سیاسی و سماجی

یونیفارم سول کوڈ -مسلمان کیا کریں؟

از قلم:مفتی محمد سعید احمد تانڈوری(استاذ مدرسہ قاسم العلوم تانڈور)

یونیفارم سول کوڈ ایک لق ودق صحراء ہے جس میں نہ راستہ واضح ہے اور نہ منزل متعین ہے یہ ایک ایسا گھنا جنگل ہے جس کے اندر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے یہ ایک ایسا اتاہ سمندرہے جس کی گہرائیوں میں اندھیرا ہی اندھیراہے اس کے پیش کرنے والے اس وقت اندھیرے سے نزدیک اور اجالے سے بہت دور ہیں، وہ سماج کے مسائل کی گتھیاں سلجھانا نہیں چاہتے بلکہ سماج کو ایک غیر ضروری موضوع میں الجھانا چاہتے ہیں۲۰۲۳میں کچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات باقی ہیں اور ۲۰۲۴بھی سر پر کھڑا ہےاور سماج میں بے شمار سنگین مسائل ہیں جن کو حل کرنے میں وہ مکمل ناکام ہیں،یہ دراصل ایک سیاسی چال ہے اور مسلمانوں کو پھانسنے کی ایک جال ہےوہ یہ چاہتے ہیں کہ بحث کا موضوع مسلمان بنے رہیں اور لوگوں کی نگاہوں سے اصل مسائل اوجھل ہوجائیں۔
کیاUCC ملک کے استحکام کا ذریعہ ہے؟حقیقت یہ ہےکہ کامن سول کوڈملک کے کسی بھی مذہب،ذاتی اور دھرم کے حق میں بہتر اور مفید نہیں ہےاس سے استحکام اور بھائی چارہ کے بجائے دوریاں پیدا ہوں گی، ناخوشگواریاں اور تلخیاں بڑھیں گی؛ کیونکہ یہ ملک کئی مذاہب کی آستھا اور اعتقادات سے جڑا ہوا ہے، ایسے ملک میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کے الگ الگ اپنی مذہبی اعتقادات، ملی شعار او رریتی رواج ہوں ان کو ختم کرکے کسی ایک سول کوڈ کے تابع بنانا مذہبی اور عقلی طور پر مناسب نہیں ہے۔
کیا UCCکا اثر صرف مسلم معاشرہ پر ہے؟بہت سے لوگ یکساں سول کوڈ کا نقصان صرف مسلمانوں کے لیے سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت کی گہرائی میں جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مار سب سے زیادہ دلتوں پر پڑے گی اور سب سے زیادہ نقصان آدی واسی، قبائلی اور ایس ٹی۔ایس سی یعنی بیکوٹ لوگوں کا ہے،یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا اس بل سے مذہبی اور اعتقادی طور پر بہت نقصان ہوگا اوربہت سے معاملات میں مذہب کے قانون سے دستبردار ہونا پڑے گالیکن مسلمانوں سے کہیں زیادہ مالی ثقافتی اور مذہبی نقصان بیکوٹ اور قبائلی لوگوں کا ہے اگر یونیفارم سول کوڈ منظور ہوجاتا ہے تو آئین کے ذریعہ بہوجن سماج کو دی گئی تمام خصوصیات، مراعات اور مفادات ختم کردئیے جائیں گے، ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ آدی واسیوں کو ان کی ’’جل، جنگل، زمین‘‘ ان کی شناخت اور ان کی خود مختاری کے حوالہ سے جو خصوصی مراعات دی گئی ہیں ان کو U CC کے ذریعہ مکمل طور پر منسوخ کردیا جائے گا،اگرچہ ملک کے وزیر داخلہ نے اپنے حالیہ بیان سے عیسائیوں آدی واسیوں اور قبائلی لوگوں تسلی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کو مستثنی رکھا جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ کیسے مستثنی ہوں گے جبکہ یکساں سول کوڈ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس میں سب لوگ اور مساوی حیثیت کے ہوتے ہیں
الغرض ہمارے ملک میں دسیوں قومیں ہیں اور سب کا پرسنل لاء ایک دوسرے سے مختلف ہے نکاح وطلاق وغیرہ کے قوانین سب کے جداگانہ ہیں یونیفارم سول کوڈ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی سبھی قومیں اور ان کا تشخص متاثر ہوگا۔
مسلمان کیا کریں؟(۱)جولوگ یونیفارم سول کوڈ کی بات کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں وہ مسلمانوں کے بارے میں ملک کی عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں اپنا ایک الگ راستہ بنانا چاہتے ہیں، مسلمان اس ملک کے عام لوگوں کے ساتھ مل کر چلنا نہیں چاہتے ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ جذباتی نہ بنیں اور نہ سڑکوں پر اتر آئیں نہ ہی اس موضوع کو اپنے ہاتھ میں لیں بلکہ اس مسئلہ کو ہمارے علماء پر چھوڑدیں ، اہلِ علم اور دانشوروں کے سپرد کردیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کے لیے’’آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ‘‘ کے نام سے ایک متحدہ پلیٹ فارم موجود ہے ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ رہیں اور جوہدایات ہمیں علماء کرام اور دانشورانِ قوم کی طرف سے ملیں ان پر عمل کریں۔
(۲)ہمارے ملک میں بہت سے پرسنل لاء ہیں مسلمانوں کا پرسنل لاء ہے جو ۱۹۳۷ میں شریعت اپلیکشن ایکٹ کے ذریعہ بنا، ہندئوں کا پرسنل لا ء ہے جو ہندو میرج ایکٹ وغیرہ کی شکل میں 96-1995میں بنا ، کرسچن کا پرسنل لاء ہے، پارسیوں کا پرسنل لاء ہے ،مختلف قوموں کے پرسنل لاءہیں اور ہمیشہ سے اس ملک میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے یونیفارم سول کوڈ سے جس طرح مسلمانوں کا پرسنل لاء متاثر ہوتا ہے اسی طرح ملک میں بسنے والی دیگر قوموں کے پرسنل لا بھی متاثر ہوں گے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر یکساں سول کوڈ کے نقصانات سے برادرانِ وطن کو آگاہ کریں اور ان کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں تاکہ ہم دشمنوں کی سازش کا شکار نہ ہوں۔
(۳)یونیفارم سول کوڈ ایک سیاسی مدعا ہے مسلمانوں کو اس سے زیادہ گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یاد رکھنا چاہیےکہ اسلام اور مسلمانوں کو UCCسے اس وقت تک کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے جب تک کہ مسلمان یہ عہد کرلیں کہ میں اپنی شریعت اور قرآن وسنت پر عمل کروں گا، دنیا کے بہت سارے ممالک میں مسلمان رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کا کوئی پرسنل لاء نہیں ہے پھر بھی مسلمان امریکا، انگلینڈ، آسٹریلیا جیسے ملکوں میں قرآن وسنت پر عمل کررہے ہیں وہاں کی عورتیں جب نکاح وطلاق کا مسئلہ ہوتا ہے یا عدت ونفقہ کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہاں کے سِول کورٹ میں نہیں جاتیں بلکہ قرآن وشریعت کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرتی ہیں حالانکہ سِول کورٹ جانے میں بظاہر ان کا دنیوی فائدہ ہے؛لہٰذا ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا عہد کرلیں کہ ہم ہر حال میں قانونِ شریعت پر عمل کریں اور حال میں قرآن وسنت کو تھامے رہیں گے۔
(۴)مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کے نزدیک قانونِ شریعت کا حصہ ہے اس لیے اس کے تحفظ کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے اس لیے ہر مسلمان کو مسلم پرسنل لاء اور اس کے متعلق جزئیات کا ضروری علم ہونا چاہیے اور ان کو عائلی قوانین کی صحت پر پورا یقین ہونا چاہیے کہ انھیں قوانین کے ذریعہ مسلم معاشرہ کی صلاح وفلاح ہوسکتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×