عزیز یہ کی مختلف قیام گاہوں میں جانے کا اتفاق ہوا،اسی طرح عرفات کے مناظر کا بھی مشاہدہ کیا ،سب جگہ ایک بات دیکھنے میں آئی کہ ہندستانی مسلمان اپنے ملک کے لیے رو رو کر دعاء کررہے تھے ،خصوصیت کے ساتھ ملک میں امن وامان اور ظلم کے خاتمہ کے لیے خوب دعائیں ہو ئیں،ہندستانی مسلمان ہر جگہ اپنے ملک کو یاد رکھتے ہیں،اس وقت ملک جس رخ پر جا رہا ہے،وہ انتہائی تشویش ناک ہے،موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات نے ہندستان کو جنگل راج بناکر رکھ دیاہے،موب لنچنگ کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہاہے؛ لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی،حکومت کیوں چاہے گی جبکہ وہ آر یس یس کی پابند ہے،اور آر یس یس کا منشا مسلمانوں کو اس قدر خوف زدہ کرنا کہ وہ مایوس ہو کر اپنی شناخت کھونے پر راضی ہو جائیں،اپنے مذہبی تشخص سے دستبردار ہو جائیں،ان حالات میں مسلمانوں کو ہر قسم کی قربانیوں کے لیے تیار ہونا چاہئے،موب لنچنگ جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حفاظت وخود اختیاری کی تمام تر تدبیر یں اپنا نا ضروری ہے، بزدلی پست ہمتی ہمارے لیے سمِ قاتل ہے، گزشتہ دنوں اسلم کے واقعہ سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔
حج کے دور ان ایک چیز کا مشاہدہ بہت ہوتا ہے،ہر حاجی اپنے دوسرے ساتھیوں کا تعاون کرتاہے اپنے کمرے میں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کی دوا دارو کے لیے سب فکر مند ہوجاتے ہیں،کھانے کا معاملہ ہو یا کسی دوسری ضرورت ہو ہر حاجی دوسرے کی مدد کرتاہے،حج کے دور ان اخوتِ اسلامی کا بھر پور مظاہرہ ہوتاہے، اگر حج کے اس سبق کو مسلمان اپنے وطن پہونچ کر بھی یاد رکھیں تو مسلم معاشرہ کتنی بلندیوں پر پہونچ سکتا ہے،حج عالمگیر اخوتِ اسلامی کا مظہر ہے،دنیا بھر کے مسلمان ہر سال مرکز ہدایت کعبۃ اللہ میں جمع ہوتے ہیںاور اسلام کے وسیع عالمگیر اخوت ووحدت کا پیغام لیکر اپنے وطن لوٹتے ہیں، حج کے اس پیغام کو یاد رکھنے والا حاجی کبھی اپنے ایمانی بھائیوں کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑ سکتا۔
حج کے دنوں میں ایک بات یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والے مقامات کی زیارت بڑے اہتمام سے کرتے ہیں،بہت سے لوگ طائف جاتے ہیں غار حراء کی زیارت کرتے ہیں،اسی طرح مدینہ منورہ میں بہت سے مقامات کی زیارت کرتے ہیں،ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان مقامات کو آپ صلی اللہ علیہ سے نسبت حاصل ہے،یہ چیزمطلوب بھی ہے؛ لیکن جیسی دلچسپی آپ سے نسبت رکھنے والے مقامات کی زیارت میں کی جاتی ہے،ویسی توجہ آپ کی سنتوں پر نہیں دی جاتی،جبکہ آپ کی ہر سنت آپ کو انتہائی محبوب تھی،نیز آپ کی تمام سنتیں آپ کی سب سے بڑی یادگار ہیں۔
حج قدرت خداوندی کے مشاہدہ کا سامان بھی فراہم کرتاہے،فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے اللہ کے بندے اکھٹے ہوتے ہیں دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جہاں کے مسلمان حج کے لئے نہ آتے ہوں،مقام حج واحد جگہ ہے جہاں آدمی دنیا کے ہر ملک کے انسان کو دیکھ سکتاہے،دنیا بھر کے انسانوں پر اگر آپ نظر ڈالیں گے توآپ بے ساختہ قدرت خداوندی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیںگے کسی ملک کے لوگ انتہاوئی گورے،کسی ملک کے انتہائی کالے،پھر گوری اور کالی رنگت میں کافی فرق پایا جاتاہے،حج کے دور ان جب ایک بندہ مختلف رنگت اورشکلوں کے لوگوں کا مشاہدہ کرتاہے، تو اسے قدرت الہی کی صناعی پر حیرت ہوتی ہے۔
خدا تعالی کا تعلق اور ان کا دھیان ایک ایسی دولت ہے کہ وہ جس بندے کو حاصل ہو جاتی ہے،اس کی زندگی کا رخ بدل جاتاہے،اس کے لئے گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتاہے،نفس وشیطان کے حملوں سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے،حج کے دور ان اس کا ہرشخص تجربہ کرسکتاہے،ذرا غور کیجیے بندہ طواف کررہا ہوتاہے،مرد و خواتین ایک ساتھ طواف کرتے ہیں ، مطاق میں حد درجہ بھیڑ ہوتی ہے، خواتین کے چہروں پر نقاب بھی نہیں ہوتا،دنیا بھر کی حسین سے حسین خواتین نگاہوں کے سامنے گزرتی ہیں،لیکن طواف کرنے والا بندہ بالکل ادھر متوجہ نہیں ہوتا،دل میں غلط خیال تک نہیں آتا شہوت کی نظر نہیں ڈالتا،وطن میں قدم قدم پر اس کی نظر بہکتی تھی،آخر کیا چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ یہ در اصل اللہ کا دھیان اور اس کا تعلق ہے،اگر یہ کیفیت وطن میں حاصل ہو جاے تو پھر ہر وقت اس کے لئے گناہوں کی حفاظت آسان ہو جاے گی۔
حج کے قیام کے دوران ایک حاجی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مختلف مقامات کی زیارت کرتاہے توسائن بورڈوں اور مختلف بلند مقامات پردرج تحریروں کو دیکھ کر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک اسلامی مملکت میں رہ رہاہے،جگہ جگہ آپ کو جلی حروف میں لکھا نظر آئے گا استعفراللہ اللہ سے مغفرت طلب کیجیے،کہیں ملے گا،لا تنس ذکراللہ،اللہ کا ذکر کرنا نہ بھولئے،کہیں ملے گا،ا ذکر اللہ یذکرک،اللہ کو یاد رکھنے اللہ آپ کو یاد رکھے گاکہیں جلی حروف میں تیسراکلمہ لکھا ملتاہے،کہیں درج ہے، صلوا علی النبی،نبی پر درود بھیجئے،ان چھوٹے چھوٹے جملوں کو پڑھ کر عجیب تاثر پیدا ہوتاہے،اور محسوس ہوتاہے کہ ہم مقدس سرزمین پر ہیں۔
حرم کے احاطہ میں جگہ جگہ ہیئت الا مر بالمعروف والنہی عن المنکر کے الکٹرانک بورڈ آویزاں ہیں جن پر وقفہ وقفہ سے مختلف تحریریں آتی رہتی ہیں مثلاایک تحریر یوں ہے، غض البصر عما نھی اللہ عنہ حصن منیع عن جمیع الفتن،اللہ کی منع کردہ چیزوں سے نگاہوں کی حفاظت فتنوں سے بچنا کا محفوظ قلعہ ہے،ایک تحریر یوں ہے، الصلوہ سبیل النجات فی الدنیا والآخرۃ،نماز دنیا وآخرت میں نجات کا راستہ ہے،یہ چھوٹے چھوٹے جملے اگر دل گہرائیوں میں اگر جائیں تو زندگی میں انقلاب برپا ہو سکتاہے۔
دور حاضر کا سب سے بڑا فتنہ موبائل ہے اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟، اس کی فتنہ سامانیوں سے حرمین شریفین تک محفوظ نہیں ہیں لوگ ہزار تاکید کے باوجود سیلفی لینے سے گریز نہیں کرتے،حتی کہ عین طواف کرتے ہوے سیلفی لیتے ہیں،اور مسجد نبوی میں روضہ اطہر کے سامنے میں تک سیلفی میں مصروف نظر آتے ہیں،یہ کیسی دیوانگی ہے، یہ کیسا جنون ہے،کیسا مقدس مقام ہے اور کیسی حرکت کی جاتی ہے،افسوس صد افسوس،حج کے مقبول ہونے کی ایک شرط اخلاص ہے،سیلفی کا جنون دراصل نمود کی خواہش کا نتیجہ ہوتاہے،آدمی کتنے اونچے عمل ضائع کررہا ہے اسے اندازہ نہیں۔
مکہ شریف میں ۷۰ فیصد ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی نظر آے،یمن اور برما نوجوان بھی ٹیکسی چلاتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ حرم شریف جانے کےلئیے ٹیکسی پر سوار ہوے ،ڈرائیور برما کا تھا میں نے اس سے برما کے حالات دریافت کئے،اسنے بتایا کہ وہاں اب تک ظلم کا سلسلہ نہیں تھما ہے،وہ کہنے لگا کہ آدمی بھلے کتنی دولت کمالے اگر اس کے پاس اپنی مان مال اور عزت اور آبرو کی حفاظت کا سامان اور اس کی طاقت نہ ہو تو اسنے کچھ نہیں کیا،ہمارے والدین نے ہمیں ہتھیار چلانا نہیں سکھایا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ ایک اور مرتبہ ہم ایک ٹیکسی پر سوار ہوے،ڈرائیور پاکستانی نکلا ،باتوں کا سلسلہ چل پڑا تو وہ حج کی تفصیلات بتاتے ہوے کہنے لگا کہ عرفات کے میدان میں ابا آدم اور اماں حواء کی ملاقات ہوئی،مزدلفہ میں دونوں نے کھلے آسمان میں رات گذاری عرفات اور مزدلفہ میں ہر ایک حاجی سچی توبہ کرکے جمرات آکر شیطان سےکہتا ہے کہ میں نے سچی توبہ کرکے اپنے رب سے صلح کرلی ہے، اب تجھ سے دشمنی ہوگی،میں تیری کبھی نہیں مانوں گا،اس نے جمرات کے بعد حلق کی حکمت بتاتے ہوے کہا کہ قدیم زمانے میں عربوں میں رواج تھا کہ لوگ جب غلام خرید کر لاتے تو اس کے سر بال منڈاتے تھے یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ اب وہ اپنے آقا کا غلام ہو گیا،حاجی بھی حلق کرکے اس بات کا عملی اظہار کرتاہے ہے،کہ وہ خدا کا بندہ اور غلام ہے۔
حرم کے انتظامات اور سہو لتوں کا مشاہدہ کرنے والے ہر شخص کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے،لیکن بعض باتیں اصلاح طلب ہیں ذمہ داروں کو فوری توجہ دینا چاہئے، ایک یہ کہ ائیر پورٹ پر جب حجاج پہونچتے ہیں تو وہاں کا عملہ انتہائی سست روی کا مظاہرہ کرتا ہے، حاجی تھک ہار کر لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں ،عملہ کے افراد آپس میں مذاق کرتے ہوے نیم دلی کے ساتھ کام نمٹاتے ہیں،دیگر ائیر پورٹوں کی طرح تیزی کے ساتھ کام نمٹایا نہیں جاتا،حجاج اس کا بڑا غلط اثر لیتے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ حج کے لئے دنیا بھر کے مسلمان حرمین شریفین حاضر ہوتے ہیں جو ا ہل سنت کے مختلف مسالک سے تعلق رکھتے ہیں،لیکن حرم اور دیگر مقامات پر دینی رہنمائی کرنے والا عملہ سب کو اپنے مسلک پر چلنے ہی کا اصرار کرتا ہے،یہ بات مناسب نہیں ،جتنے مسالک حقہ کے ماننے والے ہیں انہیں اپنے مسلک پر چلنے دیا جاے۔ البتہ اگر کوئی بدعات کرنے لگے تو اسے ضرور روکا جاے۔ تیسرا قابل توجہ معاملہ آثار النبی سے بے اعتنائی کا ہے،مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار پھیلے ہوے ہیں ،یہ امت کا بڑا سرمایہ ہے،مگر دیکھا جارہاہے کہ عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ ضائع ہو رہے ہیں،بعض بالارادہ
مٹا جارہے ہیں۔