قدیم اور پُرانی کہاوت ہے کہ ’’احتیاط علاج سے اور پرہیز افسوس سے بہتر ہے‘‘،یقینا یہ کہاوت اپنی جگہ صد فیصد درست ہے اور حقیقت پر مبنی ہے،احتیاط کے ذریعہ محتاط آدمی آنے والی بہت سی مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور جو شخص غیر محتاط رہتا ہے وہ آگے چل کر بہت سی پریشانیوں میں گھِر جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ محتاط آدمی کو سماج میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،بر خلاف غیر محتاط شخص کہ بسااوقات وہ بد احتیاطی کی وجہ سے خود بھی نقصان اُٹھا تا ہے اور دوسروں کے لئے بھی نقصان کا سبب بنتا ہے ،احتیاط کہتے ہیں کہ کسی بھی کام کے انجام دینے سے پہلے اس کے مثبت ومنفی دونوں پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ ایسا قدم اٹھانا کہ آئندہ کسی نقصان ،خسارہ اور افسوس وشرمندگی کا سبب نہ بنے ،نفع ونقصان کی پرواہ کئے بغیر جذباتی اور غیر سنجیدہ فیصلے لینے والے حالات کے گھیرے میں آکر ہمیشہ بے سکونی کی زندگی گزارتے ہیں ۔
انسانی زندگی کے تحفظ اور اسے مختلف امراض اور بیماریوں سے بچانے کے لئے جہاں اسلام نے بہت سی اہم ترین ہدایات دی ہیں اور تدبیریں بتائی ہیں انہی میں سے ایک اہم ترین ہدایت ’’احتیاط‘‘ بھی ہے ،اس نے اپنے ماننے والوں کو حفظ ماتقدم کے تحت احیتاطی تدابیر اختیار کر تے ہوئے مستقبل میں رو نما ہونے والے نقصانات سے بچنے کی مکمل طور پر ہدایتی احکامات دئے ہیں ،احتیاط کے خلاف کام کرنے کو خلاف ورزی اور جرم سے تعبیر کیا ہے ،اسلامی احکامات اور اس کی تعلیمات میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں احتیاطی اقدامات کو نمایا حیثیت حاصل ہے،قرآن حکیم میں ایک جگہ غفلت ،بے فکری اور بد احتیاطی کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے ،ارشاد ہے :ِ وَلاَ تُلۡقُوۡا بِأَیۡۡدِیۡکُمۡ إِلَی التَّہۡلُکَۃِ وَأَحۡسِنُوۡا إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ(البقرہ:۱۹۵)’’اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو،بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘،اس آیت مبارکہ میں اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے ، اگر چہ بہت سے مفسرینؒ نے حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے قول کے مطابق اس سے ترک جہاد مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ،مگر اس آیت کے ظاہری الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جو احتیاط کے خلاف بلا سونچے سمجھے کیا گیا ہو اور آگے چل کر کسی نقصان و تباہی کا سبب بن جائے درحقیقت وہ بھی اپنے ہاتھوں ہلاکت کے زمرہ میں آتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے متعدد مواقع پر حالات کی سنگینی کے پیش نظر قبل از وقت احتیاطی تدابیر بھی اختیار فرمائی تھی اور اپنے ماننے والوں کو اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اسے اختیار کرنے کی ترغیب بھی دی تھی ، چنانچہ بہت سے غزوات میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔
اسی طرح دشمن کے خوف اور بیماری و مرض کے بڑھ جانے کے ڈر سے کنویں سے پانی لینے اور وضوکرنے کے بجائے تیمم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے بلکہ حالت سفر میں مشقت کے بڑھ جانے ،صعوبت سفر کے زیادہ ہوجانے اور مسافر کو تکلیف سے بچانے کی خاطر فرض جیسی عبادات میں تک تخفیف کی گئی ہے اور مسافر کو ریلیف دیتے ہوئے قصر کا حکم دیا گیا ہے ،انسانی جان اور اس کی زندگی خدا کی امانت ہے ،اس کی حفاظت انسان کا فرض ہے اور اس میں کوتا ہی بڑی خیانت بلکہ موجب پکڑ ہے ،اس لئے اسلام نے ان تمام چیزوں سے منع کیا ہے جو احتیاط کے خلاف اور نقصان کا باعث بنتی ہیں،ایک موقع پر حضرت سلمان فارسی ؓ نے حضرت ابوالدرداء ؓ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ جملہ بھی فرمایاتھا : ان لبدنک علیک حقا(بخاری) ’’ تم پر تمہارے بدن کا بھی حق ہے ‘‘ ،جب حضر ت ابوالدرداءؓ نے رسول اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ؐ نے جوباً ارشاد فرمایا کہ سلمان سچ کہہ رہے ہیں ،اس نصیحت آمیز جملے سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایسا عمل جو صحت وتندرستی کو نقصان پہنچانے والا ہو وہ خلاف شرع ہے ،اس لئے کام میں اعتدال اور احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہے اور یہی اسلام کی تعلیم اور اس کے اعتدال پر مبنی ہونے کی دلیل ہے ۔
اسلامی تعلیمات کی خوبی یہ ہے کہ اس نے صحت عامہ پر کافی زور دیا ہے اور ان تمام بد احتیاطیوں سے روکا ہے جو آگے چل کر مضرتوں کا سبب بنتی ہوں ،بیماریوں سے قبل پر ہیز اور احتیاط کی تاکید کی ہے اور بیماریوں کے بعد علاج کا حکم دیا ہے نیز اسلام نے متعدی امراض سے محتاط رہنے کی بھی تاکید کی ہے ،اسلام نے صحت عامہ ،سفائی ستھرائی اور احتیاط سے متعلق جس درجہ اہمتام کے ساتھ ہدایات دی ہیں اس کی کسی دوسرے مذہب میں نظیر نہیں ملتی ،بلکہ اس کی نظر میں طہارت وپاکیزگی عبادت اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، فیہ رجال یحبون ان یتطہروا واللہ یحب المطہرین(اتبوبہ)الطہور شطر الایمان ( مسلم) والنظافۃ تدعو الیٰ الایمان والایمان مع صاحبہ فی الجنۃ ( طبرانی)تنظفوا فان الاسلام نظیف(بخاری) ،اور ان جیسی بہت سی آیات واحادیث طہارت ونظافت ،پاکی صفائی ، صحت وتندرستی اور آگے چل بیماری وپریشانی سے بچاؤ کے لئے واضح پیغام ہیں ،یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں اپنا کر ایک آدمی قبل ازوقت بہت سی تکلیف دہ چیزوں اور جسمانی مضرتوں سے اپنا بچاؤ کر سکتا ہے، صحت کا خیال نہ رکھنا اور بیمار ہونے پر علاج نہ کرنا یہ اسلامی مزاج ومذاق اور اس کی تعلیمات کے خلاف ہے ، اور اسی کو تقدیر سمجھ کر بیٹھ جانا کم علمی ،ناسمجھی اور منشاء شریعت سے ناواقفیت کی کھلی دلیل ہے ،حضرت ابوخزامہ ؓ نے رسول اللہ ؐ سے علاج ومعالجہ کے متعلق دریافت کیا کہ کیا علاج اللہ کی تقدیر کو بدل سکتا ہے؟آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : ہی من قدر اللہ (بخاری) یعنی علاج بھی تو اللہ کی تقدیر میں سے ہے،حضر ت عمر فاروقؓ جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک شام کی سر حد پر پہنچے تو پتہ چلا کہ یہاں طاعون پھیلا ہوا ہے ،آپس میں مشورہ سے وہاں نہ جانا طے کیا ،حضر ت ابوعبیدہ ؓ کے اعتراض پر جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں ،یعنی اگر طاعون کا پھیلنا اللہ کی تقدیر ہے تو اس سے بھاگنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی اللہ ہی کی تقدیر میں سے ہے ۔
رسول اللہ ؐ نے خود امراض سے بچنے اور جہاں عام وباء پھیلی ہوئی ہے وہاں جانے سے منع فرمایا ہے اور اس جگہ احتیاط اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی ہے ،ایک حدیث میں آپ ؐ نے جذام کی بیماری میں مبتلا شخص سے اس طرح دور رہنے اور بھاگنے کی تلقین فرمائی ہے جس طرح شیر سے دور بھاگا جاتا ہے ،ایک موقع پر کوڑھی کے مرض میں مبتلا شخص نے آپ ؐ سے بیعت کی خواہش ظاہر کی تو اس سے دور ہی سے فرمایامیں نے تم سے بیعت کرلی ہے(مسلم)بلکہ آپ ؐ نے احتیاط کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوڑھیوں کی طرف زیادہ دیر تک مت دیکھا کرو اور ان سے اس طرح بات کرو کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایک یا دو نیزے کا فاصلہ رہے ،یہی نہیں بلکہ جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ مریض اونٹوں کو صحت مند اونٹوں کے ساتھ نہ باندھو،اسلام کا یہ طرہ ٔ امتیاز ہے کہ اس نے نہ صرف حفاظت صحت کی تعلیم دی ہے بلکہ صحت کے لئے نقصان دہ چیزوں سے بھی بطور احتیاط اس سے دور رہنے کی تلقین بھی کی ہے ، جسمانی صحت سے ہٹ کر روحانی اور نفسیاتی امراض سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے کیونکہ نفسیاتی امراض کا براہ راست اثر انسانی جسم پر پڑتا ہے ،جس طرح جسمانی بیماری آدمی کی صحت وتندرستی کو برباد کر دیتی ہے اسی طرح نفسیاتی بیماری بھی آدمی کی زندگی کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے بلکہ نفسیاتی مریض ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے بد حال ہوجاتا ہے ، نفسیاتی وروحانی امراض میں حسد وجلن ،غرور وتکبراور دوسروں پر خود کی بر تری کا تصور بھی شامل ہے، اسلام میںنہ یہ صرف ان بیماریوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی صحبت سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی گئی ہے ،نفسیاتی امراض میں سے ایک خطرناک مرض ’’شک ‘‘ بھی ہے ،کہتے ہیں کہ یہ مرض تو سب میں خطرناک اور مہلک ترین ہے ،اس میں مبتلا شخص کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے ،بے چینی ،بے خوابی اور بد حواسی اس کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے ،آگے چل کر وہ خود پر بھی شک کر نے لگتا ہے ،اس لئے کہتے ہیں کہ یہ لا علاج مرض ہے ۔
بیماریوں سے بچاؤ کی جہاں اور بھی تدبیریں اپنائی جاتی ہیں ان میں سے ایک ’’احتیاط‘‘ بڑی اہم ترین تدبیر ہے ،فی الوقت پوری دنیا جس وائرس سے پریشان وبدحال بلکہ بد حواس ہے اور جس تیزی کے ساتھ وہ پھیلتی جارہی ہے اور اطباء کو اس کے چنگل میں پھنسے ہوئے مریضوں کو بچانا مشکل ہو رہا ہے،اس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ،اس لئے ہر ملک میں لاک ڈاؤن کے ذریعہ لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی جارہی ہے اور جن ممالک اس کا اہتمام کر رہے ہیں وہ کافی حد تک اس کے زہریلے اور ہلاکت خیز اثرات سے محفوظ بھی ہورہے ہیں ، وطن عزیز ہندوستان میں بھی تقریبا ً ایک ہفتے سے زائد جنتا کرفیو جاری ہے ،پورے ملک میں سناٹا چھایا ہوا ہے ، مختلف ریاستوں کے وہ بڑے بڑے شہر جہاں چوپیس گھنٹے چہل پہل اور گھماگھمی رہتی تھی وہاں بھی ہُو کا منظر ہے ،لوگ گھروں میں قیام کرنے ہی میں عافیت محسوس کر رہے ہیں ،یقینا کورونا وائرس کے متعلق ماہرین جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ نہایت تک تشویش ناک اور خطرناک باتیں ہیں،بے احتیاطی موت کا سبب بن سکتی ہے ، ابتداء میں جن ممالک نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا آج وہ اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں ،کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جو یہ چاہے گا کہ وہ اس خطر ناک مرض کی لپیٹ میں آجائے یا اس کے رشتے دار ،دوست احباب اور کوئی بھی شہری اس کا شکار ہو جائے ،چونکہ اس کے اثرات نہایت خطرناک ہیں اور اس کے پھیلنے کا اہم سبب اجتماعی اور سماجی میل جول ہے ،اس لئے لوگوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ وہ اکھٹے نہ ہوں اور ایسے تمام کاموں سے جس میں اجتماع ہوتا ہو مثلا،اجتماعی مذہبی عبادات ہو ں یا پھر آپسی تقریبات ان تمام سے اجتناب کریں ،جو لوگ سنجیدہ ہیں یقینا وہ حکومت اور مذہبی پیشواؤں اور اطباء حضرات کی ان ہدایات پر سختی سے عمل کر رہے ہیں لیکن اب بھی بعض غیر سنجیدہ لوگ ہیں جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے بد احتیاطی بلکہ حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی یہ نادانی دوسروں کے لئے مصیبت کا سبب نہ بن جائے ،اس لئے ہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو روکیں اور بلاوجہ ان کی نقل وحرکت پر بندش لگائیں ،یقینا احتیاطی تدابیر بھی شرعی احکامات کا درجہ رکھتی ہیں ،چنانچہ شیخ سعدی شیرازی ؒ کی یہ حکایت نہایت نصیحت آمیز اور غفلت سے جگانے کے لئے کافی وافی ہے ،لکھتے ہیں کہ ’’ ایک شخص طوفان کی آمد کے پیش نظر ایک درخت کے نیچے پناہ لئے کھڑا تھا،ایک دوسرا شخص پاس سے گزرا تو اس نے کہا میاں جب طوفان آتا ہے تو بجلی گرنے کا امکان درختوں پر زیادہ ہوتا ہے اس لئے یہاں سے ہٹ جاؤ ،اس شخص نے جواب دیا کہ میرا رب مالک ہے ،اس کے بعد ایک دوسرا شخص گزرا اس نے بھی یہی نصیحت کی تو درخت تلے کھڑے شخص نے پھر یہی جواب دیا،آخر ایک تیسرا بندہ گزرا اور اس نے یہی کہا اور اس آدمی نے پھر یہی جواب کہ اللہ مالک ہے۔غرض طوفان آیا بجلی گری اور وہ آدمی فوت ہوگیا ۔یہ سارا منظر جو ایک بندہ خدا دیکھ رہا تھا اس نے کہا کہ اس بندے کا تو اللہ پر اس قدر ایمان تھا، خدا نے اس کو کیوں نہ بچایا ۔مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ وہ تین بندے اللہ ہی نے بھیجے ہوئے تھے کہ ہٹ جاؤ اور بچ جاؤ مگر اس شخص نے نہ مان کر خود ہی آپ اپنی تباہی کی ۔ہمیں موجودہ حالات میں مولانا روم ؒ کی حکایت سے سبق سیکھ کر ان ممالک سے عبرت حاصل کرنا چاہے جو آج کہہ رہے ہیں کہ اگر بر وقت لاک ڈاؤن کر دیتے تو اتنا زیادہ جانی نقصان نہ ہوتا۔
اہل ایمان کو خاص کر اس وقت ایمان ویقین کے ساتھ شرعی ہدایات کی پابندی کرتے ہوئے نیز حتی المقدور احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی معاملہ کو اللہ کے سپرد کردینا چاہیے اور ان چند باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہے، بلاشبہ یہ حالات ہمارے لئے عبرت ونصیحت اور عملی زندگی سنوار نے کا نہایت اہم ذریعہ ہیں (۱) بے شک موت وحیات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ،موت کا ایک دن مقرر ہے ،موت اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے ،موت سے کسی کو مفر نہیں،دنیا مستقل قیام گاہ نہیں بلکہ عارضی ہے،یہاں دل لگانا اچھا نہیں ، فکر آخرت کیجئے،اپنے اندر دینی تبدیلی پیدا کیجئے(۲) گناہوں سے توبہ کیجئے ،استغفار کی کثرت کیجئے ، فرائض کی پابندی ،نوافل کا اہتمام اور تلاوت قرآن کو لازم کر لیجئے ان کے ذریعہ توشہ آخرت تیار کیجئے (۳) ایمان ویقین کو مضبوط کیجئے ،ذات الٰہی پر بھروسہ رکھئے ،دنیا اُس کے حکم کی محتاج ہے ،لمحہ واحد میں حالات بدل سکتے ہیں ،مایوسی کفر ہے اور کفر جہنم کا راستہ ہے(۴) احتیاط اور ہمت سے کام لیجئے، بلاوجہ خوف کھا کر خود کو ہلاکت میں نہ ڈالئے، خوف ودہشت سے بیماری جاتی نہیں بلکہ آدمی خود دیگر امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے،یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ایسے حالات آتے ہی رہتے ہیں باہمت ہمت سے کام لیتے ہیں،بیماری وصحت کا وہی مالک ہے ،اسی سے صحت وعافیت طلب کیجئے(۵)رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام کیجئے ، مساجد میں دل اٹکا ہوا ہونا ایمانی علامت ہے، آدمی جس جگہ ہو اللہ ہی کی طرف متوجہ رہے،شریعت کی جانب سے دی ہوئی رخصت پر عمل کریں،گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں ، یہ گھروں کے ماحول درست کرنے کا سنہری موقع ہے اس سے خوب فائدہ اٹھائیں ،(۶) خیر خیرات کے ذریعہ غریبوں کا خیال کیجئے ،اس مصیبت کی گھڑی میں ان کی مدد کیجئے یقینا اللہ آپ کی مدد کرے گا، دیتے وقت مذہب وملت کی تخصیص نہ کریں ،سب اللہ کے بندے ہیں اور بندوں کی مدد سے رب کو خوشی ہوتی ہے، غرباء کو دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے ان کے دلوں کو ٹھیس پہنچے ، یہ امتحان کا وقت اور مصیبت کی گھڑی ہے اس لئے سب کے ساتھ اپنائت کا مظاہرہ کریں ،(۷) سوشل میڈیا پر وقت گزرنے کے بجائے دینی واصلاحی کتابوں کی ورق گردانی کریں ،خاص کر ان حالات میں سیرت طیبہ کا مطالعہ اور اس کا مذا کرہ مفید تر ہے ،سوشل میڈیا پر دعائیہ میسج فاروڈ کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اسے خود پڑھنے کا اہتمام کریں،کثرت سے دعاؤں کا ورد کرتے رہیں ،اور بلاوجہ باہر گھوم پھر کر قانون کی خلاف ورزی نہ کریں ،اپنے جسموں پر رحم کھائیں ، خود کے ساتھ والدین ،رشتے دار ،اہل محلہ اور مذہب کی بدنامی کا سبب نہ بنیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی غلطی کا سزا دوسروں کا بھگتنی پڑیں،کسی نے بلاوجہ گھروں سے باہر گھومنے والوں کو بڑی عمدہ نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے ؎
بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے
موت سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا ہے قاتل
یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرروت کیا ہے
زندگی ایک نعمت ہے اسے سنبھال کر رکھئے
قبر گاہوں کو سجانے کی ضرورت کیا ہے
دل بہلنے کے لئے گھر میں وجہ ہیں کافی
یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے، اس مہلک لاعلاج وبائی مرض سے پوری دنیا اور خصوصاً اہل ایمان کی حفاظت فرمائے اورجو لوگ اس مرض کا شکار ہوگئے ہیں انہیں جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور ان نازک ترین وبائی حالات سے ہم سب کو سبق لیتے ہوئے نافرمانیوں سے بچنے فرماں برداری کی طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
٭٭٭٭