اسلامیات

ماہ محرم الحرام ؛فضائل و احکام

مولانا سید سیف اللہ قادری ، متعلم شعبۂ افتا ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، اسی سے اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے شریعت کی نگاہ میں اس مہینہ کو بڑی فضیلت حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا المیہ یہ ہےکہ امت میں اس ماہ محرم و محترم سے متعلق نظریاتی اور عملی طور پر بہت سی بدعات و رسومات،غیر شرعی افعال اور بے بنیاد باتیں عام ہو چکی ہیں ۔ محرم الحرام کا نام جیسے ہی کانوں میں پڑتا ہے مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں بہت سارے عجیب و غریب قصے ،منتشر احوال، کرب انگیز واقعات،خونچکاں داستانیں ،اور دلدوز کہانیاں ابھر نے لگتی ہیں جس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس ماہ محرم و محترم کی حقیقت وفضیلت اور اہمیت و عظمت سے متعلق صحیح اور معتبر دینی تعلیمات دھند لاکر رہ گئیں ہیں،حتی کہ امت کا ایک بڑا طبقہ اس سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہے ؛جو دینی تعلیمات سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہے۔ بہرحال شریعت مطہرہ میں محرم کے مہینہ کو ایک خصوصی عظمت حاصل ہے۔

ماہ محرم کے بارے میں!
لغت کے اعتبار سے محرم کے معنی محترم اور معزز کے ہیں؛ کیونکہ یہ مہینہ اعزاز و احترام اور عظمت وفضیلت والا ہے؛ اس لئے اس مہینہ کا نام محرم ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے: مہینوں کی گنتی اللہ کے یہاں بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں،جس دن اس نے پیدا کئے تھے آسمان و زمین،ان میں چار مہینہ احترام والے ہیں،یہی سیدھا دین ہے،سو ان میں اپنے اوپر ظلم مت کرو۔(التوبہ،۳٦)
حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ کی وہی رفتار ہے، جس دن اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے؛جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں،ان میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ،ذو الحجہ، محرم اور وہ رجب جو جمادی الاخری اور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے۔( بخاری)
مذکورہ آیت مبارکہ اور حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قمری مہینوں کی جو ترتیب اور ان مہینوں کے جو نام اسلام میں معروف و مشہور اور رائج ہیں وہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے نہیں ہیں؛بلکہ رب العالمین نے جس دن آسمان وزمین پیدا کئے تھے اسی دن سے یہ ترتیب یہ نام ان کے ساتھ مخصوص ہے ۔مہینوں کے خاص خاص احکام بھی متعین و طئے کر دیے گئے ہیں -ان احکام پر ان مہینوں کے مطابق عمل کرنا ہی دین مستقیم ہے۔

چار مہینوں کے احترام کی وجہ ؟
کتاب و سنت کے مطابق چار مہینے حرمت والے ہیں ان چار مہینوں کو عظمت و احترام والے مہینے دو وجہ سے کہا گیا ہے، ایک تو ان مہینوں میں جہاد و قتال حرام تھا دوسرے اس وجہ سے کہ یہ مہینے عظمت و فضیلت اور ادب و شرافت میں دیگر سے ممتاز ہیں۔ ان دو حکموں میں سے پہلا حکم یعنی جہاد وقتال کا منع ہونا تو ہماری شریعت میں منسوخ اور ختم ہوگیا، اب ان مہینوں میں جہاد وقتال جائز ہے؛جبکہ وہ جہاد شرعی تقاضوں کے مطابق ہو؛مگر علامہ شامی نے رد المحتار میں فتاوی قاضی خان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اگرچہ اب بھی افضل یہی ہے کہ ان مہینوں میں جہاد وقتال کی پیش قدمی نہ کی جائے اور اپنی جانب سے اقدام نہ ہو ۔ (رد المحتار جلد ٤ص ۱۲۳ كتاب الجهاد )
اور دوسرا حکم یعنی ادب و احترام اور عبادت کا اہتمام اب بھی اسلام میں باقی ہے ،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہےکہ ان مہینوں کی حرمت اب بھی باقی ہے اور آخرت تک باقی رہے گی۔ اسلاف کا یہی مذہب ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسبکی عظمت کو دل سے تسلیم کیاجائے اور عبادات کے اہتمام کی کوشش کی جائے۔ (تفسیر ابن کثیر ۲/٤)
تمام انبیاءکی شریعتوں میں اشہر حرم یعنی ذی قعده ،ذی الحجہ، محرم اور رجب فضیلت و عظمت ،ادب و شرافت ،اعزاز و اکرام ،اور احترام والے مہینے سمجھے جاتے تھے،تمام نبیوں کی شریعت اس بات پر متفق ہے کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہو جاتا ہے اور اگر کوئی ان مہینوں میں گناہ کرے تو اس کا عذاب اور وبال بھی زیادہ ہوتا ہے-(معارف القرآن ٤/۳۷۰)
امام ابوبکر جصاص اپنی تفسیر ا حکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے تو اسکو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص کوشش کر کے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے تو سال کے باقی مہینوں میں اس کے لیے ان برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے؛اس لیے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے ۔ ( احکام القران للجصاص ۳۰۵/ ٤/۳۹٦)

ماه محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔(مسلم) روایت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ نووی لکھتے ہیں :اس مہینے کی عظمت و فضیلت بتانے اور ظاہر کرنے کے لیے اس کو اللہ کا مہینہ فرمایا گیا ورنہ تمام مہینے اور دن اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور اس کے حکم کے تابع ہیں مگر بعض دوسرے روزوں کی فضیلتیں ( مثلا ذی الحجہ شوال وغیرہ ) بھی اپنی جگہ مسلم ہونے کے باوجود محرم کے روزوں کو جو خاص نوعیت کی فضیلت حاصل ہے،وہ رمضان کے بعد محرم کے علاوہ کے روزوں کو حاصل نہیں . اور علامہ یوسف بنوری نے معارف السنن میں اس بات کی تصریح کردی ہےکہ اس حدیث میں محرم کے روزے سے صرف دسویں تاریخ یعنی عاشورا کا روزہ مراد نہیں بلکہ محرم کے مہینہ کے عام نفلی روزے مراد ہیں ۔ ( ۵/٤٢١. ابواب الصيام)
لہذا اس مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھ لیا جائے تو انشاء اللہ اسکو فضیلت حاصل ہوجائےگی۔ اور دوسری حدیث جس کے راوی حضرت علی ہیں ان سے کسی شخص نے پوچھا ماہ رمضان کے بعد آپ کس مہینے میں مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں ؟ تو حضرت علی نے فرمایا میں نے ایک آدمی کو آپ صلی اللہ علہ وسلم نے یہ سوال کرتےہوئے سنا اس نے عرض کیا یار رسول اللہ ماہ رمضان کے روزوں کے بعد آپ مجھے کس مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم ہے ؟ ارشاد عالی ہوا :ماہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر تم روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے جسکے ایک دن میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور اس دن دوسرے لوگوں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔(ترمذی) معلوم ہوا کہ حسب وسعت محرم کے روزے رکھنا افضل ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء مثلا ائمہ ثلاثہ امام مالک و ابوحنیفہ و شافعی بطور خاص محرم کے روزہ کے استحباب کے قائل ہیں اور امام احمد بن جنبل تو محرم کے روزوں کے متعلق سنت ہونے کے قائل ہیں۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية جلد ۲۸/ص ۹۵۔۔۔مادة صوم )

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محرم کا مہینہ عظمت وفضیلت والے مہینوں میں سے ہیں لہذا حسب حیثیت روزہ رکھنے اور توبہ استغفار اور صدقہ نکالنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

چند بدعات و خرافات:
ماہ محرم ایک بابرکت مہینہ ہے؛ لیکن اس میں بعض لوگ اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے بدعات و رسومات میں پڑ کر اس کی حقیقی فضیلت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ماہ محرم میں بہت سی رسومات شیعوں کی ایجاد کردہ ہیں؛ مگر افسوس یہ ہے کہ آج سنی مسلمان بھی محبت کے دعوی میں انہی رسومات کو عبادت سمجھ رہے ہیں جن میں چند یہ ہیں:
(۱) تعزیہ بنانا،ایک ناجائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ، اتعبدون ما تنحتون (الصافات: ٩٥ ) کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جس کو خود تم ہی نے تراشا اور بنایا ۔ ظاہر ہے کہ تعزیہ خود انسان اپنے ہاتھ سے تراش کر بناتا ہے پھر اسے سے منتیں مرادیں مانی جاتی ہے، اس کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے اسی سے اولاد کی دعائیں مانگی جاتی ہے یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
(۲) ذکر شہادت کے لیے مجالس منعقد کرنا،ان میں ماتم کرنا ،نوحہ خوانی کرنا ، سینہ کوبی کرنا ، گریہ وزاری کرنا ،مرثیہ کی محفلیں لگانا یہ سب روافض کی مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہے کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے : من تشبه بقوم فهو منهم ( سنن ابي داؤد) اور علامہ ابن حجر الہیتمی المکی لکھتے ہیں : خبر دار روافض کی بدعتوں میں مبتلا ء نہ ہونا جیسے مرثیہ خوانی ،رنج والم وغیرہ کیوں کہ یہ مسلمان کی شایان شان نہیں۔اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو اس کا زیادہ مستحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہوسکتا تھا ۔ ( الصواعق المحرقہ ۲/۵۳٤)
(۳) محرم کو غم کا مہینہ سمجھنا بھی درست نہیں، بعض لوگ اس ماہ کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصا اس ماہ میں نیا کاروبار شروع کرنے، خوشی کے تقریبات منعقد کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور مختلف قسم کے سوگ مناتے ہیں جیسا کہ کالا لباس پہننا ،عورتوں کا زیب و زینت چھوڑ دینا ، چوڑیاں توڑ ڈالنا ، وغیرہ ۔ یہ سب باطل خیالات ہیں،جن سے اجتناب ضروری ہے اور اس ماہ کو غم کا مہینہ سمجھنا درست نہیں۔

(٤) محرم کے مہینہ میں شادی بیاہ نہ کرنا بھی غلط بات ہے، لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں خیر و برکت نہیں ہوتی ۔ یہ سوچ غلط ہے کیونکہ شریعت میں ایسا کوئی جزئیہ نہیں ۔ شریعت نے محرم یا اس کے علاوہ کے مہینہ میں نکاح سے منع نہیں کیا بلکہ اس ماہ میں زیادہ عبادت کرنے کا حکم دیا اور نکاح ایک عبادت ہے جس سے اللہ کا قرب اور تقوی نصیب ہوتا ہے ۔ چناں چہ ایک حدیث میں آیا کہ جب آدمی شادی کرتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے تو اس کو چاہیے کہ باقی آدھے کے معاملے میں اللہ سے ڈرے ۔ ( شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث ۵۱۰۰) پس اس ماہ میں نکاح ممنوع نہیں ہے ۔

(۵) حضرت حسین نام پر سبیلیں لگانا بھی بدعت کی قبیل سے ہے،چونکہ محرم کے مہینہ میں خاص طور پر پہلے عشرہ میں سبیلیں لگانا، پانی شربت تقسیم کرنا ،کھانا پکاکر کھلانا ، یہ سب دین میں زیادتی کے مترادف ہے اور لوگ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ حضرت حسین کربلا میں بھوکے پیاسے شہید ہوئے تھے یہ کھانا اور شربت ان کی پیاس کو بجھائے گا ۔سو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ ناجائز افعال ہیں جو شیعوں کی مرہون منت ہیں، عقل و نقل سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ماہ سے متعلق مستند اہل علم اور مفتیان کرام سے رہنمائی حاصل کرے، قرآن و سنت کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں اس ماہ محترم و مکرم سے متعلق اپنے نظریات اور اعمال کا جائزہ لے،اغلاط کی اصلاح کرے،اس ماہ کی حقیقت و فضلیت کو سمجھے اور ہر اس نظریے اور عمل سے اجتناب کرے بلکہ نفرت اور بیزاری کا اظہار کرے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہو،یہی مسلمان کے ایمان کا تقاضہ ہے۔اللہ ہم کو اس ماہ کی قدر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×