قرآن وحدیث میں علم دین کو فلاح اور کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، علم کے ذریعہ انسان اپنے بہت سے مسائل حل کر سکتا ہے اور علم کی بدولت معاشرہ ترقی کرتا ہے، پاکیزہ معاشرہ تیار ہوتا ہے، تجارت اور معیشت مضبوط ہوتی ہے، سیاست میں صداقت، دیانت کے ساتھ نکھار آتا ہے، صاحب علم, کی فکر بلند اور ہر معاملہ میں شعور بیدار ہوتا ہے، صاحب علم، عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،بلند مقام و منصب پر فائز کیا جاتا ہے، یہ بات ہر ایک کے نزدیک اظہر من الشمس ہے اور مُسلم ہے کہ علم کوئی بھی ہو صاحب علم کو فائدہ دیتا ہے اگر وہ علم آخرت کے لئے حاصل کرتا ہے تو وہ اخروی فلاح و بہبود سے بہرور ہوتا ہے، اگر علم سے دنیا حاصل کرنا مقصود ہوتو دنیا میں کامرانی نصیب ہوتی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت مسلمان کونسا علم ضروری اور قابل ترجیح ہے، تو ہر ذی شعور اور عقلمند یہی جواب دیگا کہ بحیثیت مسلمان اتنا علم ضروری اور فرض ہے جس سے روزمرّہ پیش آنے والے مسائل معلوم ہوجائیں, اور وہ یہ جان سکے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کس کام سے راضی ہیں اور کس کام سے ناراض، کیا چیز حلال ہے کیا چیز حرام، اتنا علم حاصل ہوگیا تو فرض عین ادا ہوگیا، اب مزید علوم دینیہ میں مختلف فنون میں مہارت تامہ حاصل کرنا اور اس میں اپنی قابلیت، استعداد، اور صلاحیت پیدا کرنا فرض کفایہ ہے، اسی کو نبی کریمﷺ نے فرمایا "علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے” جہان تک دنیوی علوم کی بات ہے اسلام اس کے حصول کی بھی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسا علم نہ ہو جو اسلامی عقائد کے ڈھانچے کو ہی مسمار کردے-
مقصدِ تحصیلِ علمِ دین معرفتِ اِلٰہی ہے :-
حقیقی علم وہ ہے جو انسان کو” علیم” یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچائے، الغرض علوم اسلامیہ وہ علوم ہیں جن سے اسلامی معلومات حاصل ہوں ان میں سر فہرست قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کا علم ہے، اور یہی مقصود اور مطلوب ہے اور یہی براہِ راست اسلامی علم ہے، ان کو سمجھنے کے لئے جن علوم کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی بالواسطہ اسلامی علوم ہیں، علم نحو، علم صرف، علم منطق، علم فلسفہ، علم کلام، علم ادب، علم اصول فقہ وغیرہ یہی وہ علوم ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور انسان اپنے خالق و مالک کو پہچان سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم دین حاصل کرنے والے کے لئے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات دعائیں کرتی ہیں یہاں تک کے دریا کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی- علماء انبیاء کے وارث ہیں، اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسکو دین کی سوج بوجھ عطا کرتا ہے،اس جیسے بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہیں۔
دینی تعلیم سے دُوری کے اسباب و نقصانات:-
دنیوی علوم عام طور پر وہ سمجھے جاتے ہیں جو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائے جاتے ہیں، اسکول اور کالج کا صحیح انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ دین سے بیگانہ ہے، بچپن میں نہ دینی علوم سیکھتے ہیں نہ دینی کتابیں پڑھتے ہیں، نہ علماء کی صحبت اختیار کرتے ہیں، خاص طور پر بچوں کو کانوینٹ اور عیسائی مشنریز اسکولوں میں پڑھانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عقیدۂ توحید سے بیزار، عقیدۂ ختمِ نبوت سے ناواقفیت، دین اسلام سے دوری و بیزاری ، احکام اسلام میں شکوک و شبہات پیدا ہونے کے علاوه ان کے کورے دماغ میں نصرانیت کی چھاپ چھوڑ دی جاتی ہے کی وہ صرف نام کے مسلمان باقی رہیں یا آخر درجہ میں عیسائیت کی برائی ان کے دل سے نکل چکی ہوتی ہے، جس کا بہت بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ عیسائیت کے نظریات سے متاثر ہوکر عیسائی بن جاتا ہے یا فتنۂ قادیانیت،فتنۂ شکیلیت، فتنۂ جماعت المسلمین، یا نت نئے فتنوں کا شکار ہوکر اسلام اور ایمان جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوجاتا ہے الامان والحفیظ-
والدین کی ذمہ داری اور دینی تعلیم سے دوری کا علاج:-
موجودہ زمانہ میں اسکول اور کالج کی تعلیم دلانا خطرناک اور نقصان دہ ہونے کے باوجود ضروری ہے، ورنہ ان کے مستقبل کو تاریک کرنا لازم آئے گا- لہذا اس کا قوی اور مضبوط حل تو یہی ہوسکتا ہے کہ والدین اور سرپرست اپنی ذمہ داری اور مرنے کے بعد جواب دہی کے احساس کے ساتھ ابتداء ہی میں بچوں کے اسکول کا صحیح اور اچھا انتخاب کریں،اپنے بچوں کی دینی تربیت کریں، دینی تربیت میں خاص طور پر تین چیزوں کا لحاظ رکھیں اور بچوں کو ان تین چیزوں کا عادی بنائیں، (1) سچ بولنا(2) سات سال کی عمر سے نماز پڑھنا (3) بڑوں کا ادب و اکرام کرنا، عملی طور پر ان کے سامنے دیندار بن کے رہیں، گھر میں اسلامی ماحول بنائیں، بچوں کو قرآن و حدیث اور اسلامی معلومات کے سلسلہ میں علماء سے تعلق کو مضبوط کرائیں،ان کے وقت کو ضائع ہو نے سے بچاتے ہوئے تلاوت قرآن اور نماز کی پابندی کرانے کے ساتھ ہر وقت ان کی نگرانی کریں، وقت سے پہلے ان کے ہاتھ میں موبائل نہ تھمائے،اگر بچے کے لئے واقعتاً موبائل ضروری ہے تو بیجا اور غیر ضروری استعمال پر پابندی عائد کرنے کے خوب نگرانی کریں، اسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم۔ میں سے ہر ایک نگران ہے اور ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا-
علم دین کے فائدے:-
بچہ جب علم دین سے آراستہ ہوتا ہے تو جھوٹ، غیبت، چغل خوری، دھوکہ، والدین اور بڑوں کی نافرمانی، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، بے حیائی، حق تلفی، ناپ تول میں کمی، ناحق کسی کے مال کو لےلینا، قوم وملت کے اشیاء اور رقم کو ناجائز استعمال کرنا، سود لینا اور سود پر دینا ، ناحق کسی کو تکلیف پہچانا، زور و زبردستی سے کسی کی زمین کا حاصل کرنا، کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، شرک، کفر، رسم و رواج بدعات وخرافات اور ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہے گا، اور ہر معاملہ میں صداقت، دیانت، امانت داری کے علاوہ بڑوں کا اداب و اکرام اور چھوٹوں پر شفقت اور رحم کا معاملہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوف خدا کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی نہ صرف فکر بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیگا- دینی حمیت، اسلامی غیرت،بھلائی، خیر خواہی،انسانیت، ہمدردی جیسے جذبات اور صفات حمیدہ اس میں موجزن ہوں گے، خلاصہ یہ کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی نمونہ ہوگا –
والدین کا دینی تعلیم کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟
دنیاوی تعلیم شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے اعلیٰ سے اعلی ڈگری حاصل کرکے بلند منصب پر فائز ہونا نہ صرف جائز بلکہ بلکہ وقت کا اہم تقاضا اور وقت کی اہم پکار ہے، لیکن یہ سب کچھ کم از کم دین کی بنیادی تعلیم کے حاصل کرنے کے ساتھ ہونا ضروری ہے، عام طور پر بچوں کی کےکھانے پینے، لباس بلکہ دنیوی آرام و راحت کی ساری چیزوں کی فکر جس طرح غیر مسلم ماں باپ کی ہوتی ہے اسی طرح مسلمان ماں باپ کی بھی ہوتی ہے، لیکن مسلمان کی شان اور امتیاز یہ ہے کہ وہ بچوں کی دنیوی تعلیم فکر سے کہیں زیادہ دینی تعلیم کی فکر کریں، لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ مسلمان اپنے بچے کی دنیوی تعلیم کی فکر پیدائش بلکہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا، کہ حمل قرار پانے سے قبل ہی معیاری اور اعلی تعلیم کے اسکول کا انتخاب کرلیاجاتا ہے، اڈمیشن، ڈینوشن، ٹیوشن، آلات علم وغیرہ کے لئے ہزاروں اور لاکھوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں، لیکن دینی تعلیم کے سلسلہ میں لا پرواہی، بے اعتنائی، بے توجہی، بے التفاتی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، جبکہ یہی علم دنیا وآخرت کی کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے، اسکول بھیجنے کے لئے صبح سویرے ماں باپ کا بچے کو ٹفن دیکر آٹو یا کسی سواری پر بٹھانے تک بھاگ دوڑ کرنے کے علاوہ، شام اسکول سے واپسی کے بعد رات سونے سے قبل ہوم ورک کرانے اور پروجیکٹس وغیرہ کی تیاری کرنے میں اپنی انتھک کوشش لگا دی جاتی ہے تاکہ بچہ کسی بھی مضمون اور سبجیکٹ کمزور نہ رہے، اور دینی تعلیم کے سلسلہ میں ہمارا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ اس میں پیسے خرچ نہ ہو اور حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی جگہ بھیجا جائے جہاں مفت تعلیم کا انتظام ہو اور اگر کہیں فیس دیکر بھی پڑھایا جاتا ہو تو رسمی طور پر خانہ پوری کی جاتی ہے، معیاری تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں ہوتی، مکتب یا مسجد میں روزآنہ پابندی کے ساتھ بھیجنا تو دور کی بات ہے بچہ عربی پڑھ کر گھر واپس آنے کے بعد بچے کی حاضری اور غیر حاضری اور سبق کے ملنے اور نہ ملنے تک کا بھی علم نہیں ہوتا، یہ سب کچھ دلوں میں علم دین کی اہمیت، عظمت اور اس کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے، ماں باپ رسماً دینی تعلیمی دلانے سے وہ اپنی ذمہ داری سے اور حساب و کتاب کے وقت اللہ کے سامنے جواب دہی سے بری نہیں ہو سکتے, لہذا والدین اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں،اور اپنی اور اپنے نسلوں کے ایمان کی حفاظت کریں-
ہر عمل کی روح اخلاصِ نیت ہے:-
اسلامی تعلیمات میں نیت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، بلکہ سارے اعمال کا دارومدار ہی نیتوں پر ہے، مثال کے طور پر کوئی ڈاکٹر ہے اور اس کی اسلامی تربیت کے ساتھ نشونما ہوئی ہے، تو وہ اپنے پیشے کو کمرشیل نہ بناکر اور حصولِ مال کی لالچ میں ناحق طریقہ پر کمیشن اور مریض کو بغیر کسی ضرورت و مرض کے ضرورت سے زیادہ ادویات یا ٹیسٹوں کے لکھنے اور اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے غریبوں، ضرورت مندوں کا مفت یا سستا علاج کرے گا، اپنے پیشے سے خدمت خلق کا جذبہ رکھے گا تو یہ بھی دین ہی کہلائے گا اور اس کی دنیوی تعلیم میں لگا ہوا ہر لمحہ ان شاء اللہ عبادت شمار ہوگا- اسی طرح نیت کا اثر دنیوی تعلیم کے تمام دیگر شعبہائے جات میں بھی ہے، اس لئے بچپن سے ہی بچوں میں خیر خواہی اور خدمت خلق کے جذبہ کے فروغ دیں، تاکہ جھوٹ،دھوکہ، بد دیانتی سے سارا معاشرہ پاک ہوجائے-
اللہ تعالیٰ والدین کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنےاور ہر بچہ کے دینی تعلیم سے آراستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے،آمین یا رب العالمین۔
ADVERTISEMENT