چوں کہ جانور کے اندر موجود ‘بہنے والا خون(دمِ سائل) انسان کے لیے نقصان دہ ہے ، اس لیے جانور کو پاک وصاف بنانے کا شریعت نے ایک خاص طریقہ بتایا ہے ، جسے ’ذبح‘ کہا جاتا ہے ، اگر بغیر ذبح کے کوئی جانور کھایا جائے تو یہ بہنے والا خون جانور کے گوشت وغیرہ میں سرایت کرجاتا ہے ، جس کی وجہ سے پاک چیز بھی ناپاک ہوجاتی ہے ۔(بدائع الصنائع)
ذبح کا ایک طریقہ تو ’نحر‘ ہے ، جو اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی گردن اور سینے کے درمیان کی شہ رگ پر نیزہ مارا جاتا ہے ، اس کے علاوہ ذبح کی دو قسمیں ہیں:(۱)ذبحِ اختیاری(۲)ذبحِ اضطراری۔یعنی جو جانور قابو میں آجائے ،اسے ذبح کرنا ’ذبحِ اختیاری‘ کہلاتا ہے ،اس میں ضروری ہے کہ غذا،سانس اورخون کی دو دونالیوں میں سے کم از کم تین رگیں کاٹ دی جائیں۔جو جانور قابو میں نہ آتا ہو،ایسے جانور کو ذبح کرنے کے لیے کسی خاص قسم کی رگ وغیرہ کا کاٹنا ضروری نہیں ہوتا، کسی بھی جگہ زخم لگادینا کافی ہوتا ہے ،اگر زخم لگانے کے بعد جانور قابو میں آجائے تو اسے صحیح طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے گا اوراگر جیتے جی قابو میں نہ آئے ، تو اس طرح زخمی کر دینے سے بھی حلال ہوجائے گا اوراس طرح کرنے کو ذبحِ اضطراری کہتے ہیں۔(بدائع الصنائع)
ذبح کون کرے ؟
ذبح کرنے والا عاقل،بالغ یا ایسا بچہ ہوجو ذبح کرنے پر قدرت رکھتا اوراسے سمجھتا ہو اور مسلمان ہویا اہلِ کتاب‘ جب کہ وہ اپنے مذہب کے اصولوں کو صحیح طور پر مانتا بھی ہو اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام جان بوجھ رنہ چھوڑے ۔(تنقیح التحقیق فی احادیث التعلیق)لیکن حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒنے تحریر فرمایا ہے کہ میں نے پاکستان سے لے روم (اٹلی) تک نصاریٰ کے مشہور مراکز سے بہ راہِ راست تحقیق کی، تو ثابت ہوا کہ وہ بہ وقتِ ذبح بسم اللہ نہیں پڑھتے ،تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہ اسلامی طریقے پر ذبح کو بھی ضروری نہیں سمجھتے ، کسی بھی طریقے سے مار دینے کو کافی سمجھتے ہیں اور یہ ان کے ہاں عام معمول ہے ، لہٰذا ان کا ذبیحہ یا موقوذہ حرام ہے ۔(احسن الفتاویٰ)
عورت اور ذبح
بعض لوگ عورت کے ذبیحے کو درست نہیں سمجھتے ، جب کہ عورت اور نابالغ کا ذبیحہ بہ شرط یہ کہ ذبح کر سکتا ہو اور بسم اللہ کہے ، جائز ہے ۔(امداد الفتاویٰ)اور ایسا ذبیحہ بلا کراہت حلال ہے ۔ (احسن الفتاویٰ)اگر کوئی خرابی صحتِ ذبح میں نہ ہو تو صرف عورت ہونے کی وجہ سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، یہ صرف عوام کے غلط مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ عورت ذبح نہیں کر سکتی۔ (فتاویٰ مفتی محمود)
ذبح کرنے کا صحیح طریقہ
ذبیحے کا قبلہ رخ لٹانا اور ذابح کا قبلہ رخ ہونا‘ دونوں امر سنتِ مؤکدہ ہیں۔(احسن الفتاویٰ) البتہ ایسا نہ ہونے پر بھی جانور کی حلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹا کر تیز چھری ہاتھ میں لے کر، خود قبلہ رخ ہو کر، بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر گلے پر چلائی جائے ، یہاں تک کہ گلے کی چار رگیں کٹ جائیں، ایک نرخرہ، جس سے جانور سانس لیتا ہے ، دوسری وہ رگ جس سے دانہ پانی جاتا ہے اور دو شہ رگیں، جو نرخرے کے دائیں بائیں ہوتی ہیں۔ اگر ان چار رگوں میں سے تین کٹ جائیں تو بھی ذبح درست ہے اور اس کا کھانا حلال ہے ، البتہ اگر دوہی رگیں کٹیں تو اس کا کھانا جائز نہ ہوگا۔(ایضاً)اگر ذبح کرتے وقت قصداً جانور کی گردن کٹ جائے تو ایسا کرنا مکروہ ہے ، بدون قصد کوئی کراہت نہیں، گوشت بہ ہر صورت مکروہ نہیں۔ (ایضاً)
تسمیہ و تکبیر کہنا
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے دنبے ذبح کیے ، میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنا پاؤں ان دونوں کے پہلو پر رکھا، بسم اللہ اور تکبیر کہی، پھر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔(بخاری)البتہ کوئی مسلمان شخص ذبح کرتے وقت اگر تسمیہ پڑھنا بھول جائے تو جانور کے حلال ہونے میں کوئی تردد نہیں، لیکن اس میں قدرے تفصیل ہے ، وہ یہ کہ اگر بسم اللہ بھول گیا تو جانور حلال ہے [لیکن] رگیں کٹنے سے پہلے یاد آگیا تو بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے ، بعد میں یاد آیا تو ضروری نہیں۔(احسن الفتاویٰ) البتہ احناف کے ہاں ذبح کرتے وقت بسم اللہ قصداً و عمداً ترک کرنا ذبیحے کے مُردار ہونے کا سبب ہے ، لہٰذا بہ وقتِ ذبح عمداً بسم اللہ ترک کرنے سے ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے ، جس سے کسی بھی قسم کا انتفاع جائز نہیں، نہ خود کھا سکتا ہے اور نہ دوسروں کو کھلا سکتا ہے ۔ (فتاویٰ حقانیہ) نیز اگر معاون کی حیثیت اس درجے کی ہو کہ ذابح کا کردار اس کے بغیر نامکمل ہو، یہاں تک کہ چھری ہاتھ میں لے کر ذبح کرنے میں دونوں شریکِ کار ہوں، تو ہر ایک کے لیے تسمیہ کہنا ضروری ہے اور ہر ایک مستقل ذابح شمار ہوگا۔ (ایضاً)
ذبح کے وقت دعا
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے ، رسول اللہﷺنے قربانی کے دن دو مینڈھے ، خصی، سینگوں والے اور چتکبرے ذبح فرمائے ۔ بہ وقتِ ذبح آپ نے اس کو قبلہ رخ کیا اور فرمایا:میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی اور یہ کہ میں پوری یک سوئی کے ساتھ دینِ ابراہیم پر قائم ہوں اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔بلاشبہ میری نماز اور میری تمام عبادتیں اور میرا جینا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم کی اطاعت کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ ! یہ قربانی تیری ہی عطا سے ہے اور تیری ہی رضا کے لیے ہے محمد کی طرف سے اور اس کی امت کی طرف سے ، اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ ۔۔اس کے بعد آپ نے اس کو ذبح فرمایا۔(ابو داؤد، ترمذی)اس لیے علما نے لکھا ہے کہ جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھے : اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔پھر بسم اللّٰہ، اللّٰہ اکبر کہہ کر ذبح کرے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے : اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍﷺ وَخَلِیِلِکَ اِبْرَاہِیْم علیہ السلام۔(الفتاویٰ الہندیہ)
ADVERTISEMENT