حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی جلیل ہیں جن کو گرچہ مدت قلیل لیکن مسلسل صحبت رسولﷺ حاصل رہی ہے ، سایہ کی طرح آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے ، مسجد سے گھر ، تمام معاملات اور جنگوں اور غزوات کے حاضر باش، کبھی قبول اسلام کے بعد حین حیات نبوی ﷺ رفاقت کو ترک نہیں کیا، جس کی وجہ سے کثرت روایات میں مشہور ہوئے،اس کے علاوہ احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے کا بھی ان کا معمول تھا، کوئی تجارت نہ تھی، تلاش معاش کی فکر سے آزاد ، صحبت نبوی ﷺ اور حصول علم کے جویا ومتمنی، صفہ نبوی کے ہر دم حاضر باش، بھوک سے تڑپ اور بلک جاتے ؛ کیا مجال کہ صحبت نبوی کو ترک کیاہو۔امت کو احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ بواسطہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ملا ہے ۔
نام ونسب
عمیر نام، ابوہریرہ کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے عمیر بن عامر بن عبد ذی الشری بن طریف بن غیاث بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس، اصل خاندانی نام عبد شمس تھا، قبول اسلام کے بعد نبی کریم ﷺ نے ’’عمیر‘‘ نام رکھا، کنیت کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک ’’ہرہ‘‘ بلی پال رکھی تھی، شب میں اس کو ایک درخت میں رکھتا تھا، اور صبح کو جب بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے لیتا اوراس کے ساتھ کھیلتا ، لوگوں نے یہ غیر معمولی دلچسپی دیکھی تو مجھ کو’’ ابوہریرہ‘‘ کہنے لگے ، (ترمذی ، مناقب ابی ہریرہ )یہ قبیلہ دوس یمن میں آباد تھا۔
بچپن سے جوانی تک
حضرت ابو ہرہ رضی اللہ ہجرت نبوی سے تقریبا چوبیس برس پہلے اپنے وطن میں پیدا ہوئے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے وطن ہی میں پلے بڑھے او ر اپنی زندگی کا پہلا تیس سالہ دور وہیں گذارا، وہ بچپن ہی میں سایہ پدری سے محروم ہوگئے اور ان کی والدہ نے نہایت عسر ت وافلاس کے عالم میں ان کی پرورش کی ، اہل سیر نے ان کے بچپن کے حالات بہت کم بیان کئے ہیں، صرف یہ معلوم ہوا ہے کووہ اپنے وطن میں بکریاں چرایا کرتے تھے ، روزانہ بکریاں جنگل میں لے جاتے اور شام تک انہیں چراتے رہتے تھے، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنے میں کچھ شد بد حاصل کرلی تھی اور کبھی کوئی شعر بھی موزوں کرلیتے تھے ، اگر چہ وطن میں ان کی زندگی کابیشتر حصہ افلاس کی حالت میں گذرا ، لیکن ۶ ہجری کے اواخر میں جب انہوں نے اپنے قبیلے کے ہمراہ وطن سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی وہ اس قابل ہوگئے تھے کہ ایک غلام رکھ سکیں۔۔(سیرت ابو ہریرہ، طالب الہاشمی، طہ پبلی کیشنز، لاہور )
قبول اسلام سے پہلے :
بچپن میں چونکہ والد محترم کا سر سے سایہ اٹھ چکا تھا، اس لئے فقر وافلاس بچپن سے ان کے ساتھی بن گئے تھے، بسرہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی کپڑوں پر ملازم تھے،اور خدمت یہ سپرد تھی کہ جب وہ کہیں جانے لگتے تو یہ پا پیادہ ننگے پاؤں ڈوڑتے ہوئے اس کی سواری کے ساتھ چلتے اتفاق سے بعد میں یہی عورت ان کے نکاح میں بھی آئی (طبقات ابن سعد، مناقب ابی ہریرہ )
اسلام اور ہجرت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم قبیلہ طفیل بن عمر دوسی ہجرت عظمی سے قبل مکہ میں ہی قرآن کے معجزانہ سحر سے مسحور ہو کر قبول اسلام کے بعد تبلیغ دین کے لئے یمن تشریف لاچکے تھے ، ان کی ہی جدوجد اور کوششوں کے نتیجے میں دوس میں اسلام پھیلا اورغزوہ ٔ خیبر کے زمانہ میں یہ یمن کے انہیں خانوادوں کو لے نبی کریم ﷺ کی خدمت بابرکت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے ، اس وقت نبی کریم ﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے، اس لئے یہ لوگ براہ راست خیبر پہنچے (طبقات ابن سعد : ۴؍ ۱۱۷۵)
اسی قبیلے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور راستہ میں بڑے شوق اور جذبہ میں یہ شعر پڑھے جاتے تھے ۔
یا لیلۃ من طولھا وعنائھا
علی أنہا من دار الکفر نجت
اسی شوق وذوق اور ولولہ کے ساتھ حاضر خیبر ہوئے ، نبی کریم ﷺ کے دست مبارک پر قبول اسلام کیا، ان کا ایک غلام راستہ میں گم ہوگیا، اتفاق سے اسی وقت وہ دکھائی دیا، تو نبی اکرم ﷺ نے نے فرمایا: ابو ہریرہ تمہارا غلام آچکا ہے ، عرض کیا : خداکی راہ میں آزاد ہے (بخاری، کتاب الشرکۃ ، باب إذا قال لعبدہ ہو معہ ونوی العتق ) ۔
قبول اسلام کے بعد عمر بھر دامن نبوی سے وابستہ ہوئے مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑا، غزوات میں بھی شرکت کی، خود بیان کرتے ہیں کہ جن جن لڑائیوں میں شریک رہا غزوہ خیبر کے علاوہ ان سب میں مال غنیمت ملا؛ کیوں کہ اس کا مال حدیبیہ والوں کے لئے مخصوص تھا۔(اسد الغابۃ : ۵؍۳۱۶)۔
عہد خلفاء میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کارنامے۔۔۔۔۔۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ملکی معاملات میں کوئی حصہ نہیں لیا، اس لئے کہیں نمایاں نام نظر نہیں آتے، اس مدت میں اپنے محبوب مشغلہ میں حدیث کی اشاعت میں خاموشی سے لگے رہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا، ا س دن سے ان کا فقر وفاقہ وافلاس کا خاتمہ ہوگیا، جس وقت وہاں سے واپس ہوئے ہیں تو دس ہزار روپیہ ان کے پاس موجود تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باز پرس کی کہ اتنی رقم کہاں سے ملی ؟ عرض کیا کہ گھوڑیوں کے بچوں، عطیوں اور غلاموں کے ٹیکس سے ،تحقیقات کرنے پر یہ بات صحیح ثابت ہوئی ، تو پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دوبارہ ان کو عہدے پر مامور کرنا چاہا، مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے امارت قبول کرنے سے انکار کردیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ امارت قبول کرنے سے آپ کو کیا عذر ہے، اس کی خواہش تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی؟ تو فرمایا کہ وہ نبی اور نبی زادے تھے ، میں بیچارہ ابوہریرہ، امیمہ کا بیٹا ہوں، میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں ، ایک یہ کہ بغیر علم کے کچھ کہوں، دوسرے یہ کہ بغیرحجت شرعی کے فیصلہ کروں، تیسرے یہ کہ ماراجاؤںمیری آبروریزی کی جائے اور میرا مال چھینا جائے (اصابہ : ۱؍۲۰۶)
عہد خلافت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں خاموشی سے زندگی بسر کی ، البتہ آخرمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محصور ہونے کے زمانے میں لوگوں کو ان کی اعانت وامداد پر آمادہ کرتے تھے اورمحاضرہ کی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں بذات خود موجود تھے دیگر اور کچھ حضرات بھی ساتھ میں موجود تھے ، ان ساروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ ’’تم لوگ میرے بعد فتنہ اور اختلاف میں مبتلا ہوگے‘‘ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس وقت ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہئے فرمایا: تم کو امین اور اس کے حامیوں کے ساتھ ہوناچاہئے‘‘ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب اشارہ تھا (مسند احمد بن حنبل ۲؍۳۴۵)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ تک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا پتہ چلتا ہے ، اس کے بعد آپ کی موجودگی جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ میں کہیں نظر نہیں آتے، دیگر صحابہ کی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فتنہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے بادہ نشینی اختیار کرلی تھی، ان فتنوں کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں مروان کبھی کبھی ان کو مدینہ پر اپنا قائم مقام بناتا تھا(مسلم ، باب انبات التکبیر فی کل خفض فی الصلاۃ الخ)
فقر وغنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے دو دور تھے ، ایک فقر وافلاس وتنگ دستی کا دور ، دوسرے جاہ وثروت اور خوش حالی وبارغ البالی کا دور، فقر وفاقہ کا دور نہایت درد انگیز دور تھا، مسلسل فاقوں سے غشی طاری ہوجاتی تھی، لیکن رحمۃ اللعالمین کے سوا کوئی پوچھنے والا نہ تھا، اس زمانہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خوب مشقتیں برداشت کی، لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے، ایک دفعہ بھوک کی شدت سے بہت بے قرار ہو ئے تو راستہ میں بیٹھ گئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا ان سے ایک آیت پوچھی، وہ بتاکر گذر گئے اور کچھ توجہ نہ کی ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا، تو آپ اس حسن طلب کو سمجھ گئے اور ساتھ لیجا کر ان کو اور تمام اصحاب صفہ کو کھانا کھلایا(ترمذی: ابواب الزہد، باب ما جاء فی معیشۃ أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
جب فقر وفاقہ اور تنگ دستی کا دور گذر چکا ، خدائے باری عزوجل نے فراغت اور خوش حالی عنایت فرمائی تو فقیرانہ سادگی کو باقی رکھتے ہوئے کبھی کبھی فار غ البالی کا اظہار کیا، چنانچہ ایک مرتہ کتان کے دورنگے ہوئے کپڑے پہنے اورایک ناک سے ناک صاف کرکے کہا وا ہ واہ ، ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) آج تم کتان سے ناک صاف کرتے ہو ، حالانکہ کل منبر نبوی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے درمیان غش کھا کر گرتے تھے اور گذرنے والے تمہاری گردن پر پیر رکھ کر کہتے تھے کہ ابوہریرہ کو جنون لاحق ہوگیا ہے ، حالانکہ تمہاری یہ حالت صرف بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی (بخاری: کتاب الاعتصام ، باب ما ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وحص علی انفاق)۔
فضل وکمال :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ اساطین علم صحابہ کرام میں شمار کئے جاتے ہیں، بالاتفاق آپ صحابہ کرام کی جماعت میں سب سے بڑے حافظ حدیث شمار ہوتے ہیں، گرچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں ممتاز حفاظ احادیث میں آتے ہیں، لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کثرت روایت میں ان پر بھی تفوق وبرتری رکھتے ہیں، ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ علم کا ظرف ہیں (بخاری، کتاب العلم )
عام طور پر لوگ نبی کریم ﷺ سے سوالات دریافت کرنے میں جھجکتے تھے ،ایک دفعہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا : ’’ قیامت کے دن کون خوش قسمت آپ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا، فرمایا کہ : تمہاری حرص علی الحدیث کو دیکھ کر میرا پہلے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہ کرے گا‘‘(مسند احمد حنبل: ۲؍ ۳۷۳)
حدیث میں ان کامقام
اس جویائے علم نے حدیث کی تلاش وجستجوکواپنے مقصود حیات بنالیا تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جو خود بھی بڑے حافظ حدیث شمار ہوتے تھے ، فرماتے تھے کہ : ’’ابوہریرہ ہم میںسب سے زیادہ حدیث جانتے ہیں(مستدرک حاکم : ۳؍ ۵۱۰) امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے ہم عصر حفاظ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے (تذکرہ الحفاظ : ۱؍۳۱)
کثرت روایت کی وجہ
بہت سے اکابر اور علماء صحابہ کے مقابلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے کثرت علم اور وسعت معلومات کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس قسم کے مواقع حاصل تھے جو دوسرے صحابہ کو حاصل نہ تھے ، یہ خود کثرت روایت کے وجودہ واسباب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ابو ہرہرہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے ؛ حالانکہ مہاجر واانصار ان حدیثوں کو نہیں بیان کرتے ؛ مگر معترضین اس پر غور نہیں کرتے کہ ہمارے مہاجر بھائی بازارووں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے ، اور انصار اپنی زراعت کی دیکھ بھال میں سرگرداں رہتے تھے ، میں محتاج آدمی تھا، میرا سارا وقت نبی کریم ﷺ کی صحبت میں گذرتا تھااور جن اوقات میں وہ لوگ موجود نہ ہوتے تھے ، اس وقت میں موجود رہتا تھا، دوسرے جن چیزوں کو وہ بھلا دیتے تھے ، میں ان کو یاد رکھتا تھا(طبقات ابن سعد : ۴؍۲)
ایک دفعہ مروان کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی کوئی بات ناگوار گذری، اس نے غصہ میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیںروایت کرتے ہیں، حالانکہ وہ نبی کریم ﷺ کے کچھ ہی دنوں پہلے آئے تھے ، بولے : جب میں مدینہ آیا تونبی کریم ﷺ خیبر میں تھے ، اس وقت میری عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی اور آپ کی وفات تک سایہ کی طرح آپ کے ساتھ رہا ، آپکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھروں میں جاتا تھا، آپ کی خدمت کرتا تھا، آپ کے ساتھ لڑائیوں میں شریک رہتا تھا، آپ کی معیت میں حج کرتا تھا، اس لئے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ حدیثیں جانتا ہوں، خدا کی قسم وہ جماعت جو مجھ سے پہلے آپ کی صحبت میں تھی، وہ میری حاضرباشی کی معترف تھی اور مجھ سے حدیثیںپوچھا کرتی تھی، ان پوچھنے والوں میں عمر ، عثمان ، طلحہ ، زبیر ضی اللہ عنہم خاص طور قابل ذکر ہیں (الإصابۃ : ۷؍۲۰۵، سیر الصحابہ : ۲؍۳۷۷)۔
آپ ﷺ کی دعائیں بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ازیاد علم کی سبب بنیں، بخاری کی روایت میں ہے ، ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے نسیانِ حدیث کی شکایت کی آپﷺ نے فرمایا: چادر پھیلاؤ، انہوںنے چادر پھیلادی، آپ نے اس میں دست مبارک ڈالے، پھر فرمایاکہ اس کو سینہ سے لگالو، کہتے ہیں کہ : اس کے بعد سے میں پھر کبھی نہ بھولا (صحیح بخاری، کتاب العلم )
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ حدیثوں کا لکھا کرتے تھے ، چنانچہ بھولنے یا الفاظ کے رد وبدل کے ڈر سے جو کچھ سنتے تھے اس کو قلم بند کرلیتے تھے ، فضل بن حسن اپنے والد حسن بن عمرو رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ کو ایک حدیث سنائی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی، حسن نے کہا: میں نے یہ حدیث آپ ہی سے سنی ہے ، فرمایا کہ اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس ضرور لکھی ہوگی، چنانچہ ان کواپنے ساتھ لے گئے اور ایک کتاب دکھائی جس میں تمام حدیثیں درج تھیں، اسی میں وہ حدیث بھی تھی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ اگر تم نے مجھ سے سنی ہے تووہ ضرور لکھی ہوگی ۔(مستدرک حاکم: ۳؍۵۱۱)۔
آپ کے دامن کمال میں جس قدر علمی جواہر تھے ، سب عام مسلمانوں میں تقسیم کردیئے، لیکن وہ احادیث جو فتنہ سے متعلق تھیں اور جن کو نبی کریم ﷺ نے پیشین گوئی کے طور پر فرمایا زبان سے نہ نکالیں کہ یہ خود فتنہ کی بنیاد بن جاتیں، فرماتے تھے کہ ’’میں نے احادیث نبوی ﷺ دو ظرف میں محفوظ کئے ہیں‘‘ ایک ظرف کو پھیلایا، اگر دوسرے کو پھیلادوں تو نرخرہ کاٹ ڈالا جائے‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الفتن ، طبقات ابن سعد : ۳؍۵۷)
صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ اسرار توحید کی امانت تھے ، متکلمین کہتے ہی کہ وہ اسرار دین تھے لیکن محدثین کا کہنا ہے کہ وہ فتنہ کی حدیثیں تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی مجموعی تعداد ۵۳۷۴ہے ، ان میں ۳۲۵ متفق علیہ ہیں اور ۷۹ میں بخاری اور ۹۳ میں مسلم منفرد ہیں(تہذیب الکمال : ۴۵۲)۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے شاگردوں اور راویوں میں عظیم صحابہ کے علاوہ تابعین کی بڑی تعداد تھی ۔
بیماری وعلالت:
۵۷ھ میں مدینہ منورہ میں بیمار ہوئے مروان بن حکم سمیت بڑے بڑے لوگ عیادت کے لئے آتے ، بیماری کی حالت میں زندگی کے کوئی آثار نہ رہے تھے ، بستر مرگ پر پیش آنے والے منازل کا تذکرہ کرتے خوب روتے ، لوگ رونے کا سبب پوچھتے تو فرماتے کہ : میں اس دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں روتا؛ بلکہ سفر کی طوالت اور زادِ راہ کی قلت پر آنسو بہاتا ہوں، اس وقت میں دوزخ کے نشیب وفراز کے درمیان ہوں معلوم نہیں ان سے کس راستہ پر جانا ہوگا (طبقات ابن سعد : ۴؍ ۱۶۲)
انتقال کے بعد ولید نے نماز جنازہ پڑھائی، اکابر صحابہ میں حضرت ابن عمر ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما موجود تھم ، نماز کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں نے کندھا دے کر جنت البقیع پہنچایااور مہاجرین کے گور غریباںں میں اس مخزن علم کو سپرد خاک کیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون (طبقات ابن سعد : ۴؍۶۳، ۶۴)