اسلامیات

قادیانی فرقہ کیوں مسلمان نہیں؟؟ عقل وانصاف کی عدالت میں!!

از: محمد انصاراللہ قاسمی، آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

گذشتہ دنوں آندھرا پردیش وقف بورڈ کو مرکزی وزراتِ اقلیتی بہبود کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹس اور خود مرکزی وزیر اقلیتی بہبود سمرتی ایرانی صاحبہ کا ویڈیو بیان ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ زیر بحث رہا ،اس نوٹس اور بیان میں خود کو ’’احمدیہ کمیونٹی‘‘ کہنے والے قادیانی فرقہ کے غیر مسلم ہونے سے متعلق فتوی پر سوال کھڑا کیا گیا،وقف بورڈ مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کو حل کرنے اور اُن کی فلاح و بہبودی کے اقدامات روبہ عمل لانے کے لئے خود حکومت کا قائم کردہ سرکاری ادارہ ہے، اپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کے حوالہ سے وقف بورڈ کی بھی اپنی ایک قانونی ودستوری حیثیت ہوتی ہے،جیسے اقلیتی اداروں میں اگر کوئی غیر اقلیتی شخص داخلہ لینا چاہے تو متعلقہ محکمہ اُس پر روک لگاتا ہے، تو ایسے اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں کے لئے مختص معاملات اور منصوبوں سے استفادہ کرنا چاہے تو وقف بورڈ اُس کو مسترد کرسکتا ہے،وقف بورڈ نے بذات خود قادیانی فرقہ کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، اُس نے تو صرف اس بابت تمام مسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کو پیش کیا ہے۔
اگر نوٹس کا مواد صرف وقف بورڈ کے اس اقدام کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑا کرنے کی حد تک محدود ہوتا تو بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن اس سے آگے بڑھ کر ’’احمدیہ کمیونٹی‘‘ کے بارے میں علماء اسلام اور مذہبی اسکالرس کے جاری کردہ متفقہ فتویٰ کو چیالنج کیا گیا اور کہا گیاکہ وقف بورڈ کی قرار داد ’’احمدیہ برادری کے خلاف بڑے پیمانہ پر ایک نفرت انگیزمہم قرار پاتی ہے…..‘‘( دیکھیئے! روزنامہ منصف حیدرآباد مورخہ ۲۳/جولائی ۲۰۲۳ء ) مسلمانوں کا قادیانی فرقہ کے بارے میں مسلمان نہ ہونے کا متفقہ موقف ،کیا واقعتاً نفرت انگیز مہم اور عدم رواداری پر مبنی ہے؟؟ اس سلسلہ میں چند ضروری وضاحتیں پیش خدمت ہیں، جن پر غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور مخلصانہ انداز میں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے:

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا!!
دنیا میں لوگ اپنی نسبتوں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ،اپنے ملک اور علاقہ کی نسبت سے کوئی ہندوستانی یا امریکی ہوتا ہے ،کوئی اپنی تعلیم اور پروفیشنل کی نسبت سے ڈاکٹر ،انجیئر یا وکیل ہوتا ہے کوئی اپنے کام اور پیشہ کی نسبت سے تاجر ،کسان ،مزدور کہلاتا ہے ،غورکرنا چاہئے لوگ خواہ مخواہ اور زبردستی ان نسبتوں کے ساتھ جڑے نہیں رہتے بلکہ جب تک وہ ان نسبتوں کے اصول اورتقاضوں کی پابندی اور پاسداری کرتے رہیں گے ،ان نسبتوں سے ان کا جڑے رہنا صحیح ہوگا،مثلاً ہندوستانی اورامریکی ہونے کے لئے ان ملکوں کا پابندقانون شہری ہونا ضروری ہوگا ،اگر شہریت ہی نہ ہوتی وہ خود کوامریکی یا ہندوستانی نہیں کہہ سکتا ،اسی طرح ڈاکٹر اوروکیل بننے کے لئے متعلقہ علوم کی ڈگری ہونا ضروری ہے ۔
ایسا ہی کچھ معاملہ مختلف مذاہب کی نسبت سے اپنے کو جوڑنا اورجوڑے رکھنا بھی ہے ،اپنے اپنے مذہبی عقائد اصول اورضابطوں کی پیروی اورپابندی کی وجہ سے کوئی ہندو،کوئی سکھ کوئی یہودی ،کوئی عیسائی وغیرہ ہوتا ہے ،ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرے پھر بھی وہ یہودی کہلائے ،کوئی عقیدہ تثلیث ،عقیدہ کفارہ اور بتسمہ وغیرہ کو نہ مانے پھر بھی وہ عیسائی کہلائے ۔
اس پس منظر میں قادیانی فرقہ کے کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،اس فرقہ کے لوگ دین اسلام سے اپنی نسبت جوڑنے پر اصرار کرتے ہیں، ان کو ضدہے کہ انھیں مسلمان کہاجائے اورملت ِاسلامیہ کا حصہ ماناجائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام سے اپنی نسبت جوڑنے اورخود کو مسلمان کہلانے کا معاملہ اتنا آزادانہ اورغیرمشروط ہے کہ اس میں کوئی ضابطہ اوراصول ہی نہ ہو؟کیا یہ معاملہ عام دنیاوی معاملات سے بھی گیا گذرا ہے کہ اس میں قاعدہ وقانون کی کوئی بات ہی نہ ہو؟؟یہ کوئی گیند اور فٹ بال تونہیں ہے کہ جدھر بھی گھماؤ اور جس زاویہ سے بھی دیکھو گیند اور فٹ بال ہی نظر آئے، آدمی چاہے جو بھی عقیدہ رکھے اوروہ جس نظریہ کا بھی حامی اور داعی ہو ،جس پہلو سے بھی اسے دیکھا جائے توہ مسلمان نظر آنےلگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے نسبت جوڑنہ اتنا آسان اور سستا سودانہیں ہے ،لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا‘‘عام دنیاوی معاملات میں اوردیگر مذاہب کے مقابلہ میں نسبت جوڑنے کے حوالہ سے اسلام کا معاملہ کئی گناسخت ہے ،مسلمان ہونے کے لئے اسلام کے بنیادی اصولو ں (عقائد)کو تسلیم کرنا ضروری ہے،توحید ،رسالت آخرت کو مانے بغیر کوئی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا،قادیانی فرقہ عقیدہ رسالت کے ضمن میں اسلام بنیادی عقیدہ ’’عقیدہ ختم نبوت ‘‘کا منکر ہے ،اس لئے یہ فرقہ اسلام اپنی نسبت نہیں جوڑسکتا اور نہ وہ ملت اسلامیہ کا حصہ ہوسکتا ہے ،کیوں کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے حضرت محمدﷺ کونبی ماننے کے ساتھ آخری نبی تسلیم کرنا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا۔
دوسرے یہ کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے تواس کے تمام بنیادی اصولوں کو ماننا ضروری ہے لیکن اسلام سے باہر ہونے کے لئے تمام بنیادی اصولوں کا انکارکرنا ضروری نہیں بل کہ کسی ایک اصول کے انکار سے بھی آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ،اس لئے یہاں اس بات کا حوالہ دینابے معنی اوربے مقصد ہے کہ قادیانی اسلام کے بعض اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔
بہرحال جس طرح ہندوستانی یا امریکی کہلانے کے لئے وہاں کے ’’قانون شہریت‘‘کا پابند ہونا ضروری ہے ،اسی طرح خود کو مسلمان کہنے اورکہلانے کے لئے اسلام کے قانون شریعت کو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔

نبی بدل جانے سے شناخت بھی تبدیل ہوجاتی ہے:
قادیانی فرقہ کو غیرمسلم قرار دینے کا فتویٰ عقل وانصاف کے موافق ہے، اس لئے کہ دنیا میں مختلف مذہبی برادریوں کی شناخت وپہچان ان کے نبیوں اور ریفارمرس سے ہوتی ہے ،چنانچہ جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی دعوت پر ایمان لائے انھیں ’’عیسائی‘‘ کہتے ہیں،جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا وہ ’’یہودی‘‘ کہلاتے ہیں،جو لوگ گوتم بدھ کو اپنا رہنما مانتے ہیں وہ ’’بدھسٹ‘‘کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور جولوگ گرونانک کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں وہ ’’سکھ‘‘کہلاتے ہیں،حضرت رسول کریمﷺ پر ایمان لانے والوں کو ’’مسلمان‘‘کہتے ہیں ۔
پس جیسے دوسرے لوگ اپنے الگ الگ نبیوں اور ریفارمرس کو ماننے کی بنامختلف ناموں سے اپنی الگ شناخت وپہچان رکھتے ہیں اسی طرح مرزاقادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے قادیانیوں کی مذہبی شناخت بالکل الگ ہوگی ،اپنی اس الگ شناخت کی بنیاد پر وہ خود کو ’’قادیانی اور مرزائی‘‘توکہہ سکتے ہیں لیکن ’’مسلمان‘‘نہیں کہہ سکتے ، کیوں کہ مسلمان حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان رکھنے والوں کو کہتے ہیں نہ کہ مرزاقادیانی کے دعویٔ نبوت قبول کرنے والوں کو ۔
دوسرے یہ کہ اگر کوئی آدمی پہلے سے کسی نبی اور پیغمبر کو مان رہا تھا پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ بعد میں آنے والے نبی کو بھی ماننے لگے توپہلے نبی کو ماننے کی وجہ سے اس شحص جو شناخت بنی تھی وہ ختم ہوجائے گی اور بعد میں آنے والے نبی کی نسبت سے اُس کی پہچان ہوگی، مثلاً یہودی حضرت موسیٰؑ کو نبی مانتے ہیں ،لیکن یہودی قوم میں سے اگر کوئی حضرت موسیٰؑ کے بعد آنے والے نبی حضرت عیسیٰؑ کو مانتا ہے تو اب وہ یہودی باقی نہیں رہے،گا بلکہ عیسائی ہوجائے گا ،حالاں کہ اس نے حضرت موسیؑ کی نبوت کاانکار نہیںکیا لیکن اس کےباوجود وہ اپنے آپ کو یہودی نہیں کہلاسکتا اور نہ ہی یہودی کمیونٹی اُس کو یہودی کہلانے کی اجازت دے گی،اسی طرح عیسائی ہیں ،ان میں اگر کوئی رسول اللہﷺ کی نبوت ورسالت کا اقرار کرتا ہے تو وہ عیسائی باقی نہ رہے گا ’’مسلم‘‘کہلائے گا ،اب مسلم ہونے کا مطلب یہ کہ وہ حضرت موسیؑ کو بھی مانتا ہے اورحضرت عیسیؑ پر بھی ایمان رکھتا ہے ،اب اس بنیاد پر خدانخواستہ ہزار بار خدانخواستہ کوئی مسلمان یہودی یاعیسائی شناخت پر اپنا دعوی پیش کرے اور مطالبہ کرنے لگے کہ میں اگرچہ حضرت محمدﷺ پر ایمان رکھتا ہو ںلیکن اس کےباوجود مجھے عیسائی یا یہودی کہنے دیا جائے ، کیوں بحیثیت مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف نبی مانتا ہوں بلکہ اسلام پر باقی رہنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سچا نبی تسلیم کرنا ضروری ہے ،لیکن اس سب کے باوجود عام ضابطہ کے مطابق نہ مسلمان کے اس دعوی کو قبول کیا جائے اور نہ یہودی وعیسائی برادری اُس کو یہودی وعیسائی کہنے کی اجازت دیں گے ،اس لئے کہ جب تک وہ حضرت عیسیؑاور حضرت موسیٰ ؑ کو نبی مانتا تھا تووہ عیسائی اور یہودی تھا لیکن جب اُس نے حضرت محمدﷺ پر ایمان لایا تو اس نئے نبی کو ماننے کی وجہ سےوہ یہودی اور عیسائی مذہب سے خارج اورالگ ہوگیا ، حضرت محمدﷺ پر ایمان رکھنے کے ساتھ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیؑ پر ایمان رکھنا اس کے لئے عیسائی اور یہودی شناخت اپنانے اور اختیار کرنے کو جائز نہیں ٹہراتا۔
بالکل یہی معاملہ خود ’کو ’’احمدی مسلمان‘‘ کہنے والے قادیانی فرقہ کے پیروکار وں کا ہے، یہ اگرچہ حضرت محمدﷺ پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے ہیں ،قطع نظر اس کے کہ ان کا دعویٰ کہاں تک صحیح اور سچاہے؟یہ لوگ اپنے اس دعوی کی بنیاد پر اپنے لئے مسلم شناخت کا اصرار نہیں کرسکتے ،کیوں کہ یہ حضرت رسول کریمﷺ کے بعد ایک اور مدعی نبوت مرزا غلام قادیانی کو بھی مانتے ہیں اس کی وجہ سے مسلم کی حیثیت سے ان کی سابقہ شناخت ختم ہوگئی، پس جیسے کوئی عیسائی حضرت محمدﷺ کو نبی ماننے کے بعدعیسائی باقی نہیںرہتا ،ایسے ہی کوئی مسلمان مرزاغلام قادیانی کو نبی ماننے کے بعدمسلمان باقی نہیں رہتا، جیسے عیسائی شناخت پر نہ مسلمان کے دعوی کو قبول کیا جاتا ہے اور نہ ہی عیسائی برادری اُس کی اجازت دیتی ہے، ایسے ہی مسلم شناخت پر قادیانی فرقہ کے دعوی نہ قبول کیا جائے گا اور نہ مسلمان اس کی اجازت دیں گے ،غرض یہ کہ اس عام ضابطہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ نبیوں کے بدلنے سے مذہبی شناخت بھی تبدیل ہوجاتی ہے ،قادیانی فرقہ کا نبی چوںکہ تبدیل ہوگیا اس لئے اب یہ فرقہ بحیثیت مسلمان اپنی شناخت کا اظہار نہیں کرسکتا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×