اسلامیات

’’ علماء  امت کا نگینہ ‘‘

مفتی عبدالمنعم فاروقی

پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانوں کے درمیان جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سب سے سچا ،انسانیت کا ہمدرد ،فطرت انسانی کے عین مطابق ،زمانے کے حالات کے مطابق ،انسانی طبیعتوں سے واقف اور خالق دونوں جہاں کا پسندیدہ مذہب ’’اسلام ‘‘ ہی ہے ، یہی مذہب دونوں جہاں میں انسانی کامیابی کاواحد راستہ ہے،یہ صراط مستقیم ہے اور اُن لوگوں کا راستہ ہے جس پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچے اور خالق دوجہاں کی خوشنودی ورضامندی کا پروانہ حاصل کیا تھا ،یہ اہل علم وتقویٰ اور دلوں میں خشیت الٰہی کا غلبہ رکھنے والوں کا راستہ ہے ، اہل ایمان کے نزدیک یہ طبقہ سب سے زیادہ محترم ،معزز اور قابل تکریم ہے کیونکہ یہ خالق دوجہاں سے بہت زیاادہ ڈ رتا ہے اور اس کے احکامات بجالاتا ہے ،بجا طور پر یہ طبقہ علماء امت اور حاملین علوم نبوت کا طبقہ ہے کیونکہ یہ انبیاء کے وارثین ،قرآن وحدیث کے حاملین اورصحابہ ؓ کے سچے جانشین ہیں ،نبی اکرم ؐ نے علماء ہی کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ بندوں میں سب سے زیادہ رب سے ڈرنے والے علماء ہی ہیں ، ان کے دل علوم نبوت سے لبریز ہیں ،ذہن کا ہر گوشہ علوم اسلامی سے روشن ہے ،زبان تلاوت قرآن وحدیث نبویؐ سے تر ہے ،کان سماعت علم دین سے معمور ہے اور اعضاء سنت نبوی ؐ کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں ،ظاہر ہے کہ جو علم دین سے اس قدر شغف رکھتا ہوگا اور جو عمل میں اس درجہ مضبوط ہوگا یقینا خوف وخشیت بھی وہ زیادہ ہی رکھتا ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس امت کے علمائے کرام کو جو اعلیٰ مقام ومرتبہ عطا فرمایا ہے وہ اظہر من الشمس ہے ،یہ امت اس لحاظ سے بڑی خوش نصیب واقع ہوئی ہے کہ اسے ہر علاقہ اور ہر دور میں علمائے کرام کی کامل تربیت و صحبت ِ بابرکت حاصل رہی ہے ،اس مبارک جماعت نے امت ِ مسلمہ کے لئے گراں قدر اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیے ہیں، جس طرح بارش برسنے سے مرجھائی کھیتی لہلہا نے لگتی ہے ، جنگل سبز ہ زار میں تبدیل ہو جاتے ہیں اوربنجر زمین کاشت کے قابل ہوجاتی ہے اسی طرح علماء کی علمی مجلسوں اور دینی دانش گاہوں سے امت اپنی علمی پیا س بجھاتی ہے اور اس کے دل کی ویران کھیتی علمی کاشت سے لہلہانے لگتی ہے ، در حقیقت علماء کرام کو امت مسلمہ کے سالار کی حیثیت حاصل ہے ، اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ امت جسم ِ انسانی کی مانند ہے تو علماء کرام اس کے قلب وکبد ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے علماء کرام کو عابدین کے مقابلہ میں چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح چودھویں کے چاند سے سارا جگ روشن ہوتا ہے اسی طرح علماء کے علم سے لوگوں کی جہالت دور ہوتی ہے اور ان کی زندگیاں علم کے چراغ سے روشن ہوتی ہیں ، ایک جگہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایک فقیہ (عالم دین)شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے، حضرات انبیاء ؑ سے علمی نسبت کی بنیاد پر حدیث میں علماء کو ان کا وارث اور جانشین کہاگیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا کہ انبیاء ؑ اپنے پیچھے مال ودولت نہیں چھوڑ تے بلکہ وہ تو علوم الٰہی اور تعلیمات ربانی چھوڑ جاتے ہیں ، ارشاد ِ نبی اکرمؐ ہے ’’ العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً وانما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافرِ ‘‘(ترمذی) ۔
اس حدیث شریف کے آخری حصہ میں علوم ِ اسلامی سیکھنے اور اس میں دسترس حاصل کرکے علماء کی جماعت میں شامل ہو نے کو بڑی خوش بختی اور بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے علماء کرام کی علمی وتدریسی مجلسوں کو دیگر مجالس پر فضیلت وبرتری حاصل ہے خود نبی اکرمؐ نے ذکر ومناجات کی مجلس کے مقابلہ میں علمی مجلس میں بیٹھنے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ وہاں جاکر بیٹھ بھی گئے اور اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں ہی خیر اور نیکی کی مجلسیں ہیں (پہلی مجلس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا)یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے اور مناجات میں مشغول ہیں اللہ چاہے تو دیں اور نہ چاہے تو نہ دیں وہ مالک ومختار ہے اور(دوسری مجلس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) یہ لوگ علم دین سیکھنے میں اور نہ جاننے والوں کو سکھا نے میں لگے ہوئے ہیں ،لہذا ان کا درجہ بلند وبالا ہے ،اور فرمایا ’’ انما بعثت معلماً‘‘ میں تو معلم ہی بناکر بھیجا گیا ہوں ،(یہ کہہ کر آپ ؐ ) ا ن کے درمیان بیٹھ گئے ۔
بلاشبہ علماء اور ان کی علمی ،تعلیمی وتدریسی مجلسیں دراصل مجالس نبوی ؐ کا پر تو ہیں ،ان مجلسوں میں شریک طالبان علوم جہاں ایک طرف علم کے ٹھاٹے مار تے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوئے علمی پیاس بجھاتے ہیں تو د وسری طرف استاذ ِ کامل کی شمع علم سے خدا کی کامل معرفت کا راستہ طے کرتے ہیں اور رسولؐ کی سچی محبت حاصل کرتے ہیں، ہر زمانہ اور علاقہ میں علماء کی علمی مجلسوں سے لاکھوں لوگوں نے استفادہ کیا ہے ، کر رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہے ہیں (ان شاء اللہ) ، علماء کرام اپنے پیچھے طالبان علوم کی کثیر تعداد ،دینی کتب کا وافر ذخیرہ اور وعظ ونصیحت کے ذریعہ نیک صالح لوگوں کا جم غفیر چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے بعد ان کے لئے صدقہ ٔ جاریہ بن کر مسلسل نیکیوں میں اضافہ کا ذریعہ بن جاتا ہے ،نبی اکرم ؐ نے تین چیزوں کو صدقہ ٔ جاریہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ رک جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے ایک صدقہ ٔ جاریہ،دوسرا نیک اولاد اور تیسرا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے،علماء کرام کے دنیا کے گزرجانے کے بعد بھی ان کے تحریر کردہ کتب ورسائل ،مضامین ومقالات اور شاگرد وفیض یافتہ نیک لوگ علمی شمع سے لوگوں کے قلوب منور کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ان کے ساتھ ان کے اساتذہ بھی خدا کے لامحدود خزانے سے بے شمار نیکیاں حاصل کرتے ہوئے اپنے آخرت کے خزانے کو بڑھاتے رہتے ہیں ،علماء کی قدر وقیمت اور ان کے مقام ومرتبہ کو جاننے والا ہر گز ان سے محروم نہیں ہوتا بلکہ محروم تو وہ ہوتا ہے جو ان کے مرتبہ سے یا تو ناواقف ہوتا ہے یا ان سے بدگمان ہوتا ہے یا پھر اپنے جاہ ومنصب اور دولت و حشمت کی وجہ سے کمتر سمجھ کر ان سے دور رہتا ہے ،حلانکہ تاریخ گواہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی علماء کرام،اولیاء عظام اور ان کے علمی چشموں سے لوگ برابر مستفید ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے نام بلند اور کارنامہ زندہ ہیں ،بر خلاف دولت و حشمت اور جاہ ومنصب رکھنے والے کہ آج ان کا نام ونشان باقی نہیں ہے ،ان کے دم توڑ تے ہی اور مٹی میں دفن ہوتے ہی وارثوں نے مال تقسیم کر لیا اور طاقت رکھنے والوں نے کرسی واقتدار پر قبضہ کر لیا ،دنیا سے علماء کا خالی ہوجانا علم کے اٹھ جانے کی علامت ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت بہت جلد برپا ہوگی ،چنانچہ عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے قریب (علم براہ راست نہیں اٹھایا جائے گا بلکہ) علماء اٹھتے چلے جائیں گے اور ان کی جگہوں پر ناواقف قبضہ کرلیں گے ،لوگ انہی کو اپنا امیر وپیشویٰ مان کر ان کی پیروی کریں گے ( جس کے نتیجہ میں وہ ) خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے،اگر غور کیا جائے تو آپ ؐ کی یہ پیشن گوئی حرف بحرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے بڑے بڑے علماء یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو تے جارہے ہیں ،ابھی ایک کی جدائی پر آنسو ں خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ دوسرے کے انتقال کی کلیجہ بھاڑ دینے اور اوسان گم کردینے والی خبر سننے میں آتی ہے،یہ وہ علماء ہیں جن کی جگہ لینے والا دور دور تک کوئی نظر نہیں آتاہے ،ان حالات کو دیکھ کر اس حدیث کی طرف فوراً ذہن منتقل ہورہا ہے جس میں علماء کے انتقال کر جانے کو قرب قیامت کی نشانی بتائی گئی ہے، ایسے نازک دور میں جب کہ دنیا علماء ربانی سے خالی ہوتی جارہی ہے اور ان کی جگہ پُر ہونا مشکل نظر آرہا ہے ایسے میں موجود علماء کو عظیم نعمت سمجھتے ہوئے ان کی قدردانی کرنی چاہیے ،ان سے استفادہ کو لازمی سمجھنا چاہیے اور ان کی صحبت وتربیت میں رہ کر بھر پور استفادہ کرتے ہوئے خود کو علم دین سے ،احکام اسلام سے آراستہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، ناقدری اوران سے دوری عظیم سعادت سے محرومی ہے اور بلا کسی تحقیق کے ان سے بدگمانی نیکیوں کے ضائع ہونے اور خدا کی عدالت میں سخت قسم کی گرفت کا اندیشہ ہے کیونکہ علماء کرام ولی اللہ ہوتے ہیں ،وہ اپنے قلوب میں خشیت الٰہی رکھتے ہیں ،معرفت خداوندی سے ان کا دل لبریز ہوتا ہے اور وہ تعلیمات نبوی ؐ کا عکس جمیل ہوتے ہیں ،ایک حدیث میں آپ ؐ نے مومن کے ساتھ بد کلامی اور گالی گلوج کو فسق قرار دیا ہے تو کیا علماء اور پاسبان علوم کے ساتھ زبان درازی کرنا فسق نہ ہوگا؟ ،ایک جگہ ٓاپ ؐ نے حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ من عادٰی لی ولیاً فقد اٰذنتہ بالحرب(بخاری) ’’جو کوئی میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو میری طرف سے اس کے لئے اعلان جنگ ہے‘‘ ، علماء کرام کا طبقہ امت کا محترم اور نہایت معظم طبقہ ہے ،ان کی عزت وعظمت بجالانا اور ان کی قدردانی کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے جو ان کے مقام ومرتبہ کو جاننے کے باوجود ان کے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتا اس کے لئے نبی اکرم ؐ نے سخت وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے،چھوٹوں پر رحم (شفقت) نہ کرے اور ہمارے علماء کی قدر نہ کرے وہ ہم (امت مسلمہ )میں سے نہیں ہے‘‘(الترغیب والترہیب)، جب کسی معاشرہ میں علماء کرام کے ساتھ بغض وعناد رکھاجاتا ہے اور ان کے ساتھ گستاخانہ برتاؤ کیا جانے لگتا تو اللہ تعالیٰ کی قدر ت جوش میں آتی ہے اور پھر اس جرم کی پاداش میں ان پر قہر خدا نازل ہوتا ہے ،سیدنا علی مرتضیٰ ؓ نبی اکرم ؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا ’’جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند کرنے لگے گی اور مال ودولت کے ہونے پر نکاح کرنے لگے گی تو اللہ تعالیٰ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے ایک قحط سالی دوسرے ظالم حکمران تیسرے خائن حُکّام اور چوتھے دشمنوں کے پے در پے حملے (مستدرک حاکم)،علماء کرام کا مشغلہ ہی دینی تعلیم اور اس کی نشر واشاعت ہوتا ہے ، ان کے شب وروز کا کام ہی  درس وتدریس ہوتا ہے ، ہر وقت ان کی زبان پر قال اللہ وقال الرسول کا ورد رہتا ہے ،یقینا جن کا مشغلہ یہ ہو گا تو انہیں محبوب جہاں ؐ سے کس قدر محبت وتعلق ہوگا ،اسی قلبی تعلق اور غیر معمولی محبت کے صلہ میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے محبوبؐ کے ساتھ ان کا ساتھ حشر فرمائیں گے ،آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’قیامت کے دن آدمی اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہوگی‘‘(مشکوٰۃ)۔
علماء کرام اور حاملین علوم نبوت اس قدر اونچا مقام رکھتے ہیں اور وہ لوگوں پر غیر معمولی فضیلت رکھتے ہیں ،اس کے باوجود بہت سے لوگ ان کی ناقدری کرتے ہیں ،ان کے ساتھ بے ادبی سے پیش آتے ہیں ،انہیں معاشرہ کا کم تر آدمی جانتے ہیں اور موقع بموقع ان کی تذلیل  کرتے ہیں انہیں ہوش میں آنے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہیے ، علماء کرام کی تذلیل سے علماء تو ذلیل نہیں ہوتے لیکن بد بختی اس کا مقدر بن جاتی ہے جو انہیں ذلیل کرنا چاہتا ہے ،یہ سب بیمار ذہنیت ،دل میں عناد ،مزاج میں کجی اور علوم نبوت کو کم حیثیت جاننے والے ہی کر تے ہیں ،ورنہ اس قدر عظیم فضیلت رکھنے والوں کی کستاخی کرتے ہوئے کون اپنی عاقبت بگاڑ نا چاہتا ہے ،مسلمان اچھی طرح جان لیں کہ علماء سے وابستگی  دین پر ثابت قدمی کا ذریعہ اور ان سے دوری احکام شریعت سے دوری کا خدشہ ہے اور ان کی توہین ذلت ورسوائی کا سبب ہے ،یگر قوموں کے مقابلہ میں جب ہم اپنے علماء اور پیشواؤں کے ساتھ امت کا بر تاؤ دیکھتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ،ہمیں تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ پوری امت کی طرف سے تحفظ دین اور خدمت اسلام کی گراں قدر خدمات میں لگے ہوئے ہیں ، ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ علماء معاش کی پرواہ کئے بغیر دینی خدمت ،علم دین کی نشر واشاعت اور حفاظت دین میں لگے ہوئے ہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ ہم ان کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے ان کے معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف توجہ دیتے اگر امت میں اس کا صحیح شعور آجائے تو یقینا معاشرہ میں ایک زبردست انقلاب آسکتاہے جس کا مشاہدہ آگے چل کر ہر مسلمان اپنے سر کی آنکھوں سے کر سکتا ہے ۔
���

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×