سیاسی و سماجی

وقف ایکٹ کی منسوخی کی طرف پہلا قدم؟

🖋️ مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ ڈائریکٹر العدل لیگل سرویسس کریم نگر، تلنگانہ

۸ دسمبر ٢٠٢٣ء کو راجیہ سبھا کے سرمائی سیشن میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ یادو نے وقف ایکٹ ۱۹۵۵ء کو بالکلیہ منسوخ کردینے والا ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا، پرائیویٹ ممبر اور اس کی جانب سے پیش کردہ بل کی قانونی حیثیت و نیز اس بل کے مقاصد کی تفصیلات زیر نظر مضمون میں قلم انداز کی گئی ہیں، گذشتہ جمعہ۱۹؍ جنوری کو ہماری ریاست کے مؤقر عالم دین حضرت مولانا احمد عبید الرحمن اطہر صاحب مدظلہ کی جانب سے اشارہ ہوا تھا کہ اس بل کی حقیقت و اثرات تحریر میں آنے چاہئیں، حکم کی تعمیل میں یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں…

وقف ایکٹ ۱۹۵۵ء اور وقف املاک
ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کی وقف املاک کے تحفظ اور اس سے متعلق بہتر اقدامات کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا، بعد ازاں اس میں وقتا فوقتا ترمیمات ہوتی رہی ہیں، تازہ ترمیم راجیہ سبھا ممبر ڈاکٹر فوزیہ خان صاحبہ نے ۲۰۲۲ء میں پیش کی تھیں، فوزیہ صاحبہ مہاراشٹرا وقف بورڈ کی ممبر ہیں اور این سی پی (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی) کی جانب سے سیاست میں کافی متحرک رہی ہیں، وقف ایکٹ وزارت اقلیتی امور کے تحت کام کرتا ہے اور ملک عزیز میں حکومت ہند اور ریلوے کے بعد وقف بورڈ ہی سب سے زیادہ اراضی کا مالک ہے، انڈین ایکسپریس کے مطابق ملک بھر میں آٹھ لاکھ ستر ہزار وقف جائیدادیں ہیں جو نو لاکھ چالیس ہزار ایکڑ رقبہ پر پھیلی ہوئی ہیں، حالیہ ایام میں وقف ایکٹ اور وقف بورڈ کو محسوس و غیر محسوس دونوں طرح سے نشانہ بنایا جارہا ہے، ایک طرف ہماری اپنی غفلت و لاعلمی ہے تو دوسری جانب منظم سازشیں ہیں، وقف ایکٹ کے تئیں غلط فہمی یہ پھیلائی گئی اور جا رہی ہے کہ یہ قانون مسلم املاک کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ ہندوؤں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے کو جائز کرنے کے لیے بنایا گیا ہے…

اس مضمون کی تیاری کے دوران ٹائمس آف انڈیا کی ویب سائٹ پر راجیو گپتا نامی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا ۲۰۲۲ء میں شائع شدہ ایک آرٹیکل پڑھنے کو ملا جس کا ہر حرف زہر میں ڈوبا ہوا ہے، اس نے وقف ایکٹ کی مختلف دفعات کی غلط تشریح کرتے ہوئے قارئین کو یہ باور کروایا ہے کہ وقف کے نام پر کس طرح غیر مسلوں کی جائیداد ہڑپ کی جارہی ہے، پیوستہ برس ۲۰۲۲ء میں تامل ناڈو وقف بورڈ نے کئی سو ایکڑ زمین کے موقوفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس میں خبروں کے مطابق پندرہ سو برس قدیم مندر بھی شامل ہے، اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور وقف ایکٹ ہی نظروں میں کھٹکنے لگا ہے…

پرائیویٹ ممبر بل
وقف ایکٹ کے تعلق سے جو بل پیش ہوا ہے وہ ایک پرائیویٹ ممبر بل ہے، پرائیویٹ ممبر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا ممبر جو حکمران پارٹی کا تو ہو لیکن کابینہ میں شامل نہ ہو یعنی آسان الفاظ میں منسٹر نہ ہو، عموما منسٹرز ہی کوئی بل پیش کرتے ہیں جو پہلے کابینہ کی میٹنگ میں ڈسکس کئے جاتے ہیں پھر پارلیمنٹ میں پیش ہوتے ہیں، ہرناتھ سنگھ یادو کابینہ کے وزراء میں نہیں ہے اس لئے ان کا پیش کردہ بل ایک پرائیویٹ ممبر بل ہے، پرائیویٹ ممبر بل صرف جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اسے پیش کرنے سے قبل سبھا کے تمام ممبران کی اجازت ضروری ہوتی ہے، پارلیمنٹ کی تاریخ میں صرف چودہ پرائیویٹ ممبر بل منظور ہوکر قانون بنے ہیں، کسی پرائیویٹ ممبر کی جانب سے پیش کئے گئے بل کے قانون بن جانے کا واقعہ آخری مرتبہ 1970 میں ہوا تھا اس کے بعد سے ایسا نہیں ہوا، یعنی بادی النظر میں پرائیویٹ بل کوئی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا…

وقف ناسخ بل ۲۰۲۳ء
ہرناتھ سنگھ یادو نے ۸ دسمبر بروز جمعہ یہ بل پیش کیا، تفصیلات میں یہ بات بھی ملی ہے کہ جمعہ کے دن پارلمینٹ کے مسلم ممبران کی نماز جمعہ کی ادائیگی کا خیال کرتے ہوئے سبھا کی کاروائی آدھا گھنٹہ تاخیر سے یعنی ڈھائی بجے شروع ہوتی ہے، ہندوستان ٹائمس کے مطابق ۸ دسمبر کو دو بجے ہی کاروائی شروع کردی گئی جبکہ مسلم ممبران وہاں غیر موجود تھے، دیگر ممبران بھی وہاں حاضر نہیں تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے علم میں لائے بغیر سیشن آدھا گھنٹہ پہلے شروع کردیا گیا، ہرناتھ سنگھ جیسے ہی بل پیش کرنے کھڑے ہوئے اپوزیشن پارٹی ممبران نے سختی سے اس بل کی مخالفت کی، بل پیش کئے جانے یا نہ کئے جانے پر ووٹنگ ہوئی جس میں ترپن حق میں جبکہ بتیس مخالفت میں ووٹ آئے اس طرح بل پیش کردیا گیا، فی الحال اس بل کو مباحثہ کے لئے اٹھا کر رکھا گیا ہے، ایک معنی میں یہ بل زیر التواء ہی سمجھا جائے، ہونے کو تو خیر کچھ بھی ہوسکتا ہے…

وقف ناسخ بل اور اس کے پیش کنندہ ہرناتھ سنگھ کے مطابق وقف ایکٹ ملک میں مذہب کے نام پر تفریق پیدا کرتا ہے، دیگر مذاہب کے ماننے والوں بالخصوص ہندوؤں کو اپنی املاک کے متعلق ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے، راجیہ سبھا میں ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے، سی پی آئی، سی پی آئی (ایم)اور آر جے ڈی نے شدت سے اس بل کی مخالفت کی ہے، یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بیاسی سالہ ہرناتھ سنگھ کٹر ہندوتوا نظریہ کے حامل سیاست داں ہیں، جوانی آر ایس ایس کے پرچارک کی حیثیت سے گذری ہے، دو مرتبہ اتر پردیش کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں اورکلیان سنگھ کے قریبی مانے جاتے ہیں جس کے ہاتھ بابری کی شہادت سے رنگے ہیں…

اس مضمون سے اِخبار واطلاع مقصود ہے نہ کہ انذاروا نتشار، نیز عملی اقدامات و ورد عمل کی تفصیل بھی ان سطور کی تحریر کا موضوع نہیں، یہ شوشہ متعلقہ ذمہ دارانِ امت و ملت پر چھوڑا جاتا ہے وہ کہ ان معلومات کی روشنی میں راہِ عمل طئے فرمائیں، یہ بھی خیال رہے کہ وقف کی اصطلاح میں قانونا سبھی مساجد و مدارس داخل ہیں، زد میں ہر ادارہ آسکتا ہے کیو نکہ باعتبار شرع ساری مساجد وقف ہیں اور مدارس بھی…

برائے رابطہ:
9966870275
muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×