میر حجاز کو جہاں سے ٹھنڈی ہوائیں آئی تھیں کیا اس ہند کی اب تقدیر بدلنے والی ہے؟ کیا سر زمین ہند میں بسنے والی کروڑوں غیر مسلم اقوام کے لئے رب کائنات نے کوئی بہت بڑا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا فی الواقع بھارت کے لاکھوں باشندوں کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے امکانات روشن ہورہے ہیں؟ کیا مستقبل قریب میں قدرت کوئی ایسا کرشمہ دکھانے والی ہے کہ جوق درجوق غیر مسلم اسلام کا رخ کریں گے؟ موجودہ حالات میں ملک جس رخ پر جارہا ہے اسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید کائنات کے خالق نے بھارت کی تقدیر کو چمکانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جی ہاں! حالات کا رخ یہی بتارہا ہے اور برادرانِ وطن کے ایمان کی تڑپ رکھنے والے پیش گوئی بھی کررہے ہیں کہ بھارت بہت جلد ایک نئی کروٹ لے گا۔ آزادی کے بعد شاید ہی کبھی ایسا منظر دیکھاگیا ہو جیسا منظر اس وقت دیکھا جارہا ہے۔ ملک بھر میں ہندو مسلم اتحاد اور یکجہتی کی جو خوشگوار فضا اس وقت دکھائی دے رہی ہے ، وہ کسی رحمت سے کم نہیں ۔ فرقہ پرستوں کا خیال تھا کہ CAA ہندو مسلم منافرت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا اور وہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو یکا و تنہا کرکے رہیں گے، لیکن ساری تدبیر الٹی پڑگئی۔ جس قانون کو ملکی عوام کو بانٹنے کے لئے بنایا گیا تھا آج اسی قانون نے یہاں کی ساری اقوام کو شیر و شکر بنادیا۔ بلا لحاظ مذہب و ملت اس وقت سارے ہندوستانی CAA کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ سب اعلان کررہے ہیں کہ ہم ایک ہیں۔ ہمیں کوئی طاقت بانٹ نہیں سکتی۔ خدا کی قدرت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ وہ شر میں سے خیر نکالنے کی بھرپور قدرت رکھتا ہے۔ NRC کے شر کا خیر یہ ہیکہ پہلی مرتبہ گزشتہ 70 سالوں سے بوئی گئی نفرت کی فصل تباہ و تاراج ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فرقہ پرستوں کی برسوں کی کوششوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ بھارت میں پہلی مرتبہ یہ احساس جاگ رہا ہے کہ سیکولرزم اور بھائی چارہ ہر ہندوستانی کے رگ رگ میں پیوست ہے۔
سرزمین ہندویسے بھی روز اول سے مذاہب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کے عام غیر مسلموں میں تمام ہی مذاہب کے تعلق سے احترام کا جذبہ پایاجاتا ہے۔ اتحاد و یکجہتی کی موجودہ فضا جس نے سارے ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے، دین اسلام کو سمجھنے اور اس سے قریب ہونے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بھارت کے عام غیر مسلم خالی الذہن اور تعصب سے پاک ہوتے ہیں۔ جب ان کے سامنے خدا و رسول ﷺ اور دین کی بات کہی جاتی ہے تو اسے خوش دلی سے سنتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرزمین ہند اپنی بے شمار خصوصیات کے سبب دین اسلام کے لئے نہایت زرخیز ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب انہیں قرآن کا تحفہ اور سرت رسول ﷺ پر مشتمل کوئی کتاب پیش کی جاتی ہے تو وہ نہ صرف اسے بڑے احترام سے قبول کرتے ہیں بلکہ خالی الذہن ہوکر پڑھتے اور غور کرتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں اسلامی سنٹر بنگلور نے بنگلور میں ’’قرآن سب کے لئے‘‘ پویلین کا اہتمام کیا تھا جس میں ۸۰ ہزار سے زائد غیر مسلم بھائیوں نے حاضری دی اور دس ہزار سے زائد برادران وطن نے قرآن کے گفٹ باکس تحفتاً حاصل کئے۔ اس موقع پر ان حضرات نے جن تاثرات کا اظہار کیا انہیں جان کر احساس ہوتا ہے کہ ’’ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ ۔ پویلین میں آئی ایک غیر مسلم گریجویٹ نوجوان خاتون قرآن حاصل کرکے کہنے لگی آج میرے لئے بہت اچھا دن ہیکہ کیونکہ آج میرے بیٹے کا جنم دن ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ قرآن کھول کر دیکھوں کہ میرے بیٹے کے لئے قرآن میں کیا پیغام ہے ۔ جیسے ہی اس خاتون نے آنکھ بند کرکے قرآن کھولا اور اس کی نظر جس آیت کے انگریزی ترجمہ پر پڑی وہ یہ تھا’’ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچہ ایک زندہ معجزہ ہو‘‘ ( یہ دراصل سورہ مریم کی آیت کا ٹکڑا ہے) ، اس کو پڑھتے ہی وہ نوجوان خاتون مسرت کے ساتھ اپنے جذبات سے بھر آئی۔ قرآن کو سینے سے لگالیا اور کہنے لگی’’ یہ میرے بیٹے کا قرآن ہے اور وہ بڑا ہوکر اس کو ضرور پڑھے گا اور میں بھی اس قرآن کو پڑھوں گی اور اسے بھی ضرور پڑھاؤں گی‘‘۔ پویلین میں آئے ہوئے ایک غیر مسلم میاں بیوی قرآن مجید میں اس قدر منہمک ہوئے کہ اپنی دیگر کتابوں کو وہیں چھوڑ کر چل دئیے۔ جب والینٹرس انہیں ان کی کتابیں پیش کرنے لگے تو اس جوڑے نے کہا ’’ساری کتابیں ہیچ ہیں ۔ اب وہ کتاب عظیم مل گئی جس کے سامنے ہماری یہ ہزاروں کی کتابیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔‘‘ ایک غیر مسلم اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنی اہلیہ کے ساتھ قرآن پویلین تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ’’مجھے حضرت محمد ﷺ سے اتنی محبت ہیکہ رسول ﷺ کے جہاں بھی واقعات اور احادیث مل جاتے ہیں میں ان اخبارات و رسائل کے تراشے اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہوں۔‘‘ ایک غیر مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر پویلین میں حاضر ہوئے ، انہو ںنے قرآن مجید کو حاصل کیا اور بڑی فکر مندی کے ساتھ کہا کہ دیکھئے میں آپ سے ایک بہت اہم بات کہہ رہا ہوں ، آج کم عمر بچوں میں اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ آج اسکولوں میں بچے اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا مذاق اڑارہے ہیں۔ غیر مسلم بچوں کے ان شکوک و شبہات کا جواب دینے کی مسلمان بچو ںمیں طاقت و علم نہیں ہے۔ لہٰذا وہ غیر مسلم بچوں کے طعنے سنتے اور مذاق کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات نہ مسلمان بچوں کے لئے اچھے ہیں اور نہ غیر مسلم بچوں کے لئے۔ اس سے سماج اور ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا ہماری آپ سے گزارش ہے کہ بچو ںکے لئے قرآنی لٹریچر تیار کریں ۔ بچوں کے لئے اسلامی کتابیں ، اسلام کی تاریخ ، محمد ﷺ اور قرآن کے تعلق سے چھوٹی چھوٹی کتابیں بچوں کی نفسیات کا خیال کرتے ہوئے تیار کریں ۔ ان کتابوں کو مسلم بچوں میں عام کریں۔ مسلم بچے اپنے غیر مسلم دوستوں کو بھی اسے پیش کریں ۔ یہ سماج کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
ایک غیر مسلم معزز جج اپنی بیٹی کے ساتھ ’’قرآن سب کے لئے ‘‘پویلین میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے قرآنِ مجید شکریہ کے ساتھ حاصل کیا اور کہا ’’یہ بڑا اچھا ہوا کہ قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا ہے بالخصوص کنٹرا کا ترجمہ ہمارے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے صرف معنی نہیں بلکہ تفسیر والا قرآن چاہئے۔ میں قرآن تفصیل کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہوں۔ ابھی تک ہم مسلمانوں سے متعلق مقدمات کے فیصلے مختلف کتابوں کو پڑھ کر کیا کرتے تھے جو اسلامی قوانین پر لکھی گئی ہیں۔ اب ہم قرآن کا مطالعہ کرکے فیصلے دے سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام کورٹس کے ججس صاحبان قرآن کو اپنے پاس رکھیں۔‘‘ علاقے کی ایک معروف لیڈی ڈاکٹر سونتا قرآن پویلین میں آئیں اور کہا کہ میرے پاس کئی مریض مسلمان آتے ہیں۔ میرے کئی ڈاکٹر دوست بھی مسلمان ہیں، لیکن کوئی مریض یا ڈاکٹر مجھے آج تک قرآن پیش نہیں کیا ۔ میرے دل میں بڑی خواہش ہے آج آپ نے مجھے تحفتاً قرآن دیا ہے تو اسے ضرور پڑھوں گی۔‘‘
یہ چند نمونے ہیں جو ۲۰۱۰ کے قرآن پویلین میں دیکھے گئے۔اس سے قرآن اور دین اسلام کے تعلق سے برادران وطن میں پائی جانے والی تشنگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کیا تعلیم یافتہ غیر مسلم طبقے کے یہ تاثرات نہیں بتاتے کہ ہند کی سرزمین دعوت اسلام کے لئے انتہائی زر خیز ہے۔ جی ہاں! ارض ہند میں دعوت اسلام کے لئے حالات جس قدر سازگار ہیں کسی اور علاقے میں نہیں۔ مذہب پسندی یہاں کی خمیر میں شامل ہے۔ یہاں کی پسماندہ اقوام منتظر ہیں کہ کوئی ہوا کا کوئی جھونکا اٹھے اور انہیں منوسمرتی کے ظالمانہ دائرہ سے باہر نکالے۔ ہندو مت کا امتیاز پر مبنی غیر فطری نظام اب زیادہ عرصہ تک دلت اور پسماندہ اقوام کو جکڑ کر نہیں رکھ سکتا۔
ان سازگار حالات میں مسلمانوں کو بس دو کام کرنے ہیں ۔ ایک یہ کہ بھارت کے مسلمان غیر مسلم بھائیوں سے روابط بڑھائیں ۔ دوسرے تعارف و دعوت اسلام کا فریضہ انجام دیں۔ ملک کی آزادی کے بعد ہمارے علماء اور عمائدین نے زیادہ زور مسلمانوں کے دین و ایمان کی بقا پر دیا اور غیر مسلموں سے روابط پر توجہ نہیں دی۔ گزشتہ 70 سالوں میں مسلمان غیر مسلموں سے بے خبر رہے۔ دوسری جانب آر ایس ایس نے اپنے کارکنوں کے ذریعہ گھر گھر پہنچ کر انہیں اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کردیا۔ آج ملک جس نازک موڑ پر کھڑا ہے یہ دراصل آر ایس ایس کی 70 سالہ نفرت والی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسلمان دور دور پہنچ کر ایک ایک غیر مسلم بھائی سے رابطہ بڑھائیں۔ رابطہ بڑھانے کی مختلف شکلیں ہیں۔ سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اسلامی اخلاق کا عملی نمونہ پیش کریں۔ اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی کس قدر اہمیت ہے اس سے ہر شخص واقف ہے، جو پڑوسی کا حق ادا نہ کرے اس کے ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ بھارت کے سارے غیر مسلم ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی ہونیکی حیثیت سے ان کے ساتھ خوش اخلاق اور اچھا برتاؤ کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ پڑوسی بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کریں۔ اس کے گھر موت ہوجائے تو اسے پرسہ دیں۔ نیز خوشی کی تقریبات میں اسے شریک کریں۔ غیر مسلموں سے رابطہ بڑھانے کی سب سے بہترین شکل یہ ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاق کا عملی نمونہ پیش کریں ،اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرنا دعوت ِاسلام کا مؤثر ذریعہ ہے، لوگ جب مسلمانوں میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا عملی مشاہدہ کرتے ہیں تو متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، اللہ تعالیٰ نے اسلامی اخلاق وتعلیمات میں بے پناہ کشش رکھی ہے، سینکڑوں واقعات ہیں جہاں غیر مسلموں نے کسی مسلمان کے اسلامی طرز ِعمل سے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا۔محمد مارڈوف پکتھال کا نام محتاج تعارف نہیں، وہ پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کیا، ان سے پہلے مستشرقین کے ترجمے آچکے تھے؛ لیکن ایک صاحب ایمان شخصیت کا کیا ہوا انگریزی ترجمہ پکتھال ہی کا ہے، کیا آپ جانتے ہیں پکتھال کی توجہ اسلام کی طرف کیسے ہوئی؟ وہ انگریز تھے، برطانیہ کے وزارت ِخارجہ کے شعبہ میں کام کرتے تھے، مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں وہ متعین تھے، ایک دن اپنے بنگلہ سے انھوں نے ایک عجیب وغریب منظر دیکھا کہ سڑک پر ایک نوجوان چرواہا مضبوط طاقت سے بھر پور کھڑا تھا، اس کو ایک ضعیف اور کمزور آدمی ڈانٹ رہا تھا اور ماررہا تھا، وہ بالکل خاموش کھڑا تھا، پکتھال کو وہ منظر بہت عجیب لگا کہ طاقت سے بھر پور نوجوان جواباً کچھ کاروائی کیوں نہیں کررہا ہے، وہ اپنے مکان سے نیچے اُتر آئے اور ان دونوں کو بلا کر معاملہ دریافت کیا، اس پر اَن پڑھ چرواہے نوجوان نے کہا کہ میں ان بڑے میاں سے قرض لے چکا تھا وہ واپس نہیں کرسکا ہوں، اس پر وہ غصہ کررہے ہیں اور مجھے مارر ہے ہیں،پکتھال نے دریافت کیا کہ جب تمہیں قرض لینے کا اعتراف ہے اور دینے کا ارادہ بھی ہے، تو تم کم سے کم انھیں مارنے سے روک سکتے تھے اور پیچھے ڈھکیل سکتے تھے، تمہارے پاس طاقت ہونے کے باوجود تم کیوںگم صم کھڑ ے رہے، اس نوجوان نے کہا کہ ہمارے نبی ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ قرض لو تو اس کو وقت پر ادا کردو، وقت پر ادا نہ کرنے کی کوتاہی مجھ سے سرزد ہوگئی، اب صاحب ِمال اپنا حق طلب کررہا ہے تو میں کوئی جوابی کاروائی کرکے مزید گناہ کیسے کما سکتا ہوں؟ نوجوان کا یہ جواب تیر کی طرح پکتھال کے دل میں چبھ گیا، پکتھال نے سوچا کہ صدیوں پہلے ایک نبی گزرے تھے وہ آج بھی ایک اَن پڑھ چرواہے کے دل میں حکومت کررہے ہیں، اور اپنی تعلیمات کے خلاف کچھ کرنے سے روک رہے ہیں، تو اس نبی کی تعلیمات کیا ہیں اور اس کے بنیادی اُصول کیا ہیں؟ اس کو جاننا چاہیے، اور پکتھال اس قسم کی معلومات جمع کرنے لگے اور آخر کار دین اسلام قبول کرلیا اور قرآن کریم کا بہترین انگریزی ترجمہ کیا ہے،پکتھال کو اسلام کی طرف کھینچ لانے والی طاقت فلسفہ وحکمت نہیں تھی؛ بلکہ ایک چرواہے کا نبی ﷺ کی تعلیمات پر مخلصانہ عمل تھا، جس نے انھیں دین حق کی روشنی عطا کی۔(ماہنامہ افکار ملی خصوصی شمارہ اگست ۲۰۰۷ء)
مشہور مصنف ڈاکٹر لیو پولڈ اسد سے کون واقف نہیں؟ Message of Quran کے نام سے قرآن کا ترجمہ اور حواشی لکھے ہیں، نیز بخاری شریف کے چند ابواب کے ترجمے کیے ہیں، Road to Mecca ان کی مشہور کتاب ہے، وہ یہودی النسل تھے، بس میں سفر کررہے تھے، ایک مصری ہمسفر نے کھانے کے لیے روٹیاں نکالیں اور انھیں اصرار کے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا، دورانِ گفتگو اس نے بتایا کہ ہمارے رسولﷺ کی ہدایت ہے کہ اپنے کھانوں میں دوسروں کو شریک کرلیا کرو اور خصوصاً ہمسفر کا پورا پورا خیال رکھو؛ کیوں کہ ان کا بھی حق ہے، مسلم معاشرہ کے ایسے ہی ایک دو واقعات ان کے دل پر اثر کرگئے اور انھوں نے دین کی بنیادی باتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجہ میں وہ اسلام کے آغوش میں آگئے، انھوں نے خود ایک جگہ کہا کہ اسلام ایک خوبصورت عمارت کی طرح میرے ذہن ودماغ پر نقش ہوتا چلا گیا، اور میرے لیے مشکل ہے کہ یہ بتاؤں کہ اسلام کی کونسی خوبصورتی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، اس کی ہر چیز خوبصورت اور دل کو لبھاتی ہے۔(حوالہ سابق)
ضلع مدورائی میں عمر مختار نامی ایک نو مسلم ہیں، جو چند برس پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، انھوں نے ایک حدیث پڑھی کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو، یہ سن کر مزدوروں کو تعجب ہوا کیا ایسی بھی کوئی شخصیت گزری ہے جس نے منصفانہ تعلیم دی ہو، وہ مزدور لوگ دریافت کرنے لگے کہ اس نبی کے کچھ اور حالات بتائیں،عمر مختار نے دوسرے دن سے سیرت کے کچھ واقعات ان مزدوروں کو سنانے کا سلسلہ شروع کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس پچاس افراد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔(حوالہ سابق)
ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی مدینہ یونیورسٹی میں شعبہ حدیث کے پروفیسر تھے، ان کے قبول اسلام کی داستان بھی بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے، وہ ضلع اعظم گڈھ کے گاؤں بلریاں گنج کے ایک دھوبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے، شہر میںثانوی تعلیم کے لیے داخلہ ہوا، شہر تک کسی بوڑ ھے ملازم کے ساتھ جایا کرتے تھے، اس بوڑ ھے شخص کا معمول تھا کہ ہندی کی کچھ کتابیں اپنے ساتھ رکھتے، اور ذہین نوجوانوں کے قریب ہوتے تو درخواست کرتے کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہوا ہے مجھے پڑھ کر سمجھا دو،وہ لڑکا کتاب میں جو باتیں ہوتیں ان کو پڑھ کر بڑے میاں کو سمجھا تا، ان کی اسی طرح کی کوششوں سے کئی نوجوان اسلام کے قریب آگئے اور دین حق کو اپنالیا، ایسا ہی ایک نوجوان بانکے رام بھی تھا،جس نے بوڑھے مسلمان سے متأثر ہو کر اسلام قبول کیا، آزمائشوں سے گزرا، جب اس کے خاندان والے قتل پر تل گئے تو مجبوراً شمال سے اس کو جنوب بھیج دیا گیا، یہاں جامعہ دارالسلام عمرآباد میں داخلہ لیا، اور یہیں سے فراغت حاصل کرکے مدینہ یونیورسٹی میں داخل ہوگیا، اس کے بعد قاہرہ کی ازہر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی، پھر مدینہ یونیورسٹی کے شعبۂ حدیث کے پر وفیسر کی حیثیت سے فریضہ انجام دینے لگے۔(یہی ضیاء الرحمن اعظمی ہیں)
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335