کسی بھی قوم کے استحکام کے لئے تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ (۱) دینی استحکام (۲) تعلیمی استحکا م(۳) معاشی استحکام۔ جو قوم ان تینوں میدانوں میں مستحکم ہوتی ہے وہ آخرت میں سرخرو اور دنیامیں اپنا لوہا منواتی ہے۔ اس کے برخلاف جو قوم ان تینوں شعبوں میں کمزور اور غیر مستحکم ہوتی ہے وہ ذلیل و خوار اور دوسروں کی دست نگر ہوجاتی ہے۔
مسلمانوں کی بدقسمتی یہ رہی کہ یہود و نصاریٰ اور دشمنانِ اسلام نے ان کو زوال سے دوچار کرنے کے لئے ان تینوں میدانوں میں انہیں کمزور کیا۔ اس کے لئے طویل منصوبے تیار کئے گئے۔ سازشیں رچی گئیں۔ ہر قسم کے حربے استعمال کئے گئے اور تمام تر وسائل اپنائے گئے۔ دین و ایمان اور مذہب اسلام سے ان کا رشتہ کمزور کرنے کے لئے مسلم معاشروں میں فحاشی و بے حیائی کو فروغ دیاگیا۔ میڈیا کے جدید ذرائع استعمال کرکے مسلم نوجوانوں اور مسلم خواتین کو حیاء باختگی،جنسی انارکی کا دلدادہ بنادیاگیا۔ نیز نئی نسل کا اسلام اور تعلیمات اسلام پر سے اعتماد اہٹانے کے لئے تعلیم کا ایک ایسا نظام مسلط کیاگیا جس پر چل کر نئی نسل اسلام سے نہ صرف دور بلکہ متنفر ہوجاتی ہے۔ عصری تعلیم کے مسلم نوجوانوں کی دینی تعلیم سے ناواقفیت نے انہیں الحاد و دھریت کی دہلیز تک پہنچادیا۔ اول تو مسلم ممالک میں تباہی کی ایک ایسی حالت پیدا کی گئی کہ جس نے مسلم معاشروں کو تعلیم سے دور کردیا اور مسلم خاندان جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہے۔ پھر عصری تعلیم پانے والے مسلمان بچوں کو ایسا مخلوط ماحول فراہم کیاگیا جس نے انہیں خدا و رسول سے غافل کردیا۔
تیسرا میدان جس میں مسلمانوں کو کمزور کرنے کی دشمنوں نے کوشش کی ہے وہ معیشت کا میدان ہے۔ معیشت کا استحکام کسی بھی قوم کے لئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو قوم معاشی طورپرکمزور ہوتی ہے وہ مغلوب اور طاقتور معیشتوں کے تابع ہوجاتی ہے۔ معاشی کمزوری اسے ہر میدان میں دوسروں کا محتاج بنادیتی ہے۔ معیشت کی اسی اہمیت کے پیش نظر کہاگیا کہ فقر و فاقہ آدمی کو کفر کے قریب پہنچادیتا ہے۔ مال و دولت کا صحیح استعمال انسان کے لئے اخروی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں مال کو خیر سے تعبیر کیاگیا ہے اور قرآن مستحکم معاشی نظام کے انتہائی زرین ہدایات دیتاہے۔ اس وقت عالمی سطح پربھی مسلم معیشت کو کمزور کرنے کی سازش رچی جارہی ہے اور ملکی سطح پر بھی یہ کام مختلف طریقوں سے انجام پارہا ہے۔ عالم اسلام بے پناہ وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے۔ سیال سونا، پٹرول کا 90 فیصد حصہ عالم اسلام میں ہے۔ بہت سے مسلم ممالک قدرتی گیاس سے مالا مال ہیں۔ افریقی ملکوں میں ہیرے جواہرات کے نادر ذخائر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک، امریکہ اور مغربی طاقتوں کے اس لئے دست نگر ہیں کہ یہ سارے وسائل انہی کے زیر قبضہ ہیں۔ پٹرول رکھنے والے ممالک پٹرول کی قیمت خود طئے نہیں کرسکتے۔ اتناہی نہیں مغرب مختلف حربوں کو استعمال کرکے عالم اسلام کو کاری معاشی ضرب لگاتا رہتا ہے۔ مسلم ممالک کو آپسی جنگو ں میں الجھا کر مغرب انہیں اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ امریکی و مغربی اسلحہ کے لئے مسلم ممالک سب سے بڑی منڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کو یمن کے ساتھ جنگ میں جھونک کر اس کی معیشت کو تباہ و تاراج کردیاگیا۔ عراق و شام کی جنگوں نے طاقتور معیشت کے حامل ان دونوں ملکوں کو کنگال کردیا۔
ہندوستان کی فرقہ پرست برہمن لابی بھی یہاں کے مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتی رہتی ہے۔ آزادی کے بعد ہی سے مسلم معیشت دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ ملک میں ہوئے ہزاروں فسادات میں کروڑوں کی مسلم املاک تباہ کردی گئیں۔ خصوصیت سے ان بڑے شہروں کو نشانہ بنایاگیا جہاں کے مسلمان کاروبار میں مستحکم تھے۔ مرادآباد، حیدرآباد، احمد آباد جیسے شہروں کو فسادات کی آگ میں جھونک کر وہاں کروڑوں کا نقصان کیاگیا۔
مسلم معیشت کو نقصان پہنچانے کی ایک اور شکل جسے دشمنوں نے پوری کامیابی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا ہے۔ پونزی اسکیمیں اور سرمایہ کاری کی خانگی کمپنیاں ہیں جس کے مالک کروڑوں کا عوامی سرمایہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اس طرح کی مختلف کمپنیوں کے مالک سرمایہ کاری اور زیادہ منافع کا لالچ دے کر عوام کو ٹھگ چکے ہیں۔ شہرحیدرآباد میں الفلاح کمپنی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ الفلاح کے سعید بھائی کا ہر طرف چرچہ تھا۔ کارخیر کی مختلف شکلوں میں وہ بھرپور حصہ لیتے تھے۔ لیکن انجام فراڈ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اسی طرح چار مینار بینک کا حشر بھی سب کے سامنے ہے جس کے مالک نے آخر کار خودکشی کرلی۔ شہر بنگلور میں امبیڈنٹ،اجمیر، اعلیٰ، براق، اللہ اکبر اور ہیرا گولڈ کے ناموں سے شروع کی گئی بہت سی کمپنیاں کروڑوں کا سرمایہ ہڑپ کرکے فرار ہوچکی ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں اٹھارہ لاکھ مسلمانوں نے ایسی کمپنیوں میں سرمایہ لگاکر 5,200 کروڑ کا نقصان اٹھایا ہے۔ گزشتہ دنوں اس قسم کی ایک ایسی کمپنی کے فراڈ کا معاملہ سامنے آیا ہے جو قریب چودہ برس سے کام کررہی تھی۔ یہ آئی ایم اے گروپ آف کمپنیز ہے جس میں بنگلور و اطراف کے اور پڑوسی ریاستوں کے ہزاروں مسلمانوں نے کروڑوں کا سرمایہ لگایا ہے۔ کمپنی کے مالک منصور خان نے گزشتہ ہفتے اپنا ایک آڈیو کلپ کو اپلوڈ کیا جس میں مختلف سیاسی قائدین کی جانب سے کروڑوں روپئے ان سے لینے اور کرپشن کی بات کہی گئی اور یہ ظاہر کیاگیا کہ وہ خودکشی کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہیکہ وہ بیرون ملک فرار ہوچکا ہے۔ یہ آڈیو جوں ہی عام ہوئی پورے شہر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس میں رقم انویسٹ کئے ہوئے ہزاروں سرمایہ کار دوڑے دوڑے اس کے آفس پر جمع ہونے لگے۔ اب جبکہ اس واقعہ کو دو ہفتے سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، عوامی احتجاج کا طوفان اب تک تھمتا نظر نہیں آتا۔ کہا جاتا ہیکہ صرف شہر بنگلور میں گزشتہ چند سالوں کے دوران اس قسم کی 16 کمپنیوں نے لوگوں کو ٹھگ لیا۔ لیکن عوام فراڈ کے ہر واقعہ کے بعد پھر کسی دوسری کمپنی کے فراڈ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہیرا گولڈ نے 50 ہزار کروڑ کا گھوٹالہ کیا۔ ایمبیڈنٹ کا سرمایہ 10 تا 15 ہزار کروڑ اعلیٰ کا ایک ہزار کروڑ اللہ اکبر کا ایک ہزار کروڑ اور مرگنال کمپنی کا 10 ہزار کروڑ اس طرح گزشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں کے 5 لاکھ کروڑ کا سرمایہ ان فراڈ کمپنیوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اور یہ سب کچھ حلال سرمایہ کاری کے خوشنما عنوان سے کیاگیا۔ اس قسم کی بیشتر کمپنیاں قائم اس لئے کی جاتی ہیں تاکہ خطیر سرمایہ جمع ہونیکے بعد عوام کو دھوکہ دیاجائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان ایسے فراڈیوں کے جھانسہ میں کیسے آجاتے ہیں۔ بار بار دھوکہ کھاکر بھی ایسی کمپنیوں کے جھانسے میں آنے کا ایک ہی سبب ہے اور وہ مال و دولت کالالچ اور بغیر محنت کے گھر بیٹھے پیسے کمانے کی ہوس ہے۔ لالچ بڑی بری بلا ہے۔ لالچی انسان بار بار دھوکہ کھاکر بھی سبق نہیں لیتا۔ آئی ایم اے انویسٹر جواس وقت پریشان و سرگرداں ہیں انہیں کسی اور پر ملامت کرنے کے بجائے خود اپنے آپ پر ملامت کرنا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ مال کی حرص ہم پر اتنی غالب آگئی ہیکہ ہم حلال و حرام کا فرق بھول گئے۔ محنت و مشقت کرکے کمانے کی اسلامی تعلیمات کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ کسی بھی ایسی کمپنی کے تعلق سے جب پتہ چل جاتا ہے کہ وہ گھر بیٹھے زیادہ نفع دے رہی ہے تو لوگ دوڑے دوڑے اپنا سرمایہ اس کے حوالہ کر بیٹھتے ہیں۔ یہ تک نہیں دیکھا جاتا کہ آخر اتنا زیادہ جو منافع دیا جارہا ہے وہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔ نیز اس پر بھی توجہ نہیں دی جاتی کہ اس کمپنی کا طریقۂ کار اسلامی اصولِ تجارت سے میل کھاتا ہے یا نہیں؟ اسلامی نقطہئ نظر سے سرمایہ کاری اس وقت درست ہوتی ہے جب نفع متعین نہ ہو نیز نفع نقصان میں دونوں فریق برابر کے شریک ہوں۔ اس قسم کی بیشتر کمپنیوں میں نفع کی مقدار متعین ہوتی ہے۔ مثلاً ایک لاکھ پر تین ہزار یا پانچ ہزار دئیے جاتے ہیں۔ یہ سراسر سود کی شکل ہے جو کہ حرام ہے۔ اسی طرح اکثر سرمایہ کاروں کے ذہن میں صرف نفع ہی ہوتا ہے۔ وہ خود کو نقصان میں شریک نہیں سمجھتے۔ یہ چیز بھی معاملے کو سود کے دائرہ میں لے جاتی ہے۔ آئی یم اے نے جب نفع و نقصان میں شرکت کی صراحت کردی تھی۔ تو اب جبکہ اس نے نقصان کا اعلان کردیا ہے تو سرمایہ کاروں کو اپنی اصل رقم کے مطالبہ کا حق نہیں پہنچتا۔ نقصان کے باوجود اگر کمپنی سے نفع کا مطالبہ کیا جائے تو یہ تجارت نہیں سود ہوا۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کی کمپنیاں حقیقت میں تجارتی کمپنیاں نہیں ہوتیں۔ ان کا مقصد دھوکہ دینا ہوتا ہے۔آئی ایم اے کو اگر نقصان یا دیوالیہ ہوا تھا تو اسے اعلان کرنا چاہئے تھا اور شرعی حکم کے مطابق جتنا کچھ سرمایہ باقی ہے، انویسٹروں میں ان کے مال کے تناسب سے ان میں تقسیم کرنا چاہئے تھا۔
آئی ایم اے گھوٹالہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہیکہ اس واقعہ نے علماء کی شبیہ کو بری طرح متاثر کیا،چونکہ آئی ایم اے کے ڈائرکٹر منصور خان نے لوگوں کو اپنی کمپنی میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنے اور اول سے علماء کو خوب استعمال کیا۔ ان علماء کو اس معنی میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتاکہ انہوں نے کمپنی کی نوعیت کو سمجھ کر شرعاً جو حکم ہوسکتا تھا اس کا تحریراً اظہار کیا اور انہوں نے کبھی اس میں سرمایہ کار کی ترغیب نہیں دی۔ آئی ایم اے کا طریقہئ کار اور اس کے بانی کا ہر کار خیر میں حصہ لینے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ کسی کو دور دور تک شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ شخص فراڈ کرے گا۔ جن حلقوں کی جانب سے اس معاملہ میں علماء پر لعن طعن کیا جارہا ہے انہیں جاننا چاہئے کہ وہ اپنے طرز عمل کے ذریعہ ملت کا بہت بڑا نقصان کررہے ہیں۔ دشمن یہی چاہتے ہیں کہ عام مسلمان علماء سے بدظن ہوجائیں اور علماء پر سے ان کا اعتماد اٹھ جائے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جب جب مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کی سازش کی گئی ہے مختلف حربوں کے ذریعہ پہلے انہیں علماء سے بدظن کیاگیا۔ جب عوام، علماء سے کٹ گئے تو پھر انہیں ضلالت و الحاد کی وادیوں میں پہنچادیاگیا۔
اس سے انکار نہیں کہ آئی ایم اے کے معاملہ میں علماء سے ضرور چوک ہوئی ہے۔ جب انہیں علم تھا کہ اس قسم کی بیشتر کمپنیوں کا انجام فراڈ ہی کی شکل میں ظاہرہوتا ہے اور بار بار اس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں تو احتیاط کا تقاضہ تھا کہ وہ خودکو اس سے دور رکھتے اور اپنے اداروں کے لئے ان سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھاتے۔