الحمد للہ ماہِ رمضان خیر و خوبی کے ساتھ گذر گیا، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ کی خوب قدر کی اور اپنی مختلف النوع عبادتوں کے ذریعہ اللہ کے مقرب بندوں میں داخل ہوگئے، اللہ تعالی اس کی برکت سے انہیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرمائے گا اور اس کا بھر پور بدلہ آخرت میں عنایت فرمائے گا، اللہ تعالی ہمارا حشر بھی ایسے ہی نیک لوگوں کے ساتھ فرمائے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رمضان المبارک گذر جانے کے بعد بہت سے لوگوں پر ایک مایوسانہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جیسے ایک عزیز مہمان رخصت ہوگیا اور ایک طویل مدت کے بعد اس کے آنے کی امید ہو، بہت سے لوگوں پر اطمینانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ ان کا کام ختم ہوگیا اور اب ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بقول مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی الندویؒ یہ دونوں کیفیتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی منشا اور رمضان المبارک کی روح اور پیغام کے منافی ہیں، وہ فرماتے رہیں: رمضان در حقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک دور کا آغاز ہے، رمضان انتہاء نہیں ابتداء ہے، لہذا ہم یہاں ان باتوں کا تذکرہ کریں گے جو رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے کے ہیں۔
(۱) توبہ و استغفار: سب سے مقدم اور اہم کام یہ ہے جس کے لئے کسی زمانہ اور مقام کی قید نہیں، مگر رمضان المبارک اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنا دیتا ہے، یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تعالی سے ٹوٹا ہوا رشتہ یا چھوٹا ہوا رشتہ جوڑیں۔
واقعہ بھی یہ ہے کہ توبہ کرنے والا انسان اپنے آقا کا بھاگا ہوا غلام ہے، جب بھی وہ واپس آجائے تو آقا کو خوشی ہونی چاہئے، یہ خوشی اس کی ربوبیت، کرم اور محبت کا ایسا ہی تقاضہ ہے جیسا اونٹ کے مل جانے پر انسان کی خوشی، اس کی بشریت اور احتیاج کا تقاضہ ہے۔
(۲) ایمان کی تجدید: بہت سے بھائی سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ میں لے آنا کافی ہے، اس کے بعد اس کو تازگی، غذا اور تجدید کی ضرورت نہیں، حدیث میں آتا ہے کہ: "ایمان اسی طرح پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا میلا اور پرانا ہوجاتا ہے، اس کو نیا اور اُجلا کرتے رہو، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: کہ کس طرح اس کو نیا کریں؟ فرمایا: لا الہ الا اللہ کی کثرت کرو”، اس کی کئی صورتیں ہیں:
ایک سوچ سمجھ کر، شعور و احساس کے ساتھ کلمۂ توحید کی تکرار و کثرت، صحابہ کرام ؓ سے کہا گیا: لا الہ الا اللہ کی کثرت کرو، ظاہر ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے اور معنی و مطلب پر غور کئے بغیر کلمہ کی تکرار اور کثرت نہیں کرتے ہوں گے۔
دوسرے ذکر کی کثرت اور ذکر کی قوت، یہ دونوں مستقل چیزیں ہیں، عام حالات میں ذکر کی کثرت، ذکر میں قوت پیدا کردیتی ہے، خاص حالات میں ذکر کی قوت’ کثرت کے قائم مقام بن جاتی ہے، قوت کے معنی ہیں خاص کیفیات، توجہ اور استحضار کے ساتھ اللہ کو یاد کیا جائے، ان کیفیات و خصوصیات کے ساتھ تھوڑا سا یاد کرنا بھی تھوڑا نہیں ہے اور بڑے اثرات رکھتا ہے، لیکن یہ بات بڑی استعداد یا اعلی یقین یا طویل محنت یا ندامت اور انابت سے پیدا ہوتی ہے۔☆