سیاسی و سماجی

نہ تیرا جسم نہ تیری مرضی

8 مارچ عالمی یوم خواتین کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نظریاتی جنگ چھڑی ہوئی ہے ایک طرف اسلام کا پاکیزہ نظریہ ہے تو دوسری طرف مغرب کی طرف سے عورت کو آزادی نسواں کے نام پر بے حیا بنانے کا نعرہ ہے اور یہ بحث خاصی طویل ہوکر اب جگہ جگہ وائرل ہورہی ہے ایسے موقع پر ضروری ہے کہ اسلام کی ابدی و آفاقی تعلیمات کو واضح طور پر پیش کیا جائے اور اپنی ماؤں اور بہنوں کے سامنے اسلامی نظام کو عام کیا جائے
 معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج مغربیت ہمارے رگ و ریشے میں پیوست ہوچکی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم خواتین (قطع نظر انکا تعلق کہاں سے ہے) ہاتھ میں بینر تھامے میرا جسم میری مرضی کا اعلان کررہی ہیں‘ سڑکوں پر میرا جسم میری مرضی کا مظاہرہ کرنے والی عورتیں کیا اسلام سے قبل عورت کی تاریخ سے واقف ہیں؟اسلام سے قبل یہود و نصاریٰ عورت کو نہ صرف "منحوس”سمجھتے تھے بلکہ”بچی”پیدا ہوتے ہی اسکو زندہ دفن کردیتے تھے،اور تو اور ہندوانہ رسم و رواج میں تو عورت کو ستی کی رسم کے نام پر زندہ جلایا جاتا تھا نہ عورت کا جائداد میں حق تھا نہ ہی معاشرے میں کوئی کردار،ایسے پر خطر ماحول میں اسلام نے عورت  کو تحت الثری سے نکال کر اوج سریا تک پہنچایا، مقام و عزت سے نوازا، آزادی رائے کا حق بھی دیا اور بہترین معاشرتی حقوق سے ہمکنار کیا،قرآن مجید کے متعدد مقامات پر حیا کا درس دیا گیا اور عورت کے لیے حیا کو زیور قرار دیا گیا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے
۱) "آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور پوشیدہ ہیں”(سورۃالاعراف ۔ آیت نمبر ۳۳)۔
۲) "جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔”( سورۃالمومنون ۔ آیت نمبر ۵)۔
۳)”مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے۔”(سورۃالنور ۔ آیت نمبر ۳۰)۔٤)”مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں
ان آیات سے اسلام حیا کا درس دیتا ہے اور
اسلام نے عورت کو منحوس نہیں کہا بلکہ اسلام نے عورت کو زندہ دفنانے سے منع کیا،اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا،اسلام نے عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی،اسلام نے عورت کو جائداد میں بھی حقوق دلوائے،اسلام نے عورت کو ہر روپ میں عزت بخشی،اسلام نے عورت کو چہار دیواری کا تحفظ فراہم کیا،
ایک طرف اسلام کا یہ سنہرا نظام اور بہترین تعلیمات ہیں جس میں عورت کی حیثیت ملکہ کی ہے تو دوسری طرف مغرب جو آزادی نسواں کا پرفریب جھانسہ دیتا ہے جہاں عورت کو صرف جنسی لذت کی تسکین کا ایک کھلونہ سمجھا جاتا ہے، جہاں نہ جائیداد میں عورت کے کوئی حقوق ہیں نہ ذاتی زندگی میں،بلکہ عورت انکی نظر میں نائلٹ کلب اور شراب خانوں میں نچوانے کا آلہ ہے،جہاں فاحشہ عورت کو داد دی جاتی ہے، جہاں شادی کے بجائے گرل فرینڈ بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے،عمر رسیدہ ہونے پر دھکے دیکر اولڈ ہوم چھوڑ دیا جاتا ہے.
میری ماؤں اور بہنوں!
کیا آپ ایسے معاشرہ کو اپنے لیے پسند کرتیں ہیں؟
کیا میرا جسم میری مرضی کا یہ نعرہ اسلام کے نظام سے بغاوت نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام کے پاکیزہ نظام پر اعتراض نہیں تو اور کیا ہے؟
 سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتیں ایسے کونسے مطالبات منوانا چاہتی ہیں جو اسلام انہیں نہیں دیتا؟وہ کونسے حقوق ہیں جس میں اسلام نے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی ہو؟
جبکہ واضح طور پر آزادی نسواں نظریات کا دھوکہ ہے، میرا جسم میری مرضی کا نعرہ مکر و فریب کا جال ہے، بے حیائی کی طرف دھکیلنے کا ہتھکنڈا ہے.
جو کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی سیریلس اور پروگراموں کے ذریعے، کبھی "ان جی اوز” NGO اور نیوز چینلوں کے ذریعے تو کبھی کبھی اخبارات اور میڈیا کے ذریعے، کبھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے آزادانہ ماحول کے ذریعے مسلم عورتوں کو اپنے باطل نظریات کی لپیٹ میں لینا چاہتے ہیں، مسلم ذہنیت پر حملہ کرکے اپنے تفکرات ان میں شامل کرنا چاہتے ہیں دل سے ایمانی جذبات صلب کرکے بے غیرتی و بے حیائی کو عام کرنا چاہتے ہیں، آزادی کے نام پر اُکساکر جذبات کو بھڑکا کر نبی کی ت علیمات سے دور کرنا چاہتے ہیں
ائے میری ماؤو اور بہنو!!
اسلام میں آپ کی عزت و حرمت کعبہ سے بھی افضل ہے ، آپ کی حیاء اللہ کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت ہے ، آپ کی پاک دامنی پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں،ذرا آس پاس نظر دوڑائیں! یہ ایک ایسا دور ہے جس میں دو بڑے گرہوں کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ برپا ہے یہ جنگ ہتھیاروں کے ذریعے نہیں لڑی جارہی ہے بلکہ اس جنگ میں نظریات، احساسات، اور مذھبی جذبات کا بھی سہارا لیا جارہا ہے اس جنگ میں  طاقت مال و دولت اور باطل مذاھب کا اتحاد کے ساتھ ساتھ عریانیت و فحاشیت، مذہب بیزاری اور اسلام دشمنی کا سیلاب بھی ہے، اس جنگ میں بہت بڑی تعداد زرخرید افراد کی ہے جنہوں نے اسلام کو بیچ ڈالا ہے، میرا جسم میری مرضی کا نعرہ یوں ہی نہیں لگایا گیا ہے بلکہ اس وقت باطل کی نظر تم پر ہے،تمہارے گود میں پلنے والے بچّوں پر ہے، باطل کو ڈر ہے کہ کہیں پھر سے تمہاری گود سے محمد بن قاسم جیسا بچّہ نہ پیدا ہوجائے جو ایک بہن کی عزت بچانے کے لیئے عرب سے اُٹھ کر ہندوستان تک چلا آیا تھا، دشمنوں کو خدشہ ہے کہ کہیں تمہاری کود میں پرورش پانے والا نو مولود بچہ صلاح الدین ایوبی نہ بن جائے جو مسجد اقصی کو دوبارہ آزادی دلائے اور یورپ کے چھے لاکھ فوجیوں کو شکست دے دے، اغیار کو اس بات کا خوف سونے نہیں دیتا کہ کہیں تمہارے دامن سے لگا ہوا یہ بچہ ایک دن محمد الفاتح بن کر نہ ابھر جائے، باطل کو آج تم سے خطرہ ہے انہیں تمہاری دی ہوئی تعلمات سے خوف ہے.
میری پیاری بہنوں! اس لئے باطل چاہتا ہے کہ اس بے حیا نعرہ کے ذریعے تمہیں بے حیاء بنا دے تاکہ جب تمہاری عزت پر ڈاکے پڑنے لگیں تو تمہاری گود میں پلنے والے بچوں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگے، کفار وہ ملحدین چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے پیارے نبی کی تعلیمات سے دور کردیں، تہمیں گھروں سے نکال کر بازاروں میں لائیں،تمہیں دفتروں میں لائیں، تمہیں ائیرہوسٹیس بنا کر تمہیں گندی نگاہوں سے دیکھیں اور تمہارے گردن میں غیر مردوں کی غلامی کا طوق ڈال دیں ، تمہیں آزادی کے نام پر بے حیاء بنا دیں، تمہارے پیارے نبی کی دی ہوئی چادر کو چاک کردیں، تمہاری آنکھوں سے حیاء کو نکال دیں، تمہاری غیرت تم سے چھین لیں، اسی وجہ سے یہ حقوقِ نسواں کی جھوٹی باتیں کرتے ہیں،آزادیِ نسواں کے نعرے لگاتے ہیں،
 خود انکی خواتین کو ان سے شکایت ہے کہ ہمیں دفتروں میں جنسی ہوس کا شکار بنایا گیا، ہمارے ساتھ ہوٹلوں میں زیادتی کی گئی، ہمیں آزادی کے نام پر بے وقوف بنایا گیا، لیکن یہ ظالم خبیث الفطرت اغیار ہماری مسلمان خواتین کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورتوں کو مسلمانوں نے غلام بنا رکھا ہے، ماں باب، بھائی اور دیگر رشتہ دار شادی سے پہلے ان پر حکم چلاتے ہیں جبکہ شادی کے بعد شوہر اور اسکے رشتہ دار عورت کو غلامی پر مجبور کرتے ہیں،بقول شاعر
یہ حقیقت ہے تماشائے لب بام نہیں
اے مسلمان بہن ! نہ یہ جسم تیرا ہے نہ ذات تیری ہے یہ اللہ کی امانت جسکا حساب و کتاب ہوگا یہ جسم اللہ کا ہے تو مرضی بھی اللہ کی ہوگی
خدارا! ان مغربی عورتوں کی روش کو اپنا کر  میرا جسم میری مرضی کے نعرہ نہ لگائیں. آپ باعزت مسلمان خواتین ہیں، آپ اپنے مرتبہ کو سمجھیں! آپ کا مقام بہت بلند ہے! آپ ہی کی تربیت قطب الدین بختیار کاکی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری پیدا کرتی ہے، آپ کی ہی محنت سے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم پیدا ہوتے ہیں!!
خدارا ماضی پر ایک نظر ڈالیں، اور مسلمانوں کی تابناک تاریخ کا مطالعہ کریں اور موجودہ دور کے حالات سے تجزیہ کریں حقائق واضح ہوجائیں گے
اللہ تعالٰی سمجھ نصیب فرمائے اور اپنی منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×