اصلاحی مجلس: مسجد نور انکا پلی معین آباد، بتاریخ:12 مارچ 2020ء بروز جمعرات
بعد الحمد والصلاة!
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة۔
احب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ۔
جن کو میراث نبوت کا حصہ ملا، ان کے ذمے دو کام لازم ہیں:
1۔ اللہ تعالی سے اس درجہ محبت کہ ہر کام اسی محبت کے سبب سے ہو۔
2۔ اور زندگی کا ہر کام ان ہی کی مرضی کے موافق ہو۔
عبادت کی دو جہتیں ہیں: ایک رخ خالق کی جانب ہے؛ مثال کے طور پر نماز، روزہ، تلاوت، یاد الہی، تسبیح اور محاسبہ۔ اور دوسری جہت اگر چہ اللہ ہی کی عبادت ہے، لیکن نظر آنے کے اعتبار سے مخلوق کی جانب اس کا رخ ہے۔
جن کو دین پسندی اور حق پرستی کا حصہ ملا ہے ان کی حیثیت اس حکیم کی سی ہے جسے ہر آنے والے مریض کو دیکھنا ہے اور اس کے مرض کے اعتبار سے دوا تشخیص کرنا ہے، مطلب یہ ہے کہ آنے والے کی ضرورت کو پورا کرنا ہے، ظاہر ہے کہ عالم اور مولوی کی نظر تو پورے عالم پر ہونی چاہیے کہ عالم میں جہاں جس چیز کی ضرورت ہے اس کو میں کہاں تک پورا کر سکتا ہوں۔ یہ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد لوگ اپنی دلچسپی کے اعتبار سے کسی ایک چیز میں حصہ لے لیتے ہیں، لیکن بعض لوگ قدر مشترک کے طور پر ہر ایک میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ تمہید آ یک خاص مقصد کے تحت باندھی گئی ہے۔ آپ میں ہر ایک حق پسند ہے، اللہ تعالی کو راضی کرنے کا جذبہ ہر ایک میں ہے، رحمة للعالمین کی ایسی ذات گرامی سے ہر ایک کو تعلق ہے، جس ذات گرامی کا زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق تھا،محتاج کی ضروریات کا تکفل، ضعیف کو سہارا دینا،راہ حق کے متلاشی کو سیدھی راہ دکھانا، مظلوم کی مدد، امن و امان کی برقراری کے لیے دیگر مذاہب کے افراد سے روابط، یہ آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔
مدینہ پہنچ کر آپ نے دیگر اہل مذاہب سے معاہدہ کیا کہ بیرونی حملہ کا مل کر دفاع کریں گے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی حلف الفضول کا معاہدہ کیا، ہر اچھے کام میں معاونت آپ کا خصوصی مزاج تھا۔
اور جو باتیں سب کے لیے نقصاندہ ہوں ان کا دروازہ بند کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے، انسان تو انسان جانوروں اور حیوانوں پر ہونے والے ظلم کو بھی روکتے تھے، سرحدات کی حفاظت کے سلسلہ میں اور قوم و ملت کو نقصان سے بچانے کے لیے رباط کا نظام قائم کیا، اور اس کو بڑی فضیلت کا کام بتایا۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: رسول کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے،تو ہمارا ہر کام ان کے طریقہ پر ہونا چاہیے۔ صوفیا کا یہ کام ہوتا ہے اللہ کی محبت اس قدر موجزن ہو کہ ہر عمل ان کی نسبت سے ہو اور ان کی مرضی کے موافق ہو،اس طرح پوری زندگی صفت مقبولیت کے ساتھ عبادت بنے گی۔
یوں تو امداد و تعاون کی بہت سی تنظیمیں قائم ہیں، لیکن کام کی جان یہی دو چیزیں ہیں، اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو پھر کام اخلاص کی بنیاد پر نہیں بلکہ اغراض کی بنیاد پر ہوگا، ہمارا حال یہ کہ ہم نے ہمارے تمہارے کام کہہ کر 95 فیصد کام نکال دیے،اور 5 فیصد کو لیکر بیٹھ گئے، تو جن کا ذہن محدود ہو جائے اس کے 5 کام بھی صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں پائیں گے، اس لیے کہ فکر تنگ ہو گئی، لہذا آج نماز روزہ وغیرہ عبادات ویسے نہیں جیسے ہونے چاہیے۔
امت کا المیہ:
آج حالات اتنے خراب ہوگئے کہ طواف سے تک روک دیا گیا ہے، آج اس کے دو اسباب بیان کیے جا رہے ہیں کہ یا تو اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے یا پھر پھیلی ہوئی عالمی وبا اس کا سبب ہے، لیکن کوئی اپنے اعمال کی جانب نہیں دیکھ رہا ہے، تصویر بنانے والا اور سیلفی لینے والا بیت اللہ کے سامنے جا کر بھی اپنی ہی ذات کی جانب متوجہ ہے، کہ دو چادروں میں میں کیسا لگ رہا ہوں، بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے، حجر اسود کے پاس، مواجہہ شریفہ کے سامنے ہر جگہ تصویر کشی ہی میں مصروف ہے، ایک صاحب نے کہا کہ حرمین میں جو خلاف شرع کام انجام دیے جا رہے ہیں؛ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہی اعمال کی وجہ سے طواف سے روک دیا گیا ہے۔
دو اہم کام:
صوفیا نے صفت قبولیت پیدا کرنے کے لیے دو کاموں کو ضروری قرار دیا ہے، ایک اللہ کی محبت ہر شیئ پر غالب آ جائے،جب ایسا ہو جائے تو پھر دوسری چیز وہ ہر کام میں یہ دیکھے گا کہ اللہ اس کام کو پسند کریں گے یا نہیں، اور یہی مقصد زندگی ہے۔اول کام کے لیے دعا ذکر تلاوت وغیرہ ہے، اس سے محبت بڑھے گی، جب یہ چیز آ جائے تو ہر ہر عمل میں یہی جان پڑنے کا سبب بنتی ہے، اور رخ مخلوق کی جانب ہوگا لیکن مقصد رضائے الہی کا حصول ہوگا، اور یہ بھی عبادت ہے۔
خلق خدا کی خدمت بھی عبادت:
تو معلوم یہ ہوا کہ مخلوق کی خدمت بھی عبادت ہے، ہر آدمی میں کچھ نہ کچھ صلاحیت اور مہارت ضرور ہوتی ہے، پیغمبر جیسی جامعیت تو کسی میں نہیں ہوتی، لیکن ہر ایک میں دو چیزیں ہونا ضروری ہے: ایک اللہ کی محبت اور دوسرے ہر کام اللہ کی رضا کے لیے۔ طاقت ور ہے لیکن مال دار نہیں تو اپنی طاقت کے ذریعہ، مال دار ہے لیکن طاقت نہیں تو اپنے مال سے، اور اہل علم اپنے مشورہ کے ذریعہ خدمت کر سکتا ہے، ہمارا یہ نظریہ ہو کہ جو بھی اچھا کام ہے وہ میرا کام ہے، اس سے اللہ کی خوشنودی وابستہ ہے۔
مخلوق کی خدمت آدمی کو اللہ کا محبوب بناتی ہے، اب تک آپ نے سنا ہوگا کہ اتباع سنت محبت الہی کا سبب ہے، اس کا مفہوم وسیع ہے، بیوہ کی مدد کرنا، پریشان حال کی دستگیری کرنا، صفات عالیہ سے متصل ہو کر اپنے گھر میں اس کا مظہر بننا، یہ بھی اتباع نبوی ہے، اسی وسیع مفہوم کی جانب متوجہ کرنے کے لیے آپ نے فرمایا: احب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ، اسی لیے اکابر نے کہا کہ عبادت تو خلق خدا کی خدمت کرنے کا نام ہے۔
خود غرضی:
یہ عنصر مسلمانوں سے نکل گیا، خود اپنی خدمت سب سے بڑا موضوع بن گیا،چنانچہ ہر کام اپنے حساب سے کیا، اچھی کمائی ہو گئی تو جائیدادیں بنانے لگا، محتاجوں کا اس کے پاس گذر تک نہیں ہے، ملک کے موجودہ حالات میں جہاں شر پسندوں کی شرپسندی ہے وہیں ہماری غفلت بھی برابر کی شریک ہے، مسلمانوں نے شان مسلمانی کو فراموش کر دیا،مسلمان خود غرض بن گئے، مزاج یہ بن گیا کہ بس آئے؛ چاہے جیسے بھی آئے، جہاں سے بھی آئے، مخلوق سے ہمدردی کا عنصر ختم ہو گیا ہے۔
ہم کیا کریں:
اب عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اللہ رسول کے ماننے والے، اسلام پسند ہیں، اب یہ دیکھنا ہے کہ حالات کے اعتبار سے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ مثلا امور صحت، تعلیم، ہنر سکھانا، علاج و معالجہ، محتاجوں کی ضروریات پورا کرنا،برادران اسلام میں اسلامی اخلاق پیش کرنا، یہ سب کام اس وقت کر سکتےہیں جب کہ خود پرستی کے بجائے خدا پرستی ہمارے اندر پیدا ہو، صحابہ کے اندر یہ جذبہ دروں اس قدر تھا کہ ایک بکری کا سر جس نے بھیجا تھا وہ لوٹ کر اسی کے پاس آگیا۔
لمحہ فکریہ:
حالات اس قدر بگڑنے کے باوجود رجوع الی اللہ ہی نہیں ہو رہا ہے، دعا و ذکر، اور متاثرین کی خدمت کی جانب آدمی سوچ ہی نہیں رہا ہے، اور ہماری حالت اس طوطے کی سی ہو گئی جسے دس زبانیں سکھائی گئیں، لیکن جب بلی نے دبوچ لیا تو وہ تمام بولیاں بھول کر اپنی اصلی بولی ہی بولنے لگتا ہے، چنانچہ اس قدر دینی باتیں سکھائی جا رہی ہیں، محض اس لیے تاکہ حالات آنے پر یہ یاد رہیں، لیکن ہم اسے بھول جاتے ہیں، اور دیہاتوں میں تو شرکیہ جملوں کی کوئی سنگینی باقی نہیں رہی، بلا جھجک کفریہ جملے بکے جا رہے ہیں، آج امت کو ارتداد سے بچانا ہے کہ کہیں حالات کا شکار ہو کر امت مسلمہ اسلام سے بر گزشتہ نہ ہو جائے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیہاتوں میں جائیں، انہیں سمجھا ئیں اور برادران وطن کے ساتھ سلوک کی تعلیم دیں۔
کرونا وائیرس:
آج کل لوگ کھڑے کھڑے اکھڑ جا رہے ہیں، لہذا پاک و صاف رہیں، اپنے بچوں کو اور ان کے بستر کو پاک و صاف رکھیں، با وضو رہنے کا اہتمام کریں، ہمارے پیغمبر نے 1400 سال قبل ہی تعلیم دے دی تھی کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد پہلے دونوں ہاتھ دھوئے جائیں، جس پر آج یہ لوگ وائرس سے بچنے کے لیے عمل کر رہے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر کروڑوں شرک و کفر کے جرثومے لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن کوئی اس سے نہیں بچ رہا ہے۔
بہر حال دو کام جو بتائے گئے ان کے لیے خانقاہوں کا رخ کریں، اگر امت کا پچاس فیصد طبقہ بھی اس جانب متوجہ ہوگا تو حالات کا تختہ پلٹ سکتا ہے، بس اپنی ذات سے اٹھ کر خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔