چند دن محدثین وفقہاء کی بارگاہ میں! (۲)

امام بخاریؒ کے قدموں میں!
۱۱؍ مارچ کو ہم لوگ صبح ساڑھے سات بجے تاشقند سے روانہ ہوئے، اب ہماری منزل سمرقند تھی،سمرقند پہنچے سے کچھ پہلے وہ مشہور جگہ ہے، جس کا ذکر خرتنگ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے، اب یہ سمرقندکا حصہ بن چکا ہے، امام بخاریؒ جب اہل بخاریٰ کی ناقدری کی وجہ سے بخاریٰ سے نکلے تو سمرقند کی طرف بڑھے، اور خرتنگ کے مقام پر ان کی وفات ہوگئی، یہیں امام بخاریؒ کی قبر ہے۔
یہ بھی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک ناخوشگوار واقعہ ہے کہ بہت سے اہل علم کی نہ صرف یہ کہ قدرومنزلت نہیں گئی؛ بلکہ ان کے ساتھ بد سلوکی روا رکھی گئی، امام بخاری بھی انہیں لوگوں میں تھے، یہاں تک کہ ان کو اپنے شہر میں قبر کے لئے دو گز زمین بھی نہیں مل پائی، یہ علماء اسلام کی استقامت کی ایک مثال بھی ہے کہ انھوں نے حکومت کے عتاب کا شکار ہونا تو گوارہ کیا اور ابتلاؤں اور آزمائشوں کی راہ میں آبلہ پائی کو قبول کر لیا؛ لیکن دین ِحق کی تشریح واشاعت میں ادنیٰ درجہ کی بھی مداہنت گوارا نہیں فرمائی، اور حکومت ِوقت کے سامنے سر نہ جھکایا، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی بے پناہ رحمتیں نازل فرمائے، اور ہرد ور کے اہل علم کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عزیمت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق میسر ہو، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امام بخاریؒ نسبی اعتبار سے نہ عرب تھے اور نہ ہاشمی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے حدیث کی ایسی خدمت لی کہ تمام عرب وعجم کی گردنیں ان کے سامنے خم ہیں، یہ اسلام کی آفاقیت اور اعجازی شان ہے کہ :
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
 امام بخاری کی قبر پر ایک بہت ہی خوبصورت اور عالیشان عمارت بنی ہوئی ہے، جو مرجعِ خلائق ہے؛ لیکن یہاں کے دوسرے مقبروں کی طرح یہاں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی کہ لوگ قبر پر آتے ہیں، فاتحہ پڑھتے ہیں، اور واپس چلے جاتے ہیں، قبرپر سجدہ کرنے ،مرادیں مانگنے کا یا اپنی مرادوں کی پرچیاں باندھنے کا اس طرح کا رواج نہیں ہے، جو بر صغیر میں ہے، ہم لوگ مزار کے حجرے کے اندر کچھ دیر بیٹھے، مولانا محمد ارشد فلاحی ،مولانا محمدارشد کھروڑ اور مولانا عبدالقیوم تاشقندی — سلمہم اللہ تعالیٰ — بھی موجود تھے، ان حضرات نے خواہش کی کہ صحیح بخاری کی چند احادیث پڑھ کر اِن حضرات کو خود امام بخاریؒ کی قبر کے پاس حدیث کی اجازت دی جائے؛ چنانچہ مولانا ارشد فلاحی نے بخاری کی ابتدائی حدیث پڑھی ،مولانا ارشد کھروڑ اور مولانا عبدالقیوم نے آخری حدیث اور اس حقیر نے اول وآخر دونوں حدیثیں پڑھیں اور اِن حضرات کو اجازت دی، بالخصوص میری وہ سندیں جو حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ اور حضرت مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کے واسطہ سے ہیں، اور جن میں اس حقیر کے اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، کی اجازت دی گئی، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کچھ سورتوں کی تلاوت کر کے امام بخاریؒ کے لئے دعاء کی گئی، امام صاحبؒ کی ممنونیت کا احساس دل پر چھایا رہا، اور غیر معمولی مسرت ہوئی کہ بخاری شریف ہم لوگوں نے پڑھی ، اللہ نے پڑھانے کی بھی توفیق عطا فرمائی؛ لیکن آج خود امام بخاریؒ کے قدموں میں پہنچنے کی سعادت حاصل ہوئی، امام بخاریؒ کی قبر کا احاطہ بہت وسیع ہے،حکومت نے سیاحتی نقطۂ نظر سے پورے احاطہ کی اور اس کی عمارتوں کی بہت تزئین کی ہے؛ اس لئے یہ شکوہ اور فنی نزاکت کا حسین امتزاج ہے۔
 یہاں ’’المعہد العالی لدراسات الحدیث النبوی امام بخاری‘‘ کی عمارت بھی حکومت نے بنائی ہے، حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ہے، وہاں بھی جانا ہوا، معہد عالی میں یہ چھٹی کا وقت تھا؛ لیکن اساتذہ کو جب اطلاع ملی تو انھوں نے پرتپاک استقبال کیا، ابھی طلبہ کی تعداد محدود ہے، صرف بارہ طلبہ رہتے ہیں، طلبہ بھی بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ملے، یہ معہد یہاں کے تین معاہد میں سے ایک ہے، اور حکومت کے زیر انتظام ہے، یہاں مولانا عبدالقیوم نے راقم الحروف کی کچھ کتابیں لائبریری میں جمع کرائیں، ادارہ کا نصاب بھی دیکھا، نصاب اچھا ہے، میں نے مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ کی بعض کتابوں کا مشورہ دیا، معلوم ہوا کہ یہ پہلے سے شاملِ نصاب ہیں، حدیث کے علاوہ دوسرے علوم کی کچھ کتابیں بھی نصاب کا حصہ ہیں، اس نصاب کی ترتیب میں حکومت نے مختلف اہل علم کو دعوت دی تھی، جن میں عالم عرب سے شیخ یوسف القرضاوی کے علاوہ ہندوستان سے حضرت مولانا محمد نعمت اللہ اعظمی (صدر شعبہ حدیث دارالعلوم دیوبند) اور پاکستان سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی بھی شامل تھے۔
 اس احاطہ میں قرآن مجید کا میوزیم بھی ہے، جس میں دنیا بھر سے قرآن مجید کے نسخے جمع کئے گئے ہیں، یہ اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ جہاں لوگوں کو گھر میں قرآن رکھنے کی بھی ممانعت تھی ،جن لوگوں کے پاس قرآن مجید تھا ، وہ اس کے ایک ایک ورق کو تبرک کے طور پر چُھپا کر رکھا کرتے تھے ،اور اگر برصغیر سے کوئی صاحبِ علم یا دیندار شخص پہنچتا تو ان سے کہتے تھے کہ آپ مجھے کوئی اور چیز نہ دیجئے، صرف قرآن مجید کا کوئی ورق ہو تو دے دیجئے، آج وہاں ماشاء اللہ قرآن مجید کے نسخوں کا میوزیم بنا ہوا ہے، لوگ آتے ہیں اور قرآن مجید کے مختلف نسخوں کی زیارت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ مستقبل میں اس سرزمین کا رشتہ ہمیشہ قرآن سے قائم رکھے اور اُس کو اس کی عظمت رفتہ واپس مل جائے۔
یہیں ایک صاحب کے یہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا، انھوں نے بڑی محبت کے ساتھ ہمارے پورے قافلہ کے لئے پُر تکلف کھانے کا انتظام کیا تھا، عصر کی نماز پڑھ کر ان کے یہاں سے ہم لوگ حضرت قُثَم ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کے لئے گئے، یہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، بہت بچپن میں ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے زمانہ خلافت میں مدینہ کا گورنر بنا دیا تھا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ اِس طرف آگئے ، یہیں ان کی شہادت ہوئی، شاید اسی لئے ان کو یہاں’’ شاہ زندہ‘‘ کہا جاتا ہے، اہل سیر نے لکھا ہے کہ شکل وصورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہ تھے، یہ قبر بہت اونچائی پر ہے، کافی سیڑھیاں چڑھ کر قبر تک پہنچنا ہوتا ہے، ہمارے دونوں احباب نے تو ہمت کی اور وہاں تک پہنچے؛ لیکن مجھے اونچائی کی وجہ سے ہمت نہیں ہوئی، میں نے نیچے ہی سے فاتحہ پڑھ لیا، ان حضرات نے بھی واپسی کے بعد بتایا کہ آپ کا ارادہ نہ کرنا ہی بہتر ہوا، بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام کی تعلیم واشاعت کے لئے صحابہؓ  کہاں کہاں پہنچے؟ جب کہ اُس وقت موجودہ دور کے وسائل نہیں تھے، پھر بھی انھوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی جدوجہد کی کہ پوری دنیا تک اسلام کی روشنی پہنچا دی۔
سمرقند میں ایک دن:
سمر کے معنیٰ ازبکی زبان میں قلعہ کے اور قند کے معنیٰ زمین اور شہر کے ہیں؛ چوں کہ اس شہر میں کثرت سے قلعہ نما عمارتیں بنائی گئی ہیں، غالباََ اسی لئے اس کو سمرقند کا نام دیا گیا، کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ ’’ گھرک کند‘‘ تھا، جس کے معنیٰ ’’نیلے شہر ‘‘کے ہیں، شاید اسی لئے یہاں کثرت سے نیلے گنبد مختلف تعمیرات کا حصہ ہیں،مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی اس شہر کے حسن وجمال کی تعریف کی ہے، یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہے، یونیسکو کے ریکارڈ کے مطابق یہ 2750 سال قدیم شہر ہے، جس کا قدیم نام ’’ اسمارا‘‘ تھا، قتیبہ بن مسلم باہلی نے ۸۷ھ مطابق ۷۰۵ء میں اس شہر کو فتح کیا، پھر اس کا قبضہ ہاتھ سے نکل گیا تو دوبارہ سن ۹۲ھ میں فتح کیا، اس شہر کے لوگوں کے دامن اسلام میں آنے کی تاریخ بہت دلچسپ بھی ہے سرمایۂ عبرت بھی، جب قتیبہ نے اس شہر کو فتح کیا تو یہاں عیسائیت کا بول بالا تھا، جو شہر کا سب سے بڑا کاہن تھا، اس نے قاضی شہر کے پاس قتیبہ کے خلاف دعویٰ دائر کیا کہ اس کی فوج نے شہر کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے؛ لیکن نہ ہمیں اسلام کی دعوت دی گئی اور نہ ہمیں غور کرنے کی مہلت دی گئی، قاضی نے جب قتیبہ سے جواب طلب کیا تو انھوں نے کہا کہ جنگ تو چالبازی کا نام ہے، یہ تو بڑا شہر ہے، اس کے قرب وجوار میں جو شہر ہیں، وہ مقابلہ ہی پر اڑے رہے، نہ مسلمان ہونا قبول کیا، اور نہ جزیہ دینا؛ اس لئے مجھے ان کے اسلام قبول کرنے کی امید نہیں تھی، قاضی نے پوچھا: کیا تم نے ان کو اسلام یا جزیہ کی دعوت دی تھی؟ قتیبہ نے کہا: نہیں، قاضی صاحب نے کہا، پھر تو تم نے مدعی کے دعویٰ کا اقرار کر لیا، قاضی نے قتیبہ سے کہا: اللہ نے اس امت کی انصاف قائم کرنے اور دھوکہ سے بچنے کی وجہ سے مدد کی ہے: ما نصر اللہ ھذہ الامۃ إلا للدین  وإقامۃالعدل ؛ چنانچہ مدعی کے حق میں فیصلہ ہوا کہ تمام مسلمان چاہے وہ سرکاری افسر ہوں یا فوجی، مرد ہوں، عورتیں ہوں یا بچے، سب کے سب شہر خالی کر دیں، دوکانات ومکانات کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں، اور سمرقند میں کوئی مسلمان نہ رہے، کاہنوں کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی؛ مگر اس کا اعلان کر دیا گیا اور رات ہونے سے پہلے پہلے سارے لوگ شہر سے باہر نکل گئے، سورج ڈوبنے کے بعد سمرقند کے ویران راستوں پر کتے بھونکنے لگے، اور مسلمانوں جیسی رحم دل قوم کے شہر سے چلے جانے پر لوگوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ہر گھر سے آہ وبکا کی آوازیں آنے لگیں، یہاں تک کہ کاہنوں کا گروہ بھی اس کو گوارہ نہ کر سکا، اور سمرقند کے لوگ فوج در فوج اس حال میں مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی کی طرف بڑھے کہ بڑا کاہن آگے آگے تھا اور لوگوں کا جم غفیر پیچھے پیچھے، سب کی زبانوں پر کلمۂ شہادت تھا، شاید ہی تاریخ میں ایسی مثال ملے کہ فاتح کے اخلاق سے متأثر ہو کر مقدمہ اپنے حق میں فیصل ہونے کے باوجود ایک پوری قوم نے فاتح گروہ کا مذہب قبول کر لیا ہو، افسوس کہ مسلمان فاتحین نے اس بات پر کم توجہ دی کہ زمینیں تو فولادی تلوار سے فتح کی جاتی ہیں؛ لیکن دل ودماغ اخلاق کی تلوار سے فتح کئے جاتے ہیں۔
یوں تو سمرقند اپنے موسم اور قدرتی حُسن کی وجہ سے ہمیشہ ہی حکمرانوں کا مرکز توجہ رہا ہے؛ لیکن جب تیمور نے اس شہر کو اپنی وسیع وعریض سلطنت کا دارالخلافہ بنا دیا تو اس کے بعد اس کی رونق کو چار چاند لگ گئے، پُر شکوہ خوبصورت تعمیرات بھی ہوئیں، تیمور نے دور دور سے صنعت کاروں اور فنی ماہرین کو بھی یہاں لا کر بسایا، ان کی مدد سے بہترین عمارتیں بھی بنائی گئیں اور قالین سازی اور بعض دوسری صنعتوں کو بھی یہاں فروغ ہوا، ہندوستان کے مغل فاتح بابر کی پیدائش تو فرغانہ میں ہوئی؛ لیکن ایک درجہ میں اس کا تعلق بھی سمرقند سے تھا، اس کا نسب باپ کی طرف سے تیمور سے اور ماں کی طرف سے چنگیز خاں سے ملتا تھا، وہ افغانستان سے گذر کر درۂ خیبر کی طرف سے ہندوستان پہنچا، اور یہاں ایسی مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی جو تقریباََ چار سو سال قائم رہی۔
  سمرقند میں بہت سے اہل علم گذرے ہیں، ان میں ایک ممتاز نام علامہ ابو بکر سمرقندیؒ کا بھی ہے، جن کی کتاب ’’ تحفۃ الفقہاء‘‘ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہے؛ لیکن اُن کی قبر یہاں نہیں ہے، علم کلام کے ایک بڑے امام ابوالمنصور ما تریدیؒ (م: ۳۳۳ھ)ہیں، عام طور پر حنفیہ کے یہاں اعتقادات میں ان ہی کی اتباع کی جاتی ہے اور معتزلہ اور اشاعرہ کے درمیان ان کی رائے کو ایک معتدل رائے سمجھا جاتا ہے، ان کی نسبت سمرقند کے محلہ ’’ ماترید‘‘ کی طرف ہے، ’’ماٰخذ الشرع، تاویلات اہل السنہ اور شرح فقہ اکبر‘‘ ان کی مشہور تالیفات ہیں، ان کی قبر یہیں واقع ہے، ہم لوگ وہاں پہنچے، ان کامقبرہ بہت ہی خوبصورت ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کے گنبد کے اندرونی حصے میں سونے کے کام میں بیس پچیس کلو سونا استعمال کیا گیا تھا؛ لیکن روسیوں نے ان سب کو کھرچ کر نکال لیا، ابھی بھی چار پانچ کیلو سونا گنبد کی اندرونی سطح میں موجود ہے، اور نظر بھی آتا ہے، یہاں بھی فاتحہ پڑھنے کی توفیق ہوئی اور دعاء کا اہتمام کیا گیا۔
 اس کے بازو میں ایک قبرستان ہے ،جو ’’قبرستانِ محمد ین‘‘ کہلاتا ہے، اس قبرستان میں ان لوگوں کو دفن کیا جاتا تھا، جو تفسیر وحدیث اورفقہ وکلام میں نمایاں مقام رکھتے تھے، اور ان کا نام’’ محمد‘‘ تھا، کہا جاتا ہے کہ تقریباََ چار سو ایسے اہل علم اس قبرستان میں مدفون ہیں؛ البتہ قبریں نمایاں نہیں ہیں اور نہ صاحب قبر کی شناخت موجود ہے، یہاں بھی حاضری اور ایصال ثواب کا موقع ملا،اس قبرستان سے باہر تھوڑے ہی فاصلے پر صاحب ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانیؒ (م: ۵۹۳ھ)کی قبر ہے، علامہ مرغینانیؒ کا نام چوں کہ محمد نہیں تھا؛ اس لئے اس قبرستان میں ان کو جگہ نہیں ملی؛ لیکن اس قبرستان کے باہر قریب ہی میں دفن کئے گئے، احاطہ سے باہر کہاں دفن کئے گئے؟ اس کی نشان دہی متعین طور پر موجود نہیں ہے؛ مگر تخمینہ کے طور پر ان سے منسوب ایک رمزی  قبر بنا دی گئی ہے، بہر حال ایصال ثواب کے لئے خاص قبر کے پاس ہی کھڑا ہونا تو ضروری نہیں ؛ چنانچہ ہم لوگوں نے وہیں سے دعاء اور ایصال ثواب کا اہتمام کیا۔
’’سمرقند‘‘  کا لفظ آتے ہی ایک اہم نام امام ابواللیث نصر بن محمدسمرقندیؒ(م: ۳۷۳ھ) کا ذہن میں آتا ہے، ان کا شمار بڑے فقہاء میں ہے، فقہائے احناف میں ان کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے، مسائل میں ان کی ترجیحات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، جدید اجتہادات پر ان کی مشہور کتاب ’’ نوازل ابواللیث سمرقندی‘‘ ہے، ان کی تفسیر ’’ تفسیر السمرقندی‘‘ بھی ایک بلند پایہ تفسیر شمار کی گئی ہے ، یہ بھی سمرقند ہی میں مدفون ہیں، یہاں بھی ہم لوگوں کو پہنچنے کی سعادت حاصل ہوئی، اور فاتحہ پڑھنے کا موقع ملا، ان کے مزار کا احاطہ بہت بڑا ہے، اور حکومت نے اس کو بہت ہی خوبصورت بنایا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، یہیں ایک اور بزرگ خواجہ ناصر الدین عبیداللہ احرارؒ (م: ۸۹۵ھ) کی قبر بھی ہے، جو اپنے زمانہ کے بڑے نقشبندی بزرگ تھے، ملا عبدالرحمن جامیؒ بھی آپ کے خلفاء میں ہیں، یہاں بھی حاضری کا موقع ملا، حسب معمول دعاء کی گئی، مغرب کا وقت ہو چکا تھا اور ہم لوگوں کو معروف محدث علامہ دارمیؒ کی قبر پر بھی جانا تھا؛ اس لئے وہاں سے جلد روانہ ہونا پڑا، راستے میں ’’مسجد لائق‘‘  کے نام سے ایک مسجد ملی، مغرب کی نماز یہاں ادا کی گئی، ہمارے میزبان نے اس مقام کے کسی ذمہ دار شخص سے ہم لوگوں کی آمد کا ذکر کر دیا تھا، وہ سارے لوگ انتظار میں چشم براہ تھے؛ حالاں کہ مغرب کا وقت شروع ہوئے کچھ دیر ہو گئی تھی؛ لیکن انھوں نے انتظار کیا اور جب ہم لوگ پہنچے تو نماز ہوئی ،نماز کے بعد تمام حاضرین نے مصافحہ کیا اور خواہش کی کہ دعاء کرائی جائے؛ چنانچہ اس حقیر نے دعاء کرائی، حاضرین بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ کچھ اس طرح پیش آئے، گویا برسوں کی ملاقات ہو ،اللہ تعالیٰ ان حضرات کو بہترین اجر عطا فرمائے۔
اس سے کچھ فاصلے پر مشہور محدث علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن دارمیؒ (م: ۲۵۵ھ) کی قبر ہے، یہ علاقہ دیہات کا ہے، رات کا اندھیرا اچھا خاصا ہو چکا تھا،ہم لوگ وہاں پہنچے، اور گاڑی کی روشنی جلا کر قبر کے قریب آئے، فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھے، علامہ دارمیؒ کا علم حدیث میں بڑا اونچا مقام ہے، امام مسلم، ترمذی اور ابو داؤد وغیرہ نے ان سے حدیث لی ہے، اور بعض لوگوں نے ان کی ’’ سنن‘‘ (فقہی ترتیب پر حدیث کا مجموعہ) کوصحاح ستہ میں شامل کیا ہے؛ اس لئے یہاں آمد سے بڑی روحانی مسرت حاصل ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ سمرقند خوبصورت عمارتوں کا ایک حسین گلدستہ ہے، اور ہر عمارت اپنی جگہ فن تعمیر کا شاہکار ہے؛ چوں کہ امیر تیمور نے یہاں تعمیری کام ایرانی ماہرین سے کرایا تھا؛ اس لئے ڈیزائن کے اعتبار سے جیسے بر صغیر میں دہلی، آگرہ اور لاہور کی مغلیہ عمارتوں کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے، اسی طرح یہاں کی عمارتیں بھی کثرت میں وحدت کا منظر پیش کرتی ہیں، یوں تو سمرقند میں بہت سی عالی شان مسجدیں ہین اور ہر مسجد ایسی ہے کہ ’’دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست‘‘ لیکن ’’مسجد بی بی خانم‘‘ کو اپنی وسعت،طرز تعمیر اور خوبصورتی کے اعتبار سے نمایاں حیثیت حاصل ہے، یہ امیر تیمور کی سب سے بڑی بیوی ’’بی بی خانم‘‘ سے منسوب ہے، اس کے سامنے امیر تیمور کا بی بی خانم کے لئے بنوایا ہوا محل بھی ہے، یہ عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، الفاظ میں اس کا نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا ۔(جاری)
Exit mobile version