اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر انسان کو پیدا کیا اور مقصد تخلیق (طاعت و عبادت) کو واشگاف کرتے ہوئےاسے اپنا جانشین وخلیفہ مقرر فرمایا، تاکہ انسان خدا و رسول کی بتائی ہوئی شریعت پرعمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔
خلافت فی الارض کے جہاں بہت سےپہلو ہیں،وہیں اس کا ایک اہم پہلو سماجی و رفاہی بھی ہے۔بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مال چھوڑ کر مرا وہ مال اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا "ومن ترک کلًا وضیاعًا فإلیّ وعلیّ "اور جو شخص قرض کا بوجھ اور بے سہارا اولاد چھوڑ کر مرا وہ میری طرف رجوع کریں گے اور ان کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ گویا آپؐ نے فرمایا کہ سوسائٹی کے نادار، مستحق اور بے سہارا اپنی ضروریات کے لیے میرے پاس آئیں گے، اور آپؐ نے بات صرف "فإلیّ "پر نہیں چھوڑی بلکہ "وعلیّ "فرما کر خود کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ چنانچہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بیت المال کا تصور سامنے آیا جس کا دائرہ آنحضرتؐ کے دور میں یہ تھا کہ کسی شخص کو جو ضرورت بھی پیش آتی تھی وہ آپؐ سے رجوع کرتا تھا اور آپؐ بیت المال کے فنڈ سے اس کی ضرورت پوری فرما دیتے تھے۔
الغرض:اس عظیم مقصد کو رو بہ عمل لانے کے لیے جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ جیساکہ ارشاد خداوندی ہے :جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے (آل عمران)مذکورہ آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں مومن کو اپنی محبوب چیزخرچ کرنی چاہیے،یہ نہ ہوکہ جس چیز کی طرف طبیعت کی رغبت نہ ہو اسے اللہ کے راہ میں دے دے اور جوچیز اسے محبوب و پسندیدہ ہو اسے خداکے راہ میں قربان کرنے سے کترائے اور دینے کے لیے تیار نہ ہو۔
علماء یہود جوایمان لانے سے انکار کررہے تھے اس کا سبب یہ تھاکہ ان کو اپنی سرداری وقیادت محبوب تھی،اور وہ اسے قربان کرنے کے لیے تیار نہ تھے،گویاان کواس پر متنبہ کیا گیاکہ تم نیکی کے کمال کو اس قربانی کے بغیر نہیں پاسکتے-
اس آیت کے نزول کے بعد بہت سے صحابہؓ نے اپنی محبوب ترین چیز یں اللہ کے راستہ میں خرچ کردی ۔امام بخاری ومسلم نے حضرت ابوطلحہؓ کے واقعہ کو نقل کیاہے کہ ان کی قیمتی زمین بَیرحاء تھی جسے انہوں نے یہ کہہ کر صدقہ کردیا کہ میرا سب سے محبوب مال یہی ہے۔
خداوند بزرگ نے محتاجوں،غریبوں،یتیموں اور بیواؤں کی کفالت میں خرچ کرنے کو قرض حسن قرار دیا،وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں،یتیموں، بیواؤں اور غرباء و محتاجوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں۔ اللہ تعالی نے جگہ جگہ قرآن مجید میں غرباء مساکین اور محتاجوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔
اس وقت تقریباً پوری دنیا میں کروناوائرس کی وباعام ہوچکی ہے ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں،لاکھوں متاثر، اور سینکڑوں مشتبہ ہیں۔ متاثر ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے تقریباً ممالک میں کرفیو جیسی صورتحال ہے ۔ احتياطی تدابیر کے پیشِ نظر گھروں سے نکلنے پر پابندی لگ چکی ہے معیشت کی تباہی اور اربوں کا نقصان انسانی دنیا اٹھارہی ہے موجودہ صورت حال کے مطابق ایک بڑی تعداد اپنے گھروں میں قید وبند ہے ایسے نازک حالات میں اہلِ ثروت کو چاہیے کہ وہ اپنی محبوب چیز کواللہ کے بندوں کی نصرت ومدد کے لیے قربان کریں اور روز مرہ کے مزدوروں کو تلاش کیاجائے اور محتاج وتنگدستوں کی بقدر وسعت مدد کی جائے،ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں جو خود توشکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو،ایک حدیث میں لوگوں کو نفع پہونچانے والوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ بہتر انسان ہے جو لوگوں کو نفع پہونچائے۔
اللہ تعالی ایسے نازک وقت میں ہماری حفاظت فرمائےاور اور انسانیت کا درد ہمارے قلب وجگر میں پیدا فرمائے ۔آمین