اسلامیاتمولانا خالد سیف الله رحمانی

سیاست کو اخلاقی اقدار سے مربوط کرنے کی ضرورت

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

عرصہ پہلے اس حقیر کودہلی ریپ واقعہ کے پس منظر میں منعقد ہونے والے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا ، جس میں متعدد اعلی تعلیم یافتہ اصحاب علم ودانش اور مختلف مذاہب کے نمائندے بھی شریک تھے ، مختلف حضرات نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق واقعہ کا تجزیہ کیا اورسدباب کی تدبیروں پر روشنی ڈالی ، عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ تعلیم کی کمی اور معاشی پسماندگی ایسے واقعات کاسبب بنتی ہے ، اگر معاشرہ تعلیم یافتہ ہوجائے تو خیر وشر کی تمیز پیدا ہوگی ، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کے احترام کا جذبہ پیدا ہوگا اور ایسے ناگفتہ بہ حادثات وواقعات کا تدارک ہوسکے گا ، جب اس حقیر کی باری آئی تو اس نے عرض کیا کہ تعلیم کی اہمیت اور شخصیت کی تعمیر میں اس کے مؤثر کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح معاشی ترقی بھی یقیناً ایک خوش آئند بات ہے ؛ لیکن یہاں مسئلہ ’’تعلیم ودولت کے باوجود‘‘ کا ہے ؛ کیوں کہ اس وقت جرائم کی جو لہر پیدا ہو رہی ہے ، اس میں اَن پڑھ لوگوں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے لوگوں کا حصہ زیادہ ہے ، غریبوں کے مقابلہ میں اہل ثروت جرائم کے ارتکاب میں زیادہ جری واقع ہوئے ہیں ، جرائم کے سلسلے میں اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ طلبہ و طالبات یہاں تک کہ اساتذہ و معلمات جرم کو انجام دینے میں پیش پیش ہیں ، تعلیم یافتہ لوگ جرم کو انجام دینے میں ترقی یافتہ تیکنک کا استعمال کرتے ہیں ، جو لوگ اعلیٰ مناصب پر ہیں ، اونچی اونچی تنخواہیں پاتے ہیں ، کرپشن کی دنیا میں انھیں کے وجود سے بہار آرہی ہے ، جو بے چارہ کم پڑھا لکھا یا غریب ہو ، اس کی خواہشات بھی محدود ہوتی ہیں ، اور اگر وہ چاہے بھی تو اسے کوئی رشوت نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ جرائم دیہاتوں سے زیادہ شہر میں اور چھوٹے شہروں سے زیادہ بڑے شہروں میں انجام دیئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ملک کی راجدھانی جرائم کی بھی راجدھانی بن گئی ہے ؛ اس لئے ضرورت ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ قلب و ذہن کے تبدیل کرنے کی ۔
ریاستوں کی اسمبلیاں اور ملک کی پارلیامنٹ اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے ہیں ، یعنی انھیں پورے ملک کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے ، یہی ادارے لوگوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں اور ان کے لئے قوانین بناتے ہیں ؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ بدقسمتی سے ان قانون ساز اداروں میں کتنے ہی ممبران وہ ہیں ، جن پر قتل ، اقدام قتل، زنا ، اغواء ، رنگ داری وغیرہ کے مقدمات درج ہیں ، گزشتہ لوک سبھا کے پانچ سو تینتالیس (۵۴۳) میں سے ایک سو باسٹھ (۱۶۲) ارکان یعنی تیس فیصد پر کریمنل مقدمہ دائر تھا ، ان میں سے (۷۶) یعنی چودہ فیصد سنگین مقدمات کا سامنا کررہے تھے ، پورے ملک میں ریاستی اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد (۴۰۳۲) ہے ، ان میں (۱۲۵۸) یعنی اکتیس فیصد افراد پر فوجداری مقدمات درج ہیں ؛ لیکن کسی بھی پارٹی کا دامن بے داغ نہیں ہے ، گویا ملک وقوم کی قسمت کے فیصلے ایسے ادارے کرتے ہیں ، جن کی ایک تہائی تعداد پر قاتل ، زانی ، چور ، اُچکے اور غاصب و اغوا کنندہ ہونے کا الزام ہے ، اور بادی النظر میں یہ الزام صحیح نظر آتا ہے ؛ اسی لئے پولیس نے ان کے خلاف کیس کو قبول کیا ہے ۔
عام طور پر ایوان قانون میں ارکان کے درمیان کسی مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہوپاتا ، حکومت کتنا ہی معقول قدم کیوں نہ اُٹھائے ؟ اپوزیشن اس کی مخالفت کو اپنا فریضہ تصور کرتی ہے ، اور اپوزیشن کی طرف سے کتنی ہی بہتر سے بہتر تجویز پیش کی جائے ، حکومت اسے قبول کرنے کو اپنی اہانت تصور کرتی ہے ؛ لیکن عوام دیکھتے ہیں کہ ایک موقع پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں وسیع تر اتفاق رائے ہوجاتا ہے ، اور وہ موقع ہوتا ہے ارکان کی یافت ، سہولتوں اور فنڈ میں اضافہ کا ، اس میں حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار ، دونوں دوش بدوش کھڑے ہوکر بِل کو پاس کراتے ہیں ، نہ اس پر بحث کی نوبت آتی ہے او رنہ اختلاف رائے کی ؛ اس لئے ذرائع ابلاغ اس پر شور بھی نہیں مچاتے او ردبے پاؤں یہ سارا مرحلہ طے ہوجاتا ہے ۔
جمہوری نظام کا ایک پہلو تو یہ ہےکہ عوام کی نمائندگی عوام ہی کے منتخب افراد کے ذریعہ ہو ، یہ یقیناً ایک معقول اور مبنی برانصاف اُصول ہے ؛ لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مقدار کی اہمیت ہوتی ہے ، معیار کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، علامہ اقبالؒ کے بقول : ’’ جمہورت میں سرگنے جاتے ہیں ، تو لے نہیں جاتے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بدکردار سے بدکردار شخص بھی اگر پیسے خرچ کرکے اور غنڈہ گردی کا سہارا لے کر ووٹ کی زیادہ تعداد حاصل کرلیتا ہے تو وہ عوام کا نمائندہ بن جاتا ہے اور ملک وقوم کے لئے سیاہ وسفید کے فیصلہ میں شامل ہوجاتا ہے ، معقول بات یہ ہے اور یہی اسلامی اُصول ہے کہ کسی شعبہ میں نمائندگی کے لئے ووٹ کے ساتھ ساتھ مطلوبہ معیار کا بھی حامل ہوناچاہیے ، اس کے بغیر کسی شخص کو کوئی ذمہ داری سونپی نہیں جاسکتی ، قرآن مجید نے اس کے لئے ایک جامع اُصول ذکر کیا ہے کہ آپ کسی بھی کام کا ذمہ دار اس شخص کو بنائیے ، جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں ، ایک یہ کہ وہ اس کام کی صلاحیت رکھتا ہو ، دوسرے : اس میں امانت ودیانت ہو : اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ (قصص:۲۶) قوی کے معنی طاقتور کے ہے ؛ لیکن طاقت صرف جسمانی طاقت ہی کا نام نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں ہر طرح کی طاقت شامل ہے ، علم کی طاقت ، عمل کی طاقت ، اخلاق و کردار کی طاقت اور انصاف پر اپنے آپ کو قائم رکھنے کی صلاحیت ۔
امین کے معنی ’’امانت دار‘‘کے ہیں ، امانت کا تعلق صرف حفاظت کے لئے رکھے گئے مال ہی سے نہیں ہے ؛ بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے ، جو عبادتیں اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں ، وہ اللہ کی طرف سے امانت ہیں ، لوگوں کے جو حقوق ایک دوسرے کے ذمہ ہیں ، وہ بھی ایک دوسرے کی امانت ہیں ، حکومتوں پر رعایا سے متعلق جو ذمہ داریاں ہیں ، یا رعایا پر حکومت کے تئیں جو فرائض ہیں ، یہ سب امانت میں داخل ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امانت ان کے اہل کے حوالہ کیاکریں :  اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا(نساء:۵۸)مشہور مفسر علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ یہاں امانت کا حکم تمام لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے شامل ہے ، کہ جس کو جو ذمہ داری سونپی جائے ، اس کے اندر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی صلاحیت ہو ، (تفسیر قرطبی:۵؍۲۵۶) جو شخص کسی کام کا اہل نہ ہو ، اس کو وہ ذمہ داری سونپ دی جائے ، یہ خیانت ہے اور ذمہ داری جتنی اہم ہو ، اس سے متعلق امانت داری بھی اسی طرح اہمیت کی حامل ہے ، جس شخص سے قوم کے اجتماعی معاملات متعلق کئے جائیں ، اس کی ذمہ داری دوسرے لوگوں سے کہیں بڑھی ہوئی ہے ؛ کیوں کہ اس کے فیصلوں کے گہرے اوردُور رس اثرات مرتب ہوں گے ؛ اس لئے ذمہ داریوں کے معاملے میں امانت داری کا لحاظ کرنے کی اور زیادہ ضرورت ہے ۔
اکثر اُمور میں اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ذمہ داری جس سے متعلق کی جائے ، اس میں اس کی صلاحیت ہو ، صرف اکثریت کی تائید کو کافی نہیں سمجھا جاتا ، اگر کسی شہر کی اَٹھاون فیصد تعداد کسی کے حق میں ووٹ دے کر اسے ڈاکٹر کے عہدہ پر نام زد کردے ؛ حالاںکہ اس شخص نے میڈیکل تعلیم حاصل نہ کی ہو تو کیا اکثریتی ووٹ کے بنا پر اسے ڈاکٹر منتخب کرلیا جائے گا اور علاج کی ذمہ داری اس کے حوالے کردی جائے گی ؟ ایک شخص کمپیوٹر سائنس کے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو ؛ لیکن کمپنی کی اکثریت اس کے حق میں ووٹ دے کہ اس کو سافٹ ویر انجینئر کی ذمہ داری دی جائے تو کیا کوئی عقلمند شخص اس کو قبول کرے گا ؟ اسی طرح اگر کسی شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ لوگوں کی امانتیں ڈبودیتا ہے اور کئی اسکینڈل کا مرتکب ہوچکا ہے تو کیا کسی شخص کو یہ بات پسند ہوگی کہ اپنا سرمایہ اس کے حوالہ کردے اور جس آدمی سے بار بار دھوکہ کھاچکا ہو ، اس کے پاس سرمایہ کاری کا جو کھم مول لے ، تو جیسے زندگی کے دوسرے مسائل میں صرف اکثریت کی رائے پر اعتماد نہیں کیا جاتا ، جب تک کہ وہ شخص اس کام کی صلاحیت نہ رکھتا ہو او راپنے کام کے معاملے میں دیانت دار نہ ہو ، تو پھر قوم کے اجتماعی مسائل کے فیصلے کیسے ان لوگوں کے حوالہ کئے جاسکتے ہیں ، جنھوں نے کسی طرح نسبتاً زیادہ ووٹ حاصل کرلئے ہوں ؛ حالاںکہ وہ اخلاق و دیانت کے اعتبار سے اس لائق نہ ہوں کہ ذمہ داریاں ان کے سپرد کی جائیں ، یہ بھی یقیناً بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے کسی مریض کو کسی ناواقف معالج کے حوالہ کردیا جائے یا اپنی دولت و عزت پر کسی بے بھروسہ شخص کو ذمہ دار بنادیا جائے ۔
افسوس کہ لوگوں میں اور خود مسلمانوں میں بھی یہ سوچ عام ہوتی جارہی ہے کہ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے ، جھوٹ ، دھوکہ ، مکاری ، وعدہ خلافی ، نفاق ، گالی گلوچ اور دوعملی ، رشوت کا لین دین ، لوگوں کو بے آبرو کرنا اور مصنوعی طور پر اپنی عزت کرانا، ابھی تو حد ہی ہوگئی، ملک کے سب سے بڑے سیاسی قائد نے اس طرح کُھل کر جھوٹ بولا کہ اگر جھوٹ بولنے کا مقابلہ ہوتا تو عجیب نہ تھا کہ وہ انعام اول کے مستحق ہوتے، یہ ساری باتیں اگر چہ بری ہیں ؛ لیکن سیاست میں ان سب کی گنجائش ہے ، یہ ایک انتہائی غلط تصور ہے ، سیاسی قائدین ملک کے اعلیٰ ترین نمائندے ہوتے ہیں ، وہ عوام کے ترجمان بھی ہوتے ہیں اور عوام کے حق میں فیصلے بھی کرتے ہیں ، اگر بد اخلاقی ان کے لئے روا ہوتو کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ زندگی کے کسی اور شعبے میں اخلاقی اقدار اور انصاف کے تقاضوں کو پناہ مل سکے گی ؛ کیوں کہ رعایا کا وہی مزاج بنتا ہے ، جو اُن کے حکمرانوں کا ہوتا ہے: الناس علی دین ملوکھم‘‘ اس کی واضح مثال ملک میں بڑھتا ہوا کرپشن اور لینڈ گرابنگ ہے ، جب سے سیاست دانوں کے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آنے لگے ، وہ لینڈ گرابر اور جبر کے ذریعہ عام لوگوں سے پیسے وصول کرنے والے اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ جمانے والے مجرمین کی شکل میں عوام کے سامنے آنے لگے ، کرپشن اور لاقانونیت کا ذہن ہر شعبہ میں پیدا ہوگیا ، سرکاری ادارے ہوں یاپرائیوٹ ادارے ، پولیس ہو یا فوج ، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا کہ جہاں رشوت کا بازار گرم نہ ہو ، جب سیاسی لیڈروں نے غنڈوں کی ٹولیاں پالنی شروع کردیں ، یہاں تک کہ اُترپردیش کے ایک سابق وزیر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ا نھوں نے اپنے یہاں ایک بڑا تالاب بنا رکھا ہے اور اس میں مگر مچھ چھوڑ رکھے ہیں ؛ تاکہ اپنے مخالفین کو اس طرح موت کی نیند سلادی جائے کہ کہیں اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہے ، ایوان سیاست میں غنڈہ گرووں کی پرورش کا نتیجہ یہ ہوا کہ بینکوں نے فائنانسروں نے اور دوسرے لوگوں نے بھی غنڈوں سے مدد لینے کو اپنے مسائل کا حل سمجھ لیا ، اس طرح لاقانونیت اور اخلاقی اقدار کی پامالی ملک کے رگ و ریشے میں رچ بس کر رہ گئی ۔
اسلام کا تصور اس سلسلہ میں بالکل واضح ہے کہ احکام خداوندی کی اطاعت اور انصاف کاقیام زندگی کے تمام مسائل میں ضروری ہے ، خواہ اس کا تعلق دین سے ہو ، یا بظاہر دنیا سے ، چاہے اس کا تعلق افراد سے ہو یا عامۃ الناس سے ، اگر کوئی مسلمان یہ سوچے کہ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے تو وہ اسلام کی بنیادی فکر کو پامال کرتا ہے ، اسلام سے پہلے عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ جنگ میں کوئی قانون نہیں چلتا ، جس طرح بھی ممکن ہو ، دشمن کو مغلوب کرو اور اسے نقصان پہنچاؤ ؛ لیکن رسول اللہ ﷺنے جنگ کے لئے بھی قوانین مقرر کئے، صحابہؓ نے اس پر عمل کیا اور دشمن کی زیادتی کے باوجود کبھی نقطۂ عدل کو نہیں چھوڑا ، یہاں تک کہ غزوۂ بدر میں جب ایک ایک مجاہد کی اہمیت تھی اور مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ بہت کم تھی ، تب بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک مسلمان دوسری سمت سے آرہے تھے ، مشرکین مکہ نے انھیں پکڑلیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے ، پھر وہ مسلمانوں کی طرف آئے اور سول اللہ ﷺسے شریک جہاد ہونے کی درخواست کی ، مگر رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جب تم ان سے وعدہ کرچکے ہو تو اپنے وعدے پر قائم رہو ، غور کیجئے کہ ایسے نازک موقع پر بھی آپ ﷺنے اجازت نہیں دی کہ مسلمانو ںاخلاقی حدود سے آگے بڑھ جائیں اور عہد و پیمان کا پاس ولحاظ چھوڑ دیں ، اس لئے تمام لوگوں کو خاص کر مذہبی قیادتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کو اس بات کی جد وجہد کرنی چاہیے کہ سیاست کو اخلاق کے دائرے میں لایا جائے ، مسئلہ فرقہ پرستی کا ہو ، یا ذات پات کی تفریق کا ، یہ سب اسی کی دین ہے کہ سیاست کا رشتہ اخلاق سے کٹ چکا ہے اور اس بات کو جائز سمجھ لیا گیا ہے کہ انسانی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کیا جائے ، یہاں تک کہ اب تو ایسے لوگ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں ۔
ہمیں عوام میں بھی شعور پیدا کرنا چاہیے کہ وہ اپنا لیڈر منتخب کرنے اور اپنا سیاسی نمائندہ چننے میں صرف ذات پات، سیاسی یا مذہبی وابستگی پر نظر نہ رکھیں ؛ بلکہ ان کو اخلاق کی ترازو پر بھی تولنے کی کوشش کریں ، ایسے لوگ جو جرائم پیشہ ہیں ، جنھوں نے ظلم وجور کا بازار گرم کر رکھا ہے ، جن کے ہاتھوں انسان کی جان ، اس کی دولت او راس کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو ، اقتدار کی کلید اس کے حوالے نہ کریں ، اگر آپ کے ووٹ سے ایسے لوگ منتخب ہوئے تو آپ بھی ان کے جرائم میں شریک اورعنداللہ جواب دہ ہوں گے ، قرآن مجید نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ نیکی کے کام میں تعاون کرو اور گناہ او رظلم کے کام میں تعاون نہ کرو: وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (مائدہ:۲) نااہل لوگوں کو قوم وملک کے بارے میں فیصلے کی ذمہ داری سپرد کرنا یقیناً ظلم و عدوان میں تعاون کرنے کے مترادف ہے ۔
عوام کو حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ایساقانون بنائے ، جس سے مجرموں کو ایوان اقتدار تک پہنچنے کا موقع نہ ملے ؛ بلکہ ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ اس کا سدباب ہو ، سیاسی پارٹیوں سے بھی مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ داغدار اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو الیکشن میں اُمید وار نہ بنائیں ، جب تک عوام میں بیداری نہیں آئے گی اور جس طرح وہ زندگی کی بنیادی ضروریات کے سلسلے میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ، اس اہم مسئلہ پر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے ، ملک اخلاق و کردار سے محروم سیاستدانوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکے گا ، اگر انصاف اور اخلاص کے ساتھ ایسی تحریک شروع ہوتو یہ جنگ ،’’جنگ آزادی‘‘ سے کم مقدس نہیں ہوگی ؛ البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر شخصی مفادات سے بڑھ کر قومی مفادات کو اہمیت دینے کا مزاج پیدا ہو اور لوگ سمجھنے لگیں کہ جیت یہ نہیںہے کہ آپ نے جس اُمید وار کو ووٹ دیا ہے ، وہ کامیاب ہوجائے ؛ بلکہ آپ کی جیت یہ ہے کہ جو اُمید وار سب سے زیادہ اخلاق ودیانت کا حامل تھا ، آپ نے ووٹ اس کے حق میں ڈالا ہے ، اگر ایسا اُمید وار ہار گیا ، تب بھی آپ کی جیت ہے ؛ کیوں کہ آپ کا ضمیر جیت چکا ہے اور آپ نے ایک ایسا کام کیا ہے ، جس سے آپ کا قلب مطمئن ہے ، اور اگر آپ نے قاتل ، زانی ، چور ، غاصب اُمیدوار کو ووٹ دے دیا اور وہ جیت بھی گیا ، تب بھی آپ کی شکست ہے کیوں کہ اب تمام فیصلوں اور نامنصفانہ اقدام میں عنداللہ آپ شریک سمجھے جائیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×