جلیل القدر صحابی ابوذر غفاریؓ

مفتی عبدالمنعم فاروقی

اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ ﷺ میں حضرات صحابۂ کرام ؓ کو سب سے بلند ترین اور افضل ترین مقام عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خود انہیںنبی کریم ﷺ کی صحبت اور دین اسلام کے لئے بطور مددگار کے قبول فرمایا ، گویا حضرات صحابہؓ انتخاب ِ خداوندی ہیں چنانچہ اس کی تائید وتو ثیق نبی کریمﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے ـ : ان اللہ اختارنی واختارلی أصحابی ( تفسیر قرطبی،سورۂ فتح ) اللہ تعالیٰ نے جب میرا انتخاب فرمایا تو میرے لئے میرے صحابہؓ کا بھی انتخاب فرمایا۔ صحابیٔ رسول حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ:اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمدﷺ کو پسند فرمایا اور انہیں اپنا رسول بناکر بھیجا اور انکو اپنا علمِ خاص عطا فرمایا ،پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ ﷺ کیلئے صحابہؓ کو چُنا اور ان کو اپنے دین اور اپنے نبی کا مددگار بنایا ،لہذا جس چیز کو وہ(یعنی صحابہؓ) اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو وہ بُرا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے نزدیک بھی بُری ہوگی(حیا ت الصحابہؓ بحوالہ ابو نعیم فی الحیلۃ ۱؍۱۳۵)۔حضرات ِ صحابۂ کرام ؓ امت میں ایک خاص درجہ رکھنے والے ہیں ،ان کے ایمان کی پختگی ،عبادات کی کثرت،جان ومال کا خرچ ، دین کی سربلندی کی فکر اور اپنے حبیبﷺ سے محبت ،وابستگی اور وارفتگی مثالی تھی،ان حضرات کانمایا ں وصف تھا دنیا سے بے تعلقی اور آخرت کے بارے میں فکر مند رہنا۔ ایک موقع پر حضرت ابن مسعودؓ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان حضرات کے اسی نمایا ں وصف کو بیان فرمایا کہ:تم لوگ نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ سے زیادہ روزہ رکھتے ہو اور زیادہ نمازیں پڑھتے ہو اور زیادہ محنت کرتے ہو مگر وہ تم سے زیادہ بہتر تھے ،حاضرین نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن (یہ آپ ؓ کی کنیت تھی) وہ ہم سے کیوں بہتر ہیں ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا اس لئے کہ وہ تم سے زیادہ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے تم سے زیادہ مشتاق تھے(حیات الصحابہؓ بحوالہ ابونعیم فی الحیلۃ ۱؍ ۱۳۶)۔اسی مقدس ترین جماعت اور انہی محترم اشخاص میں ایک مبارک نام جسے آگے چل کر تاریخ نے شیخ الامت کے لقب سے نوازا ’’حضرت ابوذر غفاریؓ ‘‘ ہے،آپ ؓ کا اصل نام جندب بن جنادہ ہے اور کنیت ابوذر، لیکن آپؓ کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہوئے ،قبیلہ کا نام ’’غفار ‘‘ ہے جو مکۂ مکرمہ سے ملک شام جاتے وقت راستے میں پڑتا ہے ، حضرت ابوذر غفاریؓ کا شمار اکابر صحابہ میں ہوتا ہے ، حق گوئی ،راست بازی، علم وفضل ،زہد اورتقویٰ وورع کی وجہ سے تمام صحابہ آپکا بے حد احترام کیا کرتے تھے ، آپ ؓ کے کمال علم کو دیکھ کر حضرت علیٰ ؓ آپؓ کو علم کا خزانہ کہا کرتے تھے، حضرت ابوذر غفاریؓ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں ابتدائی زمانہ میں اسلام لانے کا شرف حاصل ہوا غالباً اس وقت مسلمانوں کی تعداد پانچ یا چھ کے آس پاس رہی ہوگی،آپ ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بخاری ومسلم میں کچھ اس طرح ہے کہ: حضرت ابوذر ؓ کو نبی کریم ﷺ کی بعثت کی اطلاع ملی تو انہوں نے تحقیق کے لئے اپنے بھائی حضرت اُنیسؓ کو مکہ بھیجا ،حضرت اُنیس ؓ اپنے بھائی کی ہدایت کے مطابق مکہ گئے اور واپس آکر ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ کے حالات وواقعات سے آگاہ کیا : رایتہ یامر بمکارم الاخلاق وکلاماماھو بالشعر(بخاری) انہیں میں نے صرف اچھے اور پاکیزہ اخلاق کا حکم کرتے ہوئے دیکھا اور ان سے ایک کلام سنا جسکو شعر سے کوئی تعلق نہیں۔ بھائی کی زبانی اتنا سننے کے بعد بھی حضرت ابوذرؓ کو مکمل اطمینان نہیں ہوا تو مختصر سامانِ سفر لے کر خود مکہ کیلئے روانہ ہوگئے ،مکہ پہنچ کر حرم کعبہ میں پہنچے اور نبی کریم ﷺ کی تلاش میں لگ گئے ،نہ خود پہچانتے تھے اور نہ ہی کسی سے دریافت کرنا مناسب سمجھا ،فرماتے ہیں کہ :فالتمس النبی ﷺ وکرہ(بخاری) دوسروں سے پوچھنا ناپسند تھا ،نبی ﷺ کو خود سے تلاش کرنے کی دل میں خواہش تھی چنانچہ اسی حال میں صبح سے شام ہوگئی ،ادھر سے حضرت علیؓ کا گذر ہوا تو دیکھاکہ ایک مسافر جو شکستہ حالت میں ہے ،آپ ؓ کو رحم آگیا ،قریب آکر پوچھا کہاں کے ہو ؟حضرت ابوذرؓ نے کہا قبیلہ ٔ غفار کا ہوں۔آپؓ انہیں اپنے گھر لے گئے ،انکی ضیافت فرمائی اور یہیں آرام کرنے دیا مگر ان دونوں کی کچھ گفتگو نہ ہوسکی ،صبح ہوئی تو پھر حضرت ابوذرؓ حرم کعبہ پہنچے اور تمنّا ئے دیدار نبی اکرم ﷺ اور ملاقات رحمت عالم ﷺ میں پورا دن گذار دیا ،دوسری شام پھر حضرت علیؓ کا ادھر سے گذر ہوا دیکھا کہ وہی مسافر موجود ہے ،یہی خیال کرتے ہوئے کہ مسافر ہے شائد ابھی تک منزل کا پتہ نہ ملا ہوگا ،اپنے گھر لے گئے اور طعام کے بعد یہیں قیام کی سہولت فراہم کی ،اس رات بھی دونوں میں بات چیت نہ ہوسکی ،تیسری شام جب حضرت علیؓ نے آپ ؓ کو پھر سے حرم کعبہ میں دیکھا تو پھر اس اجنبی مہمان کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دی اور چلتے ہوئے حضرت علیؓ نے یہاں آنے کی وجہ دریافت کی ،اس پر حضرت ابوذر ؓ نے حضرت علیؓ سے وعدہ ٔ اِخفا لے کر اپنے آنے کی غرض بیان کی تو حضرت علیؓ نے فرمایا وہ با لکل برحق نبی ہیں ، صبح ضرور آپ ﷺ سے میں تمہاری ملاقات کرواؤں گا اور یہ بات یاد رکھیں اگر راستے میں کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو پیشاب کے بہانے رک جاؤں گا مگر آپ چلتے رہنا کہ کسی کو معلوم نہ ہونے پائے کہ آپ میرے ساتھ ہیں،پھر حسب وعدہ انہیں لے کر آپ ﷺ کے دربار اقدس میں حاضر ہوئے حضرت ابوذر ؓ اسی وقت مسلمان ہوگئے ۔آپ ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے فرما یا کہ تم اس وقت اپنے گھر چلے جاؤ اور وہاں دین کی دعوت کا کام انجام دیتے رہو پھر جب اسلام کے غلبہ کا علم ہوجائے تو پھر واپس آنا ،مگر حضرت ابوذرؓ کہاں خاموش رہنے والے تھے سیدھے حرم کعبہ میں داخل ہوئے اور مجمع کے بیچ میں کھڑے ہوکر بہ آواز بلند کہا :اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً رسول اللہمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں قریش مکہ یہ سنتے ہی حضرت ابوذرؓ پر ٹوٹ پڑے اور دل کھول کر مارآپکی پٹائی کی مگر موحد ِ صادق حضرت ابوذرؓ کی زبان پر بدستور کلمۂ شہادت جاری تھا ، حسن اتفاق ادھر سے حضرت عباسؓ کا گذر ہوا تو آئے اور قریش سے فرمایا کہ یہ قبیلۂ غفار کا آدمی ہے جدھر سے تمہارے شامی تاجروں کا راستہ ہے ،تب جاکر لوگوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ،دوسرے دن پھر حضرت ابوذرؓ حرم کعبہ میں پہنچے اور ایک بار پھر نعرۂ کلمۂ تو حید بلند کیا اور آج بھی وہی سب کچھ ہوا جو کل ہوا تھا (بخاری) ۔حضرت ابوذر غفاریؓ نبی اکرم ﷺ کے ارشاد عالی کی تعمیل ،اور دین کی اشاعت کے اہم فریضہ کی انجام دہی کیلئے مکہ سے رخصت ہوئے اور اپنے بھائی حضرت اُنیسؓ کو ساتھ لے کر دعوت حق کی تبلیغ کرتے رہے، تقریباً ۵ ؁ھ میں قبیلہ ٔ غفار واسلم کے لوگوں کو ساتھ لے کر دربار سالت مآب ﷺ میں پہنچ کر دیدارِ رُخ انورﷺ سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کیا ،حضرت ابوذر غفاریؓ کو خادم رسول ﷺ ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ،آپؓ اپنے محبوب ﷺ سے دیوانۂ وار محبت فرمایا کرتے تھے آپ ؓ کی محبت اور وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ جب کبھی حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو یوں ارشاد فرماتے :اوصانی حبیبی بثلاث بصلوٰۃ الضحیٰ والوتر قبل النوم والصیام ثلثۃ ایام من کل شھر(مسنداحمد) میرے محبوب ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے (۱) نماز چاشت (۲) سونے سے قبل وتر کی ادائیگی (۳) اور ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا۔حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مرتبہ بیت المقدس کی کسی مسجد میں ایک حدیث بیان کررہے تھے راوی احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ عاشق رسول حضرت ابوذر غفاریؓ صرف اتنا کہتے کہ مجھے میرے محبوب ابوالقاسمﷺ نے خبر دی پھرچیخ مارتے ،پھر یہی کہتے مجھے میرے محبوب ابوالقاسم ﷺ نے خبر دی اور چیخ مارتے حتی کہ چوتھی بار ضبط کرکے آپ ؓ پوری حدیث بیان فرماتے ۔حضرت ابوذر غفاریؓ زاہدانہ شان رکھنے والے تھے دنیا اور سامان دنیا سے با لکل بے رغبت تھے ،دنیا کی محبت اپنے دل سے اس طرح نکال چکے تھے جس طرح کپڑے دھونے والا اپنے کپڑوں سے میل کچیل نکال دیتا ہے چنانچہ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کعبہ کی طرف جارہا تھا ،اور محبوبﷺ اس کی دیوار کے سایہ میں تشریف فرماتھے ،دور سے مجھے دیکھا جب میں قریب پہنچا تو فرمانے لگے :ھم الاخسرون ورب الکعبۃ ھم الاخسرون ورب الکعبۃ ، قسم ہے کعبہ کی وہی تباہ وبرباد ہیں قسم ہے کعبہ کی وہی تباہ وبرباد ہیں ۔حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں میں دوڑ کر قریب پہنچا اور پوچھا آپ پر میرے ماں باپ قربان وہ کون لوگ ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا :الا کثرون اموالا الا من قال ھٰکذا وھٰکذا وقیل ماھم،زیادہ مال ودولت جمع کرنے والے ،لیکن جس نے اس طرح اور اس طرح دیا وہ بہت تھوڑے ہیں۔حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا کہ غریبوں کو دینے اور ان پر خرچ کرنے والے کہ یہ تباہی وبربادی سے محفوظ رہیں گے۔حضرت ابوذر غفاریؓ کے مزاج پر سادگی غالب تھی، آپ کو شان وشوکت کی کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ آپ ؓ پر اکثر وبیشتر جذب واستغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی، اکثر سر وداڑ ھی کے بال بکھرے ہوئے رہتے تھے خود سے اس میں کبھی کنگھا نہیں فرماتے تھے ، جس قسم کا کپڑا ملتا پہن لیا کرتے حتی کہ کبھی کوئی کپڑا نہ ملتا تو کمبل ہی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے، عموماً بیٹھنے اور لیٹنے کے لئے ٹاٹ استعمال فرماتے تھے ،کسی نے عرض کیا کہ آپ نرم گدّہ کیوں نہیں بنوالیتے تو اس پر آپ ؓ ہاتھ اُٹھا کر فرمانے لگے :’’اے اللہ دنیا میں تو نے مجھے جو چیزیں اپنی مرضی سے عطا کی ہیں اس کے متعلق بھی مغفرت کا طلب گار ہوں‘‘ آپ ؓ کی زوجۂ محترمہ کبھی آپ سے فرمائش کرتیں تو گھر سے نکل جاتے اور مجمع عام سے فرماتے :تم لوگ اس کالی کلوٹی کو دیکھو ؟ مجھ سے کہتی ہے کہ عراق جاؤ اور جب میں جاؤں گا تو مسلمان میری طرف روپیے لے کر آئیں گے ،لیکن کیا کریں ہمارے دوست ﷺ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ پُل صراط کے قریب ایک راستہ ہے ،جس پر پاؤں پھسل جاتے ہیں اس پر ہلکا پھلکا چلوں ،یہی میرے لئے بہتر ہے ،بہ نسبت اس روپیے پیسوں کے جو بوجھ میں لاد کر اُسے عبور کروں(طبقات ابن سعد)۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے فرمایا تھا :رحم اللہ اباذر یمشی وحدہ ویموت وحدہ ویبعث وحدہ۔اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے ،بے چارہ اکیلا چلتا ہے ،اکیلا ہی مرے گا اور اکیلاہی اُٹھایا جائے گا، حضرت سیدنا عثمان ؓ کے زمانہ میں حضرت ابوذرؓ نے مدینہ ٔ منورہ سے مقام ربذہ جانے کی اجازت چاہی ،چونکہ مدینہ ٔ منورہ اسلامی دارالخلافہ تھا اس لئے ہر وقت یہاں لوگوں کا ہجوم رہتاتھا جس کی وجہ سے آپ کے معمولات میں حرج ہونے لگا تھا ،جب بھی آپ باہر نکلتے لوگ آپ کے پیچھے پیچھے ہوجایا کرتے تھے چنانچہ حضرت سیدنا عثمانؓ نے اجازت دیدی ، ربذہ پرسکون اور آپ کی طبیعت کے مناسب جگہ تھی اس لئے آپ یہاں سکون واطمینان سے رہنے لگے ، ۳۲ ھ ؁ذی الحجہ کے ابتدائی ایام تھے عرب وعجم کے بے شمار لوگ عزم حج لے کر ربذہ سے ہوتے ہوئے لبیک الھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔ کی صدائیں لگاتے ہوئے مکۂ مکرمہ جا رہے تھے ،حضرت ابوذرؓ کے دل میں بھی حج کی آر زو کروٹیں لے رہی تھی مگر بیماری اور نقاہت نے اجازت نہ دی ،ربذہ بھی خالی ہوچکاتھا اور یہاں سے گذرنے والے قافلوں کے جانے کا سلسلہ بھی بند ہوگیا تھا ، دن بدن بیماری بڑھتی چلی گئی حتی کہ جب وفات کا وقت قریب آ یا اور آپ کی بیوی صاحبہ ؓ نے علامات وقرائن سے محسوس کرلیا کہ اب وقت فرقت قریب ہے تو یہ سوچ کر ایک چیخ ماری جس پر حضرت ابوذر ؓ نے اسکا سبب پوچھا تو کہنے لگی ،لگتا ہے اب آپ کا وقت قریب آچکا ہے اور میں عورت ذات ہوں ،گھر میں ایک کپڑا بھی نہیں کس طرح تمہارے آخری سفر کا انتظام کروں ،یہ سن کر حضرت ابوذر ؓ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا : اللہ کی بندی مت رو ! ایک موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صحابہ کی جماعت کے ساتھ تھا ،اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں میں سے ایک شخص چٹیل سنسان وادی میں جان دے گا ،اس کے جنازے میں مسلمانوں کا ایک گروہ آکر شریک ہوگا اور میں اس دن سے اندازہ کر رہا ہوں کہ وہاں پر جتنے لوگ تھے ان میں سب کے سب کسی شہر یا آبادی میں وفات پا چکے اور اب صرف میں اکیلا رہ گیا ہوں جو اس وقت اس وادی میں بے کسی میں دم توڑ رہا ہوں ،تم راستہ پر جاکر بیٹھ جانا مسلمانوں کی جماعت ضرور آرہی ہوگی کیونکہ خدا کی قسم نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے ،بیوی صاحبہ راستہ پر کھڑی ہیں کچھ دیر بعد قافلہ آتا دکھائی دیا اور ان میں کے ایک شخص نے ایک عورت کو اس طرح سرِ راہ کھڑا دیکھ کر وجہ پوچھی تو جواب ملا اللہ کا ایک بندہ مرنے کو ہے اس کے پاس کفن نہیں ،خدا کیلئے اس کے کفن کا بھی سامان کرو اور دفن کابھی خدا کے یہاں اجر پاؤ گے ،مسافروں کی جماعت کے ایک شخص نے پوچھا وہ کون آدمی ہے؟ جواب ملا ابوذرؓ صحابی رسول ﷺ ،یہ سن کر سب کے ہوش اُڑ گئے قافلہ میں کہرام مچ گیا ،ادھر خیمہ میں حضرت ابوذر ؓ نے اپنی بیٹی سے فرمایا : بیٹی ایک بکری ذبح کر لو اور فوراً اس کے گوشت کو آگ پر چڑھادو گھر میں مہمان آرہے ہیں جب وہ مجھے دفن کرلیں تو تم ان سے کہنا کہ ابوذرنے آپ لوگوں کو خدا کی قسم دی ہے کہ جب تک کھانا نہ کھالیں اپنی سواریوں پر سوار نہ ہوں،پھر جب یہ قافلہ اس زاہد وعابد اور درویش خدا کے خیمہ پر پہنچا تو آپ ؓ نے کچھ الوداعی نصیحتیں فرمائیں منجملہ ان کے ایک یہ تھی کہ : تمہیں خوشخبری ہو ،تم لوگوں کے متعلق مجھ کو آپ ﷺ ایک مژدہ سناگئے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت تمہارے کفن دفن میں شریک ہوگی،پھر فرمایا میرے انتقال کے بعد مجھے نہلاکر کفن پہنا کر سڑک پر لے جانا اور دیکھتے رہنا ،سب سے پہلے سواروں کی جو جماعت گذرے ان سے کہنا یہ ابوذر صحابیِ رسول ﷺ ہے تم لوگ ان کے دفن میں ہماری مدد کرنا ،اور آخر میں مخاطب ہوکر کہا مجھے قبلہ رخ کردو اور بڑے ہی خلوص وسچائی میں ڈوب کر پڑھا بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ ﷺ اس آواز کے ساتھ ہی یہ زہد وقناعت کا امام ،عشق ومستی کا آفتاب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ،انا للہ وانا الیہ راجعون،چنانچہ وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ عام گذر گاہ پر لاکر رکھ دیا گیا ،ادھر کوفہ سے فقیہ الامت حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ عمرہ کا احرام باندھ کر اپنی جماعت کے ساتھ مکہ ٔ مکرمہ تشریف لے جارہے تھے یکایک آپ کی نظر جنازہ پر پڑی سواری سے اترے اور ساتھیوں کو اتر نے کا حکم دیا ،منتظر لوگوں نے بتایا کہ یہ صحابیِ رسول ﷺ حضرت ابوذرِ غفاریؓ ہیں ان کے دفن میں ہماری مدد کیجئے ، تویہ سن کر ابن مسعودؓ چیخ مار کر اونٹ سے اترے ، وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے میرے دوست ،میرے بھائی اخیر میں فرمایا : مبارک ہو تم کو رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کہ ابوذر اکیلا ہی چلتا ہے ،اکیلاہی مرے گا اورکیلاہی اُٹھے گا،پھر آپ ہی نے نمازہ جنازہ پڑھائی اور اپنے ہاتھوں سے دفن بھی آپ ہی نے کیا اس طرح یہ صدق وامانت کا پیکر اور زہد وورع کا امام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ع
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طنیت را(ایسے سچے اور پا کباز عاشقانِ رسول ﷺ پر اللہ کی رحمت ہو)
رضی اللہ عنھم ورضو اعنہ (اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے)
گُل جو چمن میں ہیں ہزار‘ دیکھو ظفرؔ! ہے کِیا بَہار
سب کا ہے رنگ الگ الگ ‘سب کی ہے بو‘ الگ الگ
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
(اگر تم اپنے ایمان وایقان کو ہمیشہ تازہ رکھنا چاہتے ہو تو اِن پرانی حکایات کو کبھی کبھی پڑھ لیا کرو!)

Exit mobile version