استاذِمکرم مفتی ثناء اللہ قاسمی اور دیگر چند احباب کے ذریعے خبر ملی کہ بالاساتھ(سیتامڑھی) کے بزرگ عالم دین اور دارالعلوم بالا ساتھ کے استاذحضرت مولانا صداقت حسین قاسمی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مولانا سے باقاعدہ تلمذکا شرف ہمیں حاصل نہ تھا،مگر وہ ہمارے استاذتھے،جن دنوں(غالباً2005میں)وہ ایک سرکاری مدرسے سے سبک دوش ہوکر آئے تھے اور دارالعلوم بالاساتھ میں ان کی تقرری ہوئی تھی،ان دنوں ہم وہاں عربی چہارم،پنجم کے طالب علم تھے۔ویسے اس گاؤں میں انھیں پہلے بارہادیکھا تھا،مگر باقاعدہ دید و شنید کی نوبت اسی وقت آئی،جب وہ دارالعلوم بالاساتھ سے منسلک ہوئے۔ان کی شخصیت بڑی بھلی،ستھری اور نکھری ہوئی تھی،وہ دیوبندکے قدیم فضلامیں تھے اور مولانا سید ارشدمدنی کے رفیق درس تھے،اپنی طالب علمی اورخصوصامولاناارشد مدنی سے وابستہ واقعات بڑی دلچسپی سے سناتے،ان کی گفتگو،طرزِبیان،شستہ روئی و خندہ جبینی نے ہمیں بے حد متاثر کیا،ان کاسراپابھی بڑا نستعلیق تھا،ان کالباس و پوشاک عام علماسے منفرد ہوتا،دیکھنے میں بڑے وجیہ اور باعظمت لگتے اوران سے مل کر،تبادلۂ خیال کرکے دل دماغ ان کی علمی و ادبی رفعت کا قائل ہوجاتا تھا۔
مولانا کی پوری زندگی مَدرَسی تعلیم و تدریس میں گزری،مگر ان کا مطالعۂ ادب حیرت ناک حد تک وسیع و عریض تھا،ہزاروں برمحل اشعاران کے نوک زبان تھے،جنھیں وہ عام گفتگو کے دوران بھی اتنی خوبی سے استعمال کرتے کہ باذوق سامع عش عش کرنے لگتا۔اسی وجہ سے جب ہماری کلاس کا کوئی گھنٹہ خالی ہوتا،تو ہم مولانا کو تلاش کرتے اور ان سے استفادے کے لیے اپنی کلاس میں انھیں مدعوکرتے،ہم نے ان سے کوئی کتاب نہیں پڑھی،مگر ان کی صحبت میں ہمیں کئی کتابوں کا علم حاصل ہوا۔جوش،کلیم عاجز،فیض،پروین شاکر،ماہرالقادری اور دیگر ادیبوں اور شاعروں پر ان کامطالعہ بڑاعمیق تھا۔جوش کی مشہور نظم’’جنگل کی شہزادی‘‘جو لگ بھگ ساٹھ اشعار پر مشتمل ہے اور ’’فتنۂ خانقاہ‘‘جس میں لگ بھگ چالیس اشعار ہیں اور ان دونوں نظموں میں جوش نے سیکڑوں مفردات اور نئی نئی تعبیرات استعمال کی ہیں،یہ دونوں نظمیں مولانا کو ازبرتھیں اوراپنے مخصوص سٹائل میں جب وہ انھیں پڑھتے،تو سن کر مزاآجاتا تھا۔یہی نہیں،ان کے علاوہ بھی بیسیوں شعراکی غزلیں اور نظمیں انھیں یاد تھیں۔ہماری ادبی نشوونمامیں غیرمحسوس طورپرمولانامرحوم کی بے مثال وباوقارادبی شخصیت اور ان کی ادب نوازی و خردافروزی کاغیر معمولی حصہ رہاہے۔ان کی تحریک پر ہی ہم نے جوش،کلیم احمد عاجز،مولانا دریابادی،ماہر القادری وغیرہ کو عمرکی اس منزل میں پڑھا،جب عام طورپرمدارس کے طلبہ ان کے ناموں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ جامعہ کے اختتامی پروگراموں میں عموماً میں اناؤنسرہوتا،تومقررین و شعراکو مدعوکرنے کے لیے مناسب وموزوں اشعار مولانا سے ہی حاصل کرتا اور وہ اشعار ایسے ہوتے،جو میرے لیے بالکل ناشنیدہ ہوتے اور نہایت معنی خیز!فارسی ادب کا ان کامطالعہ بھی بڑاعمیق تھا اور وہ گلستاں و بوستاں کے سیکڑوں اشعار ارتجالاً سناسکتے تھے۔مولاناکی شخصیت ایک جیدعالم دین،ایک عمیق النظر ادیب و ادب نواز کی تھی،ان کی عمردرس و تدریس میں بسر ہوئی اور تصنیف و تالیف کاانھیں موقع ہی نہیں مل سکا،ورنہ ان کے قلم سے علم و ادب کے گہرہاے آب دار و تاب دار سامنے آتے۔
مدارس کے ماحول میں ایسے اساتذہ خال خال ملتے ہیں،جن کی نظر اور نظریے میں اس درجہ وسعت و کشاد ہو اور جو طلبہ کے تئیں اتنے خیر خواہ ہوں اور ان سے اتنی بے تکلفی سے پیش آئیں کہ طلبہ ان کے گرویدہ ہوجائیں اور اپنی ہر مشکل بلا کسی جھجھک کیان سے بیان کرسکیں،مولانا مرحوم میں یہ خوبی کمال درجے میں پائی جاتی تھی۔ جب ہم عربی ششم میں تھے،تو اس زمانے میں مولانا کو نائب ناظم تعلیمات بنایاگیاتھا۔اس درجے میں اصول فقہ کی ایک اہم کتاب’حسامی‘‘پڑھائی جاتی ہے،یہ کتاب جن استاذکے پاس تھی،ہم ان سے مطمئن نہ تھے یا ہماری ذہنی سطح اتنی بلند نہ تھی کہ ہم ان کی درسی تشریحات کو سمجھ سکیں؛چنانچہ عیدالاضحی تک کسی طرح ہم ان سے استفادے کی کوشش کرتے رہے،مگر پھرمعاملہ دگر گوں ہونے لگا،ہمیں سبق بالکل سمجھ میں نہ آتا،جس کی وجہ سے ہمارے تمام رفقائے درس پریشان تھے،ہم نے سوچاکہ اگر یہ کتاب فلاں استاذِمحترم پڑھائیں،توشاید ہمیں کچھ پلے پڑسکے،مگر مسئلہ یہ تھاکہ ایساممکن کیسے ہو؟بالآخرہم نے مولاناصداقت حسین صاحب سے ملنے اور اس سلسلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیااوران کے سامنے اپنی مشکل پیش کی،مولانا نے پوری کشادہ دلی اور کھلے پن کے ساتھ ہماری بات سنی،ہم سے پوچھاکہ:تم لوگ یہ کتاب کن کے پاس پڑھنا چاہتے ہو؟ہم نے نام لیا اور انھوں نے فوراً ہامی بھرلی؛چنانچہ اگلے دن سے حسامی کا درس دوسرے استاذدینے لگے۔
مولاناکی شخصیت بڑی من موہنی اور شاداب تھی،اتنی کہ انھیں تصورکریں تو ذہن و دماغ کے پردے پر بے ساختہ یادوں کے حسین مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ان کاطرزِپوشش،ان کے چلنے کا انداز،ان کا طورِگفتگو،پان کی سرخی میں ڈوبے ان کے لبوں سے جھڑتے ادب پارے،ان کی پاٹ دار آوازاور ان کی بے پناہ شفقت و محبت ہم جیسے طالب علموں کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔ جب2012میں میں نے مشہور ادیب و خطیب و شاعرآغاشورش کاشمیری کی مختلف کتابوں سے مضامین کاایک انتخاب مرتب کرکے شائع کیا اور دیگر اساتذہ و کرم فرماؤں کے ساتھ مولاناکی خدمت میں بھی اس کاایک نسخہ ارسال کیا،توکچھ ہی دن بعد مولانا نے مجھے فون کیااور اتنے حوصلہ افزاکلمات کہے کہ میں خوشی و مسرت سے لبریز ہوگیا،ان کی بے پناہ شفقت و محبت کی بارش میں بھیگ گیا۔پھر انھوں نے شورش کے ادبی امتیازات،خطابی فتوحات اور صحافتی خدمات پرنہایت وقیع گفتگوکی۔کچھ دن بعد جب میں گھرگیااوراساتذہ سے ملاقات کی غرض سے دارالعلوم بالاساتھ پہنچا،تو مولانا سے بھی ملاقات ہوئی،ملتے ہی گلے سے لگالیا،دیر تک دعائیں دیتے رہے،میری حقیر و معمولی قلمی سرگرمیوں پربے پناہ مسرتوں کا اظہار کیا۔اس کے بعد اپنی دوسری کتابیں بھی مولاناکی خدمت میں پیش کرنے اور ان کی دعائیں سمیٹنے کی سعادتیں ملتی رہیں۔اب کے عیدالاضحی کے موقعے پر میں گاؤں گیاتھا،مگروقت کی تنگی اور اپنی بدقسمتی کی وجہ سے بالاساتھ اپنی مادرعلمی اور اساتذہ کی خدمت میں حاضرنہ ہوسکا،ان دنوں وہاں عیدالاضحی کی تعطیل کے دن بھی تھے اور مجھے بالکل معلوم نہ تھاکہ مولاناعلیل ہیں،ورنہ ان کی خدمت میں ضرورحاضر ہوتا۔ ملال ہے کہ ایک عرصے سے مولاناسے کوئی رابطہ نہیں رہاتھا،اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے،ان کی تعلیمی و تدریسی خدمات کوقبول فرمائے اوروارثین واہلِ خانہ کو صبرِجمیل عطافرمائے۔(آمین)