے کہ مولاناحفظ الرحمٰن صاحب نے فسادات کے زمانے میں دہلی میں مسلمانوں کو بچانے کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں ، میں ان کے بدلہ میں پوری عمر کے اذکار واشغال نثار کرنے کو تیار ہوں۔اس سے ان کی جد وجہد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس سیمینار کی دوسری شخصیت فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمدعلیہ الرحمہ کی ہے۔ آپ نے ہندوستان کی دو عظیم اور ممتاز ومرکزی درسگاہوں مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث رہے، آپ کا شمار ہندوستان کے بلند پایہ محدثین میں ہوتا ہے۔ تدریس کے ساتھ تحریک شیخ الہند سے بھی پوری طرح وابستگی رہی، جمعیۃ علماء کے قیام کے بعد اس میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے ، قید وبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہوئے۔۱۹۵۹ء سے تادم واپسیں جمعیۃ علماء ہند کے صدر رہے، اور اس کے اصلاحی ورفاہی اور ملی وسماجی امور کو ایک نئی جہت عطا کی ،جمعیۃ کے سالانہ اجلاس میں دئے گئے خطبات صدارت سے آپ کی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا محمد سلمان بجنوری صدر اجلاس نشست اول نے کہا کہ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ کی شخصیت میں جامعیت ہے ، ان کی شش جہات شخصیت اور مختلف میدان عمل میں ان کی قربانیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے انھوں نے ایک وقت میں اپنی طرح درجنوں لوگوں کے برابر کام کیا ہے ۔اس کے علاوہ وہ اپنے عقیدے و نظریے پر مستحکم تھے ، جیسا کہ ایک مقالہ نگار نے کہا ہے کہ حضرت مجاہد ملت نے ایک بار برملا کہا تھا کہ عقیدہ تو دور کی بات ہم کسی کے کہنے سے اپنا لباس بھی نہیں بدل سکتے ۔
مولانا ا ٓزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق صدرپروفیسر اخترالواسع َ نے کہا کہ حضرت مجاہد ملت نہ صرف گفتار کے غازی تھے بلکہ کردار کے بھی غازی تھے ، دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ مرد بیان ہی نہ تھے بلکہ قلم کے بھی دھنی تھے ، انھوں نے حوصلہ شکن ماحول میں عزم و حوصلہ کے چٹان بن کر دکھایا ، غالبا 1958 میں جب علی گڑھ میں فساد ہوا تو مسلمانوں کو گھروں سے نکلنے کی اس وقت تک ہمت نہ ہوئی جب تک کہ مولانا حفظ الرحمن نہیں پہنچے ۔انھوں نے پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ طبقہ علماء کی نمایندگی کی ۔ جب آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر آفت آئی تو اس کے تحفظ کے لیے مولانا آگے آئے ، جب کہ یونیورسٹی کے لوگ ان کو لائق خاطر نہیں سمجھتے تھے ، آزادی سے قبل انگریزوں سے لڑے اور آزادی کے بعد مسلمانوں کی بہتری کے لیے قربانیاں دیں ۔ان کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒکے خاندان سے تعلق رکھنے والے جناب ابراہیم حفیظ الرحمن نے بھی مولانا کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالی
دوسری نشست برائے مقالات حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادیؒ کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں مولانا مفتی سید محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ جو شخص بھی اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کے کام کو مسلسل جاری رکھنے کا انتظام فرمادیتے ہیں ۔چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے باضـابطہ کوئی کتاب نہ لکھی ، لیکن آپ کے بعد ایسے لائق شاگرد پیدا ہوئے کہ آج ان کے علم کا فیض جاری وساری ہے ۔یہی بات حضرت علامہ فخرالدین احمد مرادآبادی ؒ کے بارے میں صادق آتی ہے۔ آپ نے جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد اور دارالعلوم دیوبند میں بخاری کا درس دیا اور آپ کے ان دروس کو آپ کے ایک شاگرد حضرت مولانا ریاست علی بجنوری ؒ نے مرتب کیا اورآج یہ کتاب اردو شروحات کے درمیان قبولیت عامہ کا درجہ رکھتی ہے ۔
اس موقع پر کل چار کتابوں کا اجرا بھی عمل آیا،جن کے نام ہیں خطبات مجاہد ملت ، نقوش مجاہد ملت ’’حضرت مولانا محمود حسن گنگوہی اور ان کے نامور خلفائے کرام ‘‘ ’’فتاوی علماء ہند‘‘ (ساٹھ جلدوں ) ’’مولانا محب الحق نقوش و تاثرات‘‘ اور تسہیل القران۔
ان مذکورہ شخصیات کے علاوہ مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند ، مولاناتنویر میاں ہاشمی بیجاپوری،مولانا مفتی انیس الرحما ن قاسمی پٹنہ، پروفیسر شریف حسن قاسمی دہلی سا بق صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی، مولانا شوکت علی خازن جمعیۃ علماء ہند ،مولانا ندیم الواجدی دیوبند،مولانا عبدالرب اعظمی صدر جمعیۃ علماء یوپی ،مفتی جاوید اقبال کشن گنجی صدر جمعیۃ علماء بہار، مولانا نیاز احمد فاروقی ،مولانا عبدالحی صاحب خیر آبادی، مولانا اخترامام عادل، حاجی محمد ہارون بھوپال،مفتی ثناء الہدی قاسمی امارت شرعیہ بہار،پروفیسر اختر الواسع ، مولانا امین الحق عبداللہ کانپوری ، خانوادہ حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ سے تعلق رکھنے والے ابراہیم حفیظ الرحمن ،مونس حسین ،سہیل ایوب زنجانی تنویر پرویز ، مولانا عبدالحمید نعمانی،مولانا ارشد میر سورت، مولانا جمیل الرحمن پرتاپ گڑھی وغیرہ۔
پہلی نشست میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ پر جن لوگوں نے مقالہ پیش کیا ،ان کے نام حسب ذیل ہیں مفتی امداد الحق بختیار قاسمی ،مفتی لقمان سنبھلی،مولانا محمد احمد بجنوری قاسمی ، مولانا وصی سدھارتھ نگری،ڈاکٹر عبید اقبال عاصم ،حافظ محمود سلمہ بن مولانا ضیاء الحق خیر آبادی ،مولانا نوشاد علی معروفی ،مفتی ذکاوت حسین قاسمی ،مولانا سالم جامعی ،مفتی محمد فصاحت ،مولانا ڈاکٹر ابرارقاسمی،مفتی ابو جندل قاسمی تیوڑہ شیخ الحدیث مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ ،مفتی امانت علی قاسمی وقف دارالعلوم دیوبند ،مفتی عین الحق امینی قاسمی، مفتی سعید الظفر بادلی ،مفتی محمد سالم قاسمی،مفتی عبدالمتین صاحب سیوہاروی حفیدہ مولانا بشیر احمد بھٹہ
دوسری نشست میں مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی ؒ پر مقالہ پیش کرنے والوں کے نام حسب ذیل ہیں :مولانا محمد اجمل قاسمی ،مولانا عرفات اعجاز قاسم اعظمی ،مفتی شرف الدین اعظمی ،مولانا عبدالعظیم مبارکپوری ،مولانا خورشید عالم مدنی قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ مظہر العلوم بنارس ،مولانا خورشید عالم مدنی مدرسہ تعلیم الدین مئو شیخ الحدیث مدرسہ تعلیم الدین مئو ،مولانا عبدالعلی فاروقی کا مقالہ انکے بیٹے مولانا حارث عبدالعظیم نے پیش کیا،مولانا جمیل الرحمن پرتاپ گڑھی،مولانا محمد ارشد صاحب معروفی شیخ الحدیث مدرسہ مظہر العلوم بنارس ،منشی یعقوب صاحب وارث حضرت مولانا فخرالدینؒ،مولانا مجتبی ،مولانا انوار عالم اعظمی مظفر پور اعظم گڑھ ،مولانا عطاء اللہ قاسمی مدرسہ ضیاء العلوم پورہ معروف وغیرہ