نئی دہلی: 18/جنوری (ذرائع) سپریم کورٹ نےآج شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف درخواستوں پرمرکزی حکومت سے جواب طلب کیا، اگرچہ اس نے کورٹ قانون پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ معاملہ کی اگلی سماعت 22 جنوری کو ہوگی۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی ڈویژن بنچ نے شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کو چیلنج کرنے والی کم از کم 59 درخواستوں کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا۔
کورٹ نے نوٹس کے جواب دینے کے لئے مرکزی حکومت کوجنوری 2020 کے دوسرے ہفتے تک کا وقت دیا۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش، ترنمول کانگریس کی پارلیمنٹ مہوا مؤترا اور دیگر رہنماؤں، انفرادی اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے پیش ہورہے وکلاء کی اس درخواست مسترد کردیا جس میں اس قانون پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔
ہم آپ کو بتادیں کہ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے کے خلاف پہلی عرضداشت مسلم لیگ نے دائر کی تھی۔ جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اور اس کا واضح مقصد مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ہے، کیونکہ مجوزہ قانون کافائدہ صرف ہندو، سکھ ، بدھ ، جین ، پارسی اور عیسائی برادری کے تعلق رکھنے والے افراد کو ہو۔
مسلم لیگ کے ذریعہ دائرکی پہلی عرضداشت
عرضداست گزاروں کومہاجرین کو شہریت دینے سے متعلق کوئی شکایت نہیں ہے لیکن درخواست گزار کی شکایت مذہب کی بنیاد پرامتیازی سلوک اورغیر منصفانہ درجہ بندی کے بارے میں ہے۔کہا گیا ہے کہ غیر قانونی مہاجرین اپنے آپ میں ایک طبقہ ہیں لہذا ان پرکوئی قانون نافذ نہیں کیا جانا چاہئے، خواہ ان کے مذہب ، ذات یا قومیت سے قطع نظرنہیں دیکھنا چاہیے۔
درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ احمدیا ، شیعہ اور ہزارہ جیسی اقلیتوں کو اس قانون کے دائرہ کار سے خارج کرنے سے متعلق حکومت نے کوئی وضاحت نہیں دی ہے۔ کانگریس نے ہی بدھ کے روز ہی شہری ترمیمی قانون سی اے اے کی آئینی جواز کو چیلنج کیا۔کانگریس لیڈر جئے رام رمیش اور کشور دیو برمن کی درخواستوں پر سماعت ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ ، ملک کے مختلف حصوں میں اس قانون کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس قانون کے تحت پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کی مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے کا لزوم بنایا گیا ہے۔
جنوری نہیں ہے، دسمبر ہے