کرونا وائرس اس وقت ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے، تقریباﹰ سترہ ہزار ہلاکتیں، لاکھوں مشتبہ اور متاثر افراد، آئے دن ہزاروں کی تعداد میں بڑھتے ہوئے کرونا کے مریض، بیشتر ممالک میں کرفیو اور لاک ڈاؤن، ویران سڑکیں اور سنسان شہر، تباہ حال معیشت، اربوں کھربوں روپیوں کا نقصان یہ سب کچھ کرونا کے قہر کا منہ بولتا ثبوت ہیں، کرونا کو مزید متعدی ہونے اور پھیلنے سے روکنے کے لیے ممکنہ حد تک اقدامات کیے جا رہے ہیں، احتیاطی تدبیریں بتلائی جا رہی ہیں، مشتبہ افراد کو آیسولیشن میں رکھا جا رہا ہے، گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، اجتماع اور اختلاط سے پرہیز کرنے کی ہدایتیں جاری کی جا رہی ہیں، ان احتیاطی تدبیروں اور ہدایتوں میں ایک اہم بات مساجد کی جماعت میں افراد کو کم کرکے اپنے اپنے گھروں میں نماز باجماعت کا اہتمام ہے، یہ ایک ایسی ہدایت ہے جس پر عمل کرتے ہوئے یقیناﹰ عجیب سی تکلیف اور دکھ کا احساس ہوتا ہے، برسوں سے مسجد میں جماعت کا اہتمام کرنے والوں کے لیے یہ ہدایت کسی آزمائش اور مصيبت سے کم نہیں، اس سلسلے میں رائے بھی دو طرح کی ہے، ایک اہلِ عشق کی رائے اور ایک وہ رائے جو عشق و علم کا سنگم ہے، اہلِ عشق کی رائے یہ ہے کہ ہر صورت میں پہلے کی طرح؛ بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مساجد میں نماز با جماعت کا اہتمام ہونا چاہیے، اجتماعی اعمال و دعاؤں سے ہی اللہ پاک کی مدد حاصل ہوتی ہے اور حاصل کرنا چاہیے، آندھی، طوفان، مشکلات و مصائب اور حادثات کے وقت حضور اکرمﷺ اور صحابہ کے مسجدوں کی طرف بے ساختہ رخ کرنے اور جس بستی میں اللہ کا ذکر و نام لیا جائے اس بستی سے عذابِ الہٰی کے ٹل جانے والی روایتیں اہلِ عشق کی مضبوط دلیل ہیں، دوسرے طبقے کی دلیل یہ ہے کہ تیز بارش کے وقت (راستوں میں کیچڑ بھرجانے کی صورت میں) آپ ﷺ نے مسجد کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت جاری فرمائی (بخاری و مسلم) یہ ارشاد بھی ایک روایت میں ہے کہ طاعون کے وقت جو ثواب کی امید اور اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اپنے گھر پہ بیٹھا رہے اسے شہید کا اجر و ثواب ملے گا (بخاری) دلائل اور تاویلیں دونوں کے پاس ہیں، جواز کی حد تک بھی دونوں مسئلے درست ہیں کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے یا پھر گھر میں جماعت بنا کر پڑھ لی جائے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس وقت اجتماعی مفاد پیشِ نظر رکھا جائے، یہ مسئلہ صرف ذاتی اور انفرادی نہیں کہ جان کی پروا کیے بغیر، احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر مسجد میں حاضری دی جائے اور اجتماعی اعمال کا اہتمام کیا جائے، یہ مسئلہ اجتماعی ہے، اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی سب سے اہم وجہ social gathering ہے، حقیقت میں تو سب کچھ اللہ پاک کی مرضی ہے؛ لیکن سبب کے درجے میں یہ وائرس اجتماعی ملاقاتوں اور قریبی رابطوں سے ہی پھیلتا اور عام ہوتا چلا جا رہا ہے، اگر بے احتیاطی کی گئی، قریبی رابطوں اور اجتماعی محفلوں سے پرہیز نہ کیا گیا تو آدمی خود بھی ہلاکت کی طرف بڑھے گا اور دوسرے عام لوگوں کی بھی ہلاکت کا باعث بنے گا جو تقویٰ و توکل نہیں؛ خودکشی اور قتلِ عام کے مترادف ہے، قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو ( آیت نمبر 195،سورہ بقرہ) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ سنہ 764ہجری میں جب طاعون کی وبا دمشق میں پھیلی تو نیک و بد سب شہر سے باہر نکلے اور اجتماعی طور دعا کا اہتمام کیا؛ لیکن اس اجتماع و اختلاط کے بعد یہ وبا اور زیادہ پھیل گئی( صفحہ نمبر 18، حكم التداعي لفعل الطاعات في الشدائد و النوازل والملمات)
سنہ 833 ہجری میں قاہرہ شہر میں طاعون کی وبا پھیلی، لوگوں نے تین دن روزے رکھے، پھر شہر سے باہر آئے اجتماعی محفل سجائی، مل جل کر دیر تک دعائیں کرتے رہے پھر واپس ہوئے تو وبا کم ہونے کے بجائے مزید پھیلنی شروع ہوگئی، پہلے اس وبا سے مرنے والوں کی کل تعداد صرف چالیس تھی، اس اجتماع و اختلاط کے بعد روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرنے لگے (حوالہ سابق) یہ اور اس جیسے بہت سے واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ احتیاط کے پیشِ نظر ایک جگہ جمع ہونے اور قریبی رابطوں سے احتیاط کرنا بیماری کو دعوت دینے سے بہتر ہے، سير أعلام النبلاء: ج18، ص311، البداية والنهاية: ج13، ص203 پر ايسی بلاؤں اور آفتوں کے تاریخی واقعات بھی مذکور ہیں جن کی وجہ سے مصر و اندلس اور بغداد میں کئی کئی مہینوں تک مسجدوں کو بند کردیا گیا تھا، جماعتوں، جمعوں اور اجتماعی اعمال کو موقوف کردیا گیا تھا، پھر اس وقت تو صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ مسجد کی جماعت کم سے کم مصلیوں کی رکھی جائے، باقی سب لوگ نماز اپنے گھروں میں ادا کرلیں تو اس ہدایت کو خلافِ شریعت ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔
حضور اکرمﷺ کا یہ فرمانا کہ جذام کے مرض میں مبتلا آدمی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو (بخاری) اور بیعت کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں سے آپﷺ کا جذامی سے ملاقات نہ کرنا (مسلم) اس بات کے اظہار کے لیے ہی ہے کہ بعض مرتبہ مصافحے اور اجتماعی ملاقاتوں سے بیماریاں پھیلتی چلی جاتی ہیں؛ اس لیے اگر علماء و مفتیان اور فقہاء کرام کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدبیریں اختیار کی جائیں، جماعت کی نماز صرف چار پانچ لوگوں کی رکھی جائے، مسجدوں میں اجتماعی مجلسوں سے پرہیز کیا جائے اور اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی جائے تو یقیناﹰ یہ مرعوبیت یا ایمان کی کمزوری کی دلیل نہیں؛ بلکہ یہ پرہیز ہے، احتیاط ہے، حفظ ماتقدم ہے، شرعی تعلیمات اور حضور اکرمﷺ کی سنت کے عین مطابق ہے، وہ فیصلہ ہے جس میں علم بھی اور عشق بھی:
گھوم پھر کے نہ قتلِ عام کرے
جو جہاں ہے وہیں قیام کرے۔