ملک کا موجودہ منظر نامہ کسی باشعور شہر ی سے مخفی نہیں ہے ،چند دنوں قبل نئی تعلیمی پالیسی کا خاکہ منظر عام پر آچکا ہے،اس کے اثرات کیا ہوںگے او رمسلم بچوں کے عقیدہ و ایمان کے ساتھ ان کے مستقبل کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس پر گفتگو ہورہی ہے ۔تعلیم ایک ایسا راستہ اور طریقہ عمل ہے جس کے ذریعہ قوموں کے افکار و نظریات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ، ماضی میں بھی انگریزوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسی تعلیمی ہتھیار کا استعمال کیا تھا ۔
نئی تعلیمی پالیسی میں ویدانتا کے جن اصولوں کو نافذ کرنے کی بات کہی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلا کسی قانون کے ہی یکساں سول کوڈ کے منصوبے کی تکمیل کرلے گی اور یکساں سول کوڈ صرف ایک سیاسی پینترہ رہ جائے گا ۔اس لیے کہ اس میں زبان ، تہذیب اور لباس ہر طرح کی یکسانیت کی بات کہی گئی ہے ،اور ہر بچے کو لازمی اسکولی تعلیم کے ذریعہ اس کے فکر و تہذیب اور عقیدہ و عمل پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان حالات میں مسلم بچوں کا مستقبل یقینا خطرات کی زد میں ہے اور یہ ایک طویل منصوبہ ہے جسے رو بعمل لانے کی پوری کوشش ہورہی ہے ۔عصری تعلیمی نظام کس حد تک مہلک ہے اور ایمان و عقائد کو کس حد تک متأثر کرتے ہیں اس سلسلے میں مولانا گیلانی ؒکا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔مولانا گیلانیؒ ایک طویل تعلیمی تجربہ رکھتے تھے ، عصری اور دینی دونوں اداروں سے و ابستہ تھے،اور علم و ادب کے میدان میں بلند پایہ ہونے کے ساتھ قوت استدلال اور نتیجہ اخذ کرنے کے سلسلے میں ان کوکمال حاصل تھا، ہندوستان کے نظام تعلیم و تربیت پر ان کی دو جلدوں میں ضخیم کتاب ہے۔ مولاناگیلانیؒ عصر ی تعلیمی اداروں کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(۱) ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے برخاست ہوجانے کے بعد حکومت مسلطہ نے تعلیم کا جو نظام ملک میں (اسکولوں اور کالجوں غیرہ کے نام سے قائم کیا مشاہدہ بتارہا ہے کہ اس نظام کی تعلیم سے استفادہ کرنے والے مسلمانوں میں بتدریج اسلامی زندگی سے بُعد پیدا ہوتا چلا جارہا ہے ، یہ واقعہ ہے کہ جن خاندانوں میں جدید تعلیم تیسری اور چوتھی پشت میں اس وقت تک پہنچ چکی ہے ان میں اسلام کا صرف نام رہ گیا ہے ، عام ا بتدائی باتیں بھی ان لوگوں کو اسلام کی معلوم نہیں ، یہ سنی ہوئی نہیں دیکھی ہوئی بات ہے کہ اچھے لکھے پڑھے لوگ جن کانام بھی مسلمان کا ساتھا لیکن وہ اپنے پیغمبر ﷺ کی شخصیت تک سے ناواقف نظر آئے ظاہر ہے کہ اپنے دین سے جواس حد تک دور ہوچکا ہو وہ دین کی دوسری باتوں سے کس حد تک واقف رہ سکتا ہے، یہ واقعہ ہے کہ جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں اس قوم کے نام نہاد مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے او رحالات میں کوئی تغیر اگر خدا نخواستہ واقع نہ ہو تو یوں ہی یہ تعداد اور بڑھتی چلی جائے گی ۔
(۲) حکومت کا میلان عموما تعلیم کے لزوم کی طرف بڑھتا چلاجارہا ہے ا س وقت تک تو تعلیم کے دائرے کو وسیع ہی کرنے پر حکومت قناعت کررہی ہے لیکن وہ دن دور نہیں ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو مجبور کیا جائے گا کہ حکومت کے منظورہ نصاب کی تعلیم لزوما اپنے بچے اور بچیوں کو دلائے جس کے معنی یہی ہوسکتے ہیں کہ عام مسلمانوں کو تھوڑا سا تعلق اسلام سے ابھی جو باقی ہے ، تعلیم کی و سعت اور اس کا لزوم اس تعلق کو بھی کمزور کرتا چلا جائے گا ، تعلیم یافتہ طبقہ سے مایوس ہو کر علماء اسلام جن عام مسلمانوں کی دینی عقیدت پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اس عقیدت کی عمر بھی زیادہ دراز نظرنہیں آتی ۔
(۳) مذہب کے خلاف ہر زمانہ میں مختلف تحریکیں مختلف بھیسوں میں رونما ہوتی رہی ہیں ان تحریکوں کا مقابلہ ہر زمانہ کے علماء نے ان تحریکوں کی گہرائیوں تک خود پہونچنے کے بعد کیا ہے اور ہے بھی یہی بات کہ مرض کا علاج مرض کے صحیح واقفیت کے بعد ہی ممکن ہے ؛لیکن مرض کو مرض جیسی ناپاک چیز قرار دے کر اگر طبیب اس کے جاننے سے گریز کرلے گا تو مریضوں کا علاج ہوچکا ۔(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ۲/۴۰۱)
مولانا گیلانی کی باتوں کو بار بار غور سے پڑھیے، آج سے قریب ستر سال پہلے آزاد ہندوستا ن کے نظام تعلیم کے ابتدائی ڈھانچے سے ہی انہوں نے ان خطرات کا ادارک کرلیا تھا ، کہ ہر شخص اور ہر شہر ی کے لیے سرکاری تعلیم کولازمی قرار دیا جائے گااور بالآخر ۲۰۰۹ء میں یہ قانون بن ہی گیا کہ ہر بچے کو سرکاری تعلیم حاصل کرنا ضروری ہوگا، اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح مسلم بچوں کا ایمان اور اس کا مستقل خطرات کی زد میں ہے ۔
ایسے حالات میں کس طرح کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے کہ مسلم بچوں کا مستقبل تابناک ہو ،عصری تعلیمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کی جاسکے ، تعلیم کے نام پر بھگوا کرن کرنے اور ہر ہندوستانی کو ایک رنگ میں رنگ کر مسلمانوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے دور کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے اور کس طرح اسلامی ثقافت کا فروغ اور تحفظ کیا جاسکے؟ اس سلسلے میں چند با تیں قابل توجہ ہیں ان پر عمل کرکے ممکن ہے کہ کسی حد تک نئی نسل کے تابناک مستقبل کا خواب تعمیر کیا جاسکے ۔
(۱) اسکول میں تعلیم پانے والے ہر بچے کے لیے دینیات کے نظام کو یقینی بنایاجائے ، اور کوشش کی جائے کہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والا خاص کر انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم پانے والا ہر بچہ مکتب کے نظام سے جڑے اور تین چار سال صرف ایک گھنٹے کے ذریعہ ان بچوں کو اسلام کے لازمی عقائد کی تعلیم دے دی جائے ، عبادات کی اہمیت ، ایمان کی عظمت ، کفر و شرک کی قباحت اور اس سے نفرت ان کے دلوں میں جاگزیں کردیا جائے ، اسلامی تاریخ کے روشن عنوانات سے ان کو واقف کرایا جائے ،حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی کے مختصر حالات ، آ پ ﷺ کی زندگی کے اہم پہلو ، سلاطین ہند کے مختصر واقعات اور اسلامی تہذیب کی ضرورت و اہمیت جیسے عنوانات سے متعارف کراکر ان کے دل کی سادہ تختی کو ان چیزوں سے اس طرح پُر کردیا جائے کہ دنیا کی کسی غلیظ اور مکروہ تربیت کے لیے ان بچوں کے لوح دل پر کوئی جگہ باقی نہ رہے۔
(۲)اسکول میں تعلیم پانے والے بڑے بچے، اسی طرح کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مختصر اسلامیات کا کورس مرتب کیا جائے اور یہ بچے جہاں ٹیوشن پڑھتے ہیں وہیں پر یاکہیں اور مناسب جگہ حاصل کرکے اتوار کو ایک کلاس اسلامیات کی کرائی جائے جن میں اسلام کی اہم تعلیمات اسلام کے بنیادی عقائد،، نماز ،روزہ ، زکوۃ اور حج کے جملہ مسائل ،اسی طرح نکاح و طلاق ،وقف ،معلاملات ، اخلاقیات ، میراث وغیرہ مسائل کی اجمالی اور ضروری تعلیم دی جائے۔ایک سال پر یہ کورس محیط ہو جس میں سبق کی طرح بچوں کو پڑھایا جائے جلسے کی طرح بیانات نہ کرائے جائیں ،اور سال میں اس کا ایک امتحان لے کر مختصر اسلامیات کورس کا ان کو سرٹیفکٹ دیا جائے اس سے مسلم بچوں میں اسلام کے ضروری تعلیمات سے واقفیت ہوگی ، اور اسلام کے تئیں ان میں بیداری پیداہوگی ۔دیکھنے میں آتا ہے کہ مدارس کے فضلاء طلاق کے باب میں غلطی نہیں کرتے ہیں لیکن اسکول و کالج کے تعلیم یافتہ حضرات طلاق کے نظام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے عموما غلطی کرتے ہیں ۔
(۳) جہاں پر مسلمان معاشی اعتبار سے مستحکم ہیں وہاں پر پوری کوشش ہونی چاہیے کہ سرکار کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اگلش میڈیم اسکول قائم کئے جائیں او رشہر میں موجود معیاری ا دارے سے زیادہ بہتر معیاری اسکول قائم کیا جائے تاکہ ہمارے اسکول، ماڈل اسکول بن سکیں ۔ اس کے ذریعہ ہم اپنی نسل کے ذہنوں کوبدلنے والے منصوبوں کے خلاف آسانی سے کام کرسکتے ہیں،اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کرسکتے ہیں اور بچوں کے دل و دماغ کومغربی افکار کی یلغار سے بچا سکتے ہیںآزادی کے نام پر اباحیت کے جس دلدل میں دھکیلنے کی سازش کی جارہی ہے اس کے ذریعہ ہم اس کا تدارک کرسکتے ہیں ۔ اسی ضمن میں یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے، اس لیے کہ منصوبہ بند طریقہ پر بچیوں کو ان کے ایمان سے بے دخل کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ، کوشش کی جائے کہ لڑکیوں کے لیے مسلم ادارے ترجیحی طورپر قائم کئے جائیں اور جہاں ایساممکن نہیں ہے وہاں بچیوں کے والدین کو بیدار ہو کر اپنے بچیوں کی نگرانی کا فریضہ انجام دینا چاہیے ۔
(۴) چار ستمبر کو مولانا امین عثمانیؒ کی ایک آن لائن تعزیتی نششت میں شریک ہوا تھا ، مولانا کی زندگی پر بہت سے حضرات اہل علم نے روشنی ڈالی ان کی خوبیوں میں ایک اہم خوبی کا تذکرہ مختلف حضرات نے کیا کہ مولانا امین عثمانی نئی نسل کی تربیت کا کام کیا کرتے تھے، مولانا امین عثمانی چوں کہ مولانا قاضی مجاہدالاسلام ؒ کے تربیت یافتہ تھے ، اور مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ رجال ساز اور افراد ساز تھے، افراد سازی پر ان کی خاص توجہ تھی ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اس میدان میں کمی آگئی ہے ، تعلیم کے زمانے میں اساتذہ بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور اسی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہمارے فضلاء زندگی کے ہر میدان میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں اور مادیت کے اس طوفانی اور سیلابی دور میں بھی فضلاء مدارس صلے اور انعام سے بے پرواہ اور معاشی زندگی سے بے نیاز رہ کر دین کی خدمات میں مصرف رہتے ہیں لیکن ایام تعلیم کے بعد جب ہمارے فضلاء کسی میدان میں کام پر لگ جاتے ہیں تو اس زمانے میں بھی ان کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے یہ ز مانہ ان کے شعورو ادارک اور احساس و ذمہ داری کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں تربیت اور افراد سازی سے پتھر کو پارس اور سیپ کو موتی بنایا جاسکتا ہے ، اوپر جن حضرات کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ وہ لوگ تھے جو فضلاء مدارس کو ان کی صلاحیت کے لحاظ سے کام پر لگایا کرتے تھے ، ان کی تربیت اور حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے ، اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو معاشی یا علمی طرح سے مدد کیا کرتے تھے میں یہ سمجھتا ہوں اس میدان میں وسیع پیمانہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو ان کی ضرورت کے مطابق کام کے افراد مہیا کرائے جاسکیں ۔اس سلسلے میں بڑے تعلیمی اداروں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ہمارے جو فضلاء میدان عمل میں مصروف ہیں ان کے احوال کا جائزہ لیا جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اوران کو کام کے مناسب مواقع مہیا کئے جائیں اس وقت جس رفتار کے ساتھ ہمارے مدارس سے افراد فارغ ہورہے ہیں ان کو اس تناسب سے کام کی جگہیں نہیں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے ہمارے قیمتی جوہر ضائع ہوجاتے ہیںجب کہ یہ وہ افراد ہیں جن پر قوم کے ہزاروں روپیے اور بڑے استاذہ کی دور رس تربیت کا حصہ لگا تھا دس یا بارہ سال ہم نے ان پر محنت کی تھی ان کا ضائع ہو جانا میں سمجھتا ہوں اپنی محنت کا ضائع ہونا ہے ان پرنظر نہ رکھنا اپنے ہی کام سے صرف نظر کرنا ہے۔ فکر کے نہا ں خانے میں یہ باتیں گردش کررہی تھیں اسے صفحات پر منتقل کرکے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اس امید کے ساتھ اگر ان پر توجہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ نئی نسل کا مستقبل تابناک ہوگا۔