کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات پر محبوبہ مفتی نے لکھا چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ کو خط
کشمیر: 31؍دسمبر (عصرحاضر) جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی نے ہفتہ کے روز چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ ملک میں بنیادی حقوق اب سبھی کے لیے میسر نہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جو سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملوں میں حکومت کے رخ کو مانتے ہیں۔
https://twitter.com/MehboobaMufti/status/1609066549310279680
چیف جسٹس کو لکھے خط میں وہ کہتی ہیں کہ 2019 میں دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اور علیحدگی کا جذبہ مزید بڑھ گیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑی کو لکھے گئے خط کو محبوبہ مفتی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر پوسٹ کیا ہے اور گہری فکر کا اظہار بھی کیا ہے۔ پوسٹ خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’میں آپ کو ملک اور خصوصاً جموں و کشمیر کے موجودہ حالات کے بارے میں گہری فکر کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔ جمہوریت میں عام معاملوں میں ضمانت دینے میں نچلی عدالت کی صلاحیت پر آپ کے حال کے تبصروں کو اخبارات میں صرف ایک کالم کی خبر کی شکل میں جگہ ملنے کی جگہ ایک ہدایت کی شکل میں اختیار کیا جانا چاہیے تھا۔‘‘ پی ڈی پی سربراہ کا کہنا ہے کہ ہندوستانی آئین میں موجود اور سبھی ہندوستانی شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق کی برسرعام خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے یہ بنیادی حقوق اب سبھی کے لیے میسر نہیں۔ یہ حقوق ان چنندہ شہریوں کو دیے جاتے ہیں جو سیاسی، سماجی و مذہبی معاملوں پر حکومت کے رخ پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ محبوبہ مفتی نے الزام عائد کیا کہ 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر کے ہر باشندہ کے بنیادی حقوق کو منمانے ڈھنگ سے معطل کر دیا گیا ہے اور انضمام کے وقت دی گئی آئینی گارنٹی کو اچانک اور غیر آئینی شکل سے منسوخ کر دیا گیا۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ سینکڑوں نوجوان مرکز کے زیر انتظام خطہ کے باہر کی جیلوں میں زیر غور قیدیوں کی شکل میں بند ہیں اور ان کی حالت خراب ہے، کیونکہ وہ غریب کنبوں سے ہیں جن کے پاس قانونی امداد حاصل کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔ محبوبہ کہتی ہیں کہ ’’یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اعتماد کی کمی اور علیحدگی کا جذبہ 2019 کے بعد سے مزید بڑھا ہے۔ صحافیوں کو جیل بھیجا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ انھیں ملک سے باہر جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’تاریکی والے حالات میں امید کی واحد شمع عدلیہ ہے، جو ان غلطیوں کو ٹھیک کر سکتی ہے۔‘‘ اپنے خط میں محبوبہ مفتی نے عدلیہ سے متعلق اپنے مایوس کن تجربات کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ ہمارے تجربات نے اعتماد کے جذبات بہت زیادہ بھرنے کا کام نہیں کیا ہے۔‘‘ وہ لکھتی ہیں کہ ’’محبوبہ نے کہا کہ 2019 میں پی ایس اے (پبلک سیکورٹی ایکٹ) کے تحت حراست میں لیے جانے کے بعد ان کی رہائی کا حکم دینے میں سپریم کورٹ کو ایک سال سے زیادہ وقت لگا۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ’’حالانکہ چیف جسٹس کی مداخلت سے انصاف دیا گیا ہے اور جموں و کشمیر کے لوگ وقار، حقوق انسانی، آئینی گارنٹی اور جمہوری نظام کی اپنی امیدوں کی طرف دیکھتے ہیں جس نے ان کے آبا و اجداد کو مہاتما گاندھی کے ہندوستان میں شامل ہونے کے لیے ترغیب دی تھی۔‘‘