نئی دہلی 30/اگست(عصر حاضر) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج سولہواں دن تھا، آج تمام ہندو فریقوں کی بحث مکمل ہوئی جس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے سینئرایڈوکیٹ راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ وہ پیر کے دن سے اپنی بحث کا آغاز کریں گے۔آج صبح رام جنم بھومی سمیتی کی نمائندگی کرنے والے وکیل پی این مشرا نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہو ئے مسجد کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ امام ابو حنیفہ کے مطابق اگر دن میں دو مرتبہ نماز ادا نہیں کی گئی تو وہ جگہ مسجد کا درجہ نہیں رکھتی اور قبروں سے گھری ہوئی جگہ پر بھی مسجد نہیں بنائی جاسکتی ہے جس کا ذکر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بھی کیا گیا ہے۔پی این مشرا نے مزید بتایا کہ مندروں میں گھنٹہ (بیل) کی اہمیت ہوتی ہے اور بغیر بیل کے مندر نہیں ہوسکتا ہے جس پر جسٹس بوبڑے نے دریافت کیا آیا کسی بھی گواہ کی گواہی میں بیل یعنی کے گھنٹے کا ذکر ہے جس پر پی این مشرا نے بتایا کہ 1949میں قبضہ کے وقت بیل ملی تھی جس پر جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ بیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔پی این مشرا نے عدالت کو بتایا متنازعہ جگہ پر وضو کرنے کی کوئی سہولت نہیں تھی اور بغیر وضو کیئے نماز ادا نہیں کی جاسکتی ہے جس پر جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ آپ نے ہی اس سے پہلے کہا تھا کہ دھول سے بھی وضو یعنی کے تیمم کیا جاسکتا ہے۔اسی درمیان پی این مشرا کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد آل انڈیا ہندو مہا سبھا کی جانب سے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین نے بحث شروع کی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1855سے قبل اس جگہ نماز ادا نہیں کی جاتی تھی نیز یہ ایک ہندو مندرتھا جس پر غیر قانونی طریقہ سے قبضہ کیا گیا تھا، ائیر پورٹ پر بھی نماز پڑھنے کی سہولت ہوتی ہے تو کیا مسلمان اس کا قبضہ حاصل کرسکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہندو قانون کا سہارا لینا چاہے کیونکہ بابر نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ اسی درمیان جسٹس بوبڑے نے دریافت کیاکہ ہندو مہا سبھا کی نمائندگی کون کررہا ہے جس پر ایڈوکیٹ جین نے کہا کہ ہندو مہاسبھا میں اندورنی اختلاف ہے جس کی وجہ سے دو اپیلیں داخل کی گئیں ہیں۔گذشتہ کئی دنوں سے جاری ایڈوکیٹ پی این مشر ا کی بحث کا نچوڑ یہ تھا کہ مسجد غیر شرعی طریقہ سے بنائی گئی تھی،انہوں نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ مسجد مندر منہدم کرکے بنائی گئی جو اس بات کا خلاصہ کرتا ہے کہ ہندو فریقوں میں ہی تضاد ہے کہ آیا مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی یا مسجد غیر شرعی طریقہ سے بنائی گئی۔قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،کے علاوہ ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو دیگرآج بھی موجود تھے۔ آج جیسے ہی لنچ کے بعد عدالتی کاروائی شروع ہوئی شیعہ وقف بورڈ کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ایم سی دھنگر انے عدالت سے کہا کہ وہ ہندو فریق کا سپورٹ کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں بیٹھ جانے کو کہا اور کہا کہ ان کے دلائل کی سماعت بعد میں کی جائے گی۔ایڈوکیٹ جین کے دلائل کی سماعت کے بعد شیعہ وقف بورڈ کے وکیل دھنگرا نے عدالت کو بتایا کہ اس مسجد میں شیعہ اور سنی دونوں نماز ادا کرتے تھے لیکن شیعہ فرقہ میں تراویح نماز کا تصور نہیں ہے لہذاسنی امام کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عدالت نے جب دریافت کیا کہ تراریح نماز کیا ہوتی ہے تو جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ تروایح وہ نماز ہے جو دن کی آخری نماز یعنی کے عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعت رمضان المبارک میں ادا کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ آج 70 سال بعد نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کررہے ہو جس پر اب سماعت نہیں ہوسکتی کیوں کہ اپیل داخل کرنے میں دیری ہوچکی ہے، شیعہ وقف بورڈ نے 1946 کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کی ہے جس پر سماعت ہونا باقی ہے لیکن آج چیف جسٹس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں شیعہ وقف بورڈ کے دلائل کی سماعت نہیں کریں گے،جو ہندو فریق کی کو مدد کرنا چاہتے ہیں۔اسی درمیان آج جمعیۃ علماء ہند کے آن ریکارڈ ایڈوکیٹ اعجازمقبول نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک عرضداشت داخل کرتے ہوئے عدالت کی توجہ سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کو پروفیسر شنموگم کی جانب سے ملنے والی دھمکی کی جانب مبذول کراتے ہوئے اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی۔پروفیسراین شنموگم Shanmugamکا تعلق چنئی سے ہے اوروہ ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر(حکومت ہند) بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسر شنموگم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر راجیو دھون کو بابری مسجد مقدمہ سے دستبردار ہوجا نا چاہئے ورنہ انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا اس خصوصی پٹیشن پر جلدسماعت ممکن ہے۔