افکار عالم

عمانوایل ماکرون فرانس کے دوسری مرتبہ صدرمنتخب، لی پین کو شکست

فرانس کے صدرعمانوایل ماکرون نے اتوار کے روز انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اپنی حریف میرین لی پین کو واضح فرق سے شکست دے دی ہے اور وہ دوسری مدت کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں میں ماکرون کوقریباً 57،58 فی صد ووٹ حاصل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس طرح کے تخمینے عام طور پر درست ہوتے ہیں لیکن ملک بھر سے سرکاری نتائج موصول ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی پوزیشن کہیں بہتر نظرآئی ہے۔

فرانسیسی وزیرصحت اولیویر ویرن نے ایک ٹیلی ویژن چینل پران کی جیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومتی پالیسی میں تسلسل رہے گا کیونکہ صدر دوبارہ منتخب ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم نے فرانسیسی عوام کا پیغام بھی سنا ہے‘‘۔

ماکروں کے لیے جیت کے بعد اب پہلا بڑا چیلنج پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔وہ جون میں ہونے والے ہیں اور بائیں اور دائیں بازو کی حزب اختلاف کی جماعتیں فوری طور پر ماکرون کی مخالفت کرنے والی پارلیمان میں اپنی بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔

واضح رہے کہ آئی ایف او پی، ایلابے، اوپینیئن وے اور آئی پی ایس او ایس نے رائے دہندگان کی بنیاد پر اپنے جائزوں میں ماکرون کی 57.6اور58.2 فی صد جیت کا امکان ظاہر کیا تھا۔

یورپی یونین کے حامی وسطی سیاست کے علمبردار ماکرون کی فتح کو اتحادیوں کی جانب سے مرکزی دھارے کی سیاست کے لیے مہلت قرار دیا جائے گا جو حالیہ برسوں میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج، 2016 میں ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب اور قوم پرست رہ نماؤں کی نئی نسل کے عروج سے لرز اٹھی تھی۔

ماکرون اب فرانسیسی صدور کے اس چھوٹے سے کلب میں شامل ہوگئے ہیں جو دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ان سے پہلے صرف دو فرانسیسی صدور دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے میں کامیاب رہے تھے لیکن ان کی جیت کا فرق اس وقت سے زیادہ نظر آتا ہے جب انھوں نے پہلی بار 2017 میں لی پین کو شکست دی تھی اور اس بات کی وضاحت کی تھی کہ کتنے فرانسیسی ان سے اور ان کے ریکارڈ سے متاثر نہیں ہیں۔

اس مغالطہ کی عکاسی ووٹ ڈالنے کے اعدادوشمار سے ہوتی ہے۔فرانس کے اہم پولنگ اداروں کا کہنا تھا کہ پولنگ سے غیر حاضری کی شرح ممکنہ طور پر 28 فی صد کے لگ بھگ طے ہوگی جو 1969 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

یوکرین پرروس کے حملے اوراس کے ردعمل میں مغرب کی پابندیوں کے پس منظر میں لی پین کی مہم ماکرون کے کمزور نقطہ کے طورپرزندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت پر مرکوزرہی تھی کیونکہ روس پر پابندیوں کے نتیجے میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔

انھوں نے ایندھن ٹیکس میں شدید کٹوتی، پاستا سے ڈائپر تک ضروری اشیاء پر صفر فی صد سیلزٹیکس، نوجوان کارکنوں کے لیے آمدنی میں چھوٹ اور ملازمتوں اور فلاح و بہبود کے بارے میں ’’فرانسیسی سب سے پہلے‘‘مؤقف کا وعدہ کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×