ووٹ ضرور ڈالیے اور ذمہ داری سمجھ کر ڈالیے!!

اکابر علماءِ امت کی قوم وملت سے اپیل اور ضروری گزارشات

از: مولانا سید خواجہ نصیر الدین قاسمی
استاذ ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
اس وقت ملک میں لوگ سبھا انتخابات مرحلہ وار انجام پا رہے ہیں ،اس میں باشندگانِ ہند اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکےارکانِ پارلیمنٹ کا انتخاب کریں گے ، یہ نہایت ہی اہم مرحلہ ہے کیوں کہ اس وقت حق رائے دہی سے اعراض یا اس کا غلط استعمال مرکز میں آئندہ پانچ سالوں کے لئے کسی ایسی حکمراں جماعت کو برسرِاقتدارلا نے کا سبب بنے گا جو باشندگان ِ ہند کے حق میں غیر نافع بل کہ مضرت رساں ثابت ہوگا۔آئین ِ ہند کے مطابق عو ام الناس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں اپنا حکمراں بنائیں اور اس کے زیر اقتدار ملک میں رہیں ، عوام کی اسی جمہوری طاقت وحق کے سبب حکمراں جماعتیںعوام کو اپنی حمایت میں لینے اور خود کو اقتدار کے قابل دکھانے کے لئے مختلف طور طریق اور ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں ۔سیاسی پارٹیوں اور قائدین میں کوئی اپنی سابقہ کارکردگی دکھا کر عوام کو راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی مدمقابل جماعت (اپوزشن) کی خامیاں اور ناقص کارکردگی دکھاکر پبلک کو اپنے فیور میں کرنے کے لئےایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے ، کوئی روپئے پیسے لُٹا کر، کوئی وعدے سنا سنا کر ،کوئی ہم وطنوں میں نفرتوں کی مسموم فضا بناکر ، کوئی سہولیات وتحفظات کے سبز باغ دکھا کر لوگوں کو لبھانے میں مصروف نظرآتا ہے۔
گزشتہ دہائیوں کی حکمرانیوں نے عوام کو یہ تجربہ دیا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اس قابل نہ رہی کہ اس پر بھرپور اعتماد کیا جائے اور زمامِ مملکت اُس کے حوالے کی جائے ،جب سے حکمراں جماعتوں کا طرز حکمرانی بدلا ہے ، عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہونچی ہے ، وہ ہر پنج سالہ میعاد میں حکمراں جماعت کو منتخب کرنے کے مرحلہ کے وقت شش وپنج میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ گذشتہ میعاد میں پُر امید ہو کرجس کو منتخب کیا تھا ، اُس نے اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ،اب دوبارہ اُسے منتخب کیا جائے یادوسرے کو موقع دیا جائے ؟اگر دوسرے کو موقع دیا جائے تب بھی رعایا مطمئن نہیں ہےکہ دوسری حکمراں جماعت اُن کی امیدوں کو بر لائے گی اور رعایا پروری کرے گی؛ بل کہ پہلی جماعت سے زیادہ بد سلوکی سے پیش آنے کا خطرہ اُنھیں لگا ہوا ہے ۔
نتیجۃً گذشتہ میعادوں میں یہ مشاہدہ ہوا کہ عوام رائے دہی سے گریز کر رہی ہے اور رائے دہی کی اہمیت اور اس کا تناسب گھٹتا جار ہا ہے ،لوگ یومِ رائے دہی کو چھٹی منا رہے ہیں ، رائے دہندوں کی اس روش نے رائے دہی کی لائق نئی نسل کو بھی اس سلسلے میں بالکل لاعلم اور بےپرواہ بنارکھا ہے ، ان کی نظر میں یہ کام کچھ زیادہ اہم نہیں ہے ، اور اس سے بالکل غافل ہیں کہ ان کے حق رائے دہی کے استعمال سے ملک کو اور خود ان کو کیا فائدہ ہوگا اور نہ استعمال کرنے سے کن نقصانات سے اُنھیں دو چار ہونا پڑے گا۔
اس لئے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن ، ریاستی حکومتیں ، سیاسی جماعتیں ،سبھی عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ووٹر آئی ڈی درست کرلیں اور حق رائے دہی کا ضرور استعمال کریں، باربار توجہ دہانی کرائی جارہی ہے ، بل کہ ملک کی بدلتی صورتِ حال ،گرتی اقدار ،ظلم واستبداد اور تانا شاہی کی راہ پر گامزن حکمرانیوں کے پیشِ نظر دردمندانِ قوم وملت اور مذہبی قائدین بہ یک زبان ہیںاور مسلسل شعور بیداری میں مصروف ہیں کہ ملک کا ہرباشعور و رائے دہی کے قابل شہری اپنے حق رائے دہی کا ضرور استعمال کرے ، اس سلسلے میں بالکل غفلت سے کام نہ لے ، کسی قسم کا کوئی بہانہ نہ بنائے ، اور رائے دہی کے دن اپناووٹ ضرور ڈالے ، ملک اور اس کے دستور کو تباہ وبرباد ہونے سے بچانے میں اپنافریضہ ادا کریں ۔
اسی ضمن میں چند اکابر علماء کےقوم وملت کے نام پیغامات پیش خدمت ہیں تاکہ لوگ ووٹ کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور حق ووٹ استعمال کرنے کا عملی اقدام کریں ۔
حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مدظلہ العالی ( مہتمم دارالعلوم دیوبند )
’’ ملک کے ذمہ دار حضرات سے ایک دردمندانہ گذارش کرنا چاہتا ہوں، آپ حضرات کو علم ہےکہ ملکی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے ، اور یہ الیکشن بہت ہی اہم ہے ،اس سلسلے میں ہماری قومی وملی ذمہ داری ہے ، اس ذمہ داری کو ہم محسوس کریں ،ہمارا ووٹ دینا دستوری حق ہے ،قومی اور ملی فریضہ ہے ،حب الوطنی کا تقاضا ہے ،ہماری شہریت کا ایک مضبوط ثبوت اور معتبر شناخت ہے ،اس لئے سب سے پہلا کام تو یہ ہےکہ ووٹر لسٹ کا جائزہ لے کر اپنے گھرانوں میں اپنے پاس پڑوس میں ، اپنے اہلِ تعلق میں ۱۸؍ سال کی عمر پوری کرنے والے جن نوجوانوں، بچوں اور بچیو ںکانام ووٹر لسٹ میں شامل نہ ہوان کا اندراج کرایا جائے اور الیکشن کے دن ہر شخض کو ووٹ ڈالنے کا ذمہ دار بنایا جائے ،اس سلسلے میں کسی کو تعاون کی ضرورت ہو تو اس کا تعاون کیا جائے ،ووٹر کو پولنگ بوتھ تک پہونچانے اور وہاں سے لانے کا انتظام کیا جائے ،اسی طرح مرد حضرات اپنی خواتین اور گھر کے جو ووٹر ہیں ان کو حفاظت کے ساتھ پولنگ بوتھ تک لے جا کر ووٹ ڈلوائیں ، غفلت کی وجہ سے کوئی ووٹ ضائع نہ ہونے پائے ،جو حضرات روز گار اور تعلیمی سلسلے میں دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں وہ بھی کوشش کریں کہ الیکشن کے دن جہاں ان کا ووٹ ہے وہاں پہونچ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں،محلہ اور گائوں کے ذمہ دار ودانشور ،اور ائمہ وخطباء سے گذارش ہے کہ ان تمام کاموں کی ترغیب دیں ،نگرانی اور سرپرستی فرمائیں اور کام کرنے والوں کا بھر پور تعاون فرمائیں ،جو نوجوان ہائی اسکول پاس ہیں اور تھوڑی سی بھی انگریزی جانتے ہیں تو وہ جان کار لوگوں سے رابطہ کرکے اس کام کو کرسکتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں یہ وقت کا ا نتہائی اہم تقاضہ ہے ، اس کو دنیاداری سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بل کہ ہمارا ملی تقاضہ ہےاور آئندہ آنے والے اوقات میںاس الیکشن کا بہت نمایاں اوربہت گہرااثرسامنے آنے والا ہے ، اس لئے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ،الیکشن کمیشن خود چاہتا ہے کہ بااثر حضرات اس کام کو آگے بڑھ کر کریں اور ان دونوں چیزو ں کی طرف توجہ دیں، کوئی نوجوان جو ووٹ دینے کا اہل بن چکا ہے ،اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہے تو فوراً اس کا نام کا اندراج کرایا جائے اور اپنے اپنے وقت پر تمام لوگ اپنے حق کا استعمال کریں ۔

 


حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی ( صدر جمعیۃ علمائے ہند)ووٹ کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ووٹ دینا خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ آپ ہندوستان کو جس رُخ پر لے کر چلنا چاہتے ہیں یہ آپ کے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ممکن ہے ، ہر آدمی کو چاہے وہ کسی بھی سماج کا حصہ ہو ،کسی بھی مذہب کا فرد ہو اگروہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ووٹ کی طاقت کھودیتا ہے تومیںسمجھتا ہوںکہ وہ ملک کا وفادار نہیں ہے ،آپ کو ووٹ ڈالنا چاہیے ، آپ جس کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں ضرور ڈالیے ،آپ کو کوئی روکتا ہےمت رکیے ،آپ ملک کواس نہج اور اس راستے پر لے کر چلیے جس سے پورے ملک کا مفاد وابستہ ہے ،اگر آپ ووٹ نہیں ڈالیں گے اس کا مطلب یہ کہ آپ نے ملک کو لا وارث چھوڑ دیا ،ہر آدمی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میرے ووٹ کی یہ طاقت ہے کہ میں جس طرف چاہوں اس طرف اپنے ملک کو لے کر چلوں ، لہذا اس طاقت کا استعمال کرناچاہیے۔
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی دامت برکاتہم (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) اپنےایک صوتی پیغام میںمختلف افراد سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ آپ سب لوگ یہ بات بار بار مختلف لوگوں کی زبانوں سے سُن چکے ہوں گے کہ یہ الیکشن عام الیکشن نہیں ہے ، یہ ہمارے ملک کا مستقبل طے کرے گا ، آج میں بھارت کے ایک شہری کی حیثیت سے بھارت کے تمام شہریوں سے ،تمام ووٹرس سے ایک درخواست کرنے لئے حاضر ہوا ہوں ، آپ کا ایک ووٹ بہت قیمتی ہے ، بہت دور تک اس کے اثرات پڑ یں گے ، اس لئے آپ اپنے علاقے میں جو الیکشن کا دن ہو ، خدا کےلئے آپ اس میں ووٹ ڈالنے ضرور نکلئے ،میں تو یہ گذارش کرتا ہوں ہر محلے کے لوگ اپنے محلے میں کچھ ایکٹیویٹ لوگوں کی ایک کمیٹی بنادیں ، ایک گروپ تشکیل دیں ،اور ہر گروپ کو کچھ گھر دے دیں آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان گھروں میں جا جا کر ایک ایک ووٹرکو آپ پوری عزت کےساتھ نکال کر لائیں اور بوتھس تک پہونچائیں ،ووٹ ڈلوائیں اور پھر اس کو اس کے گھر پہونچائیں ،خدا کے لئےاس کی اہمیت کو سمجھیں ، اگر غفلت برتی تو آپ نے اپناووٹ بانٹ دیا کیوں کہ میں جانتا ہوں ، آپ بھی جانتے ہیں کہ کئی کنڈیڈیٹ کھڑے ہوجاتے ہیں جن کو جیتنانہیں ہوتا ، اُن کے ووٹ تقسیم کراکر جس کو آپ ہرانا چاہتے ہیں اس کو جتانا اُن کا مقصد ہوتا ہے ، افسوس یہ ہےکہ مسلمانوں میں بھی ایسے بکائو لوگ اچھی خاصی تعداد میں ہیں ، جو کچھ پیسے لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو چند ہزار ووٹ کاٹ دیتے ہیں ، آپ ہوشیار رہیے گا ، دھیان رکھیے گا کہ آپ کاووٹ تقسیم نہ ہونے پائے ، اِدھر اُدھر کے کینڈیڈیٹ کوووٹ مت دیجئے جو کینڈیڈیٹ نفرت پھیلانے والا کینڈیڈیٹ ہو یااس پارٹی سے اس کا تعلق ہو ، وہ سماج کو بانٹ رہا ہو، اس کوروکیے اور اس کے سامنے جو کینڈیڈیٹ اس پوزشن میں ہو جو اس کو ہرا سکتا ہو ،اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہتی ، صرف اُسی کو ووٹ ڈالیے، چاہے پرسنل لی آپ اس کینڈیڈیٹ کو پسند نہ کرتے ہوں ، اس وقت صورتِ حال ایسی ہوگئی ہےکہ اپنی پسند ناپسند سے زیادہ ہمیں اور آپ کویہ دیکھنا چاہیئے کہ ملک میں کس کا بھلا ہے۔‘‘
ایک اور صوتی پیغام میں فرماتے ہیں :
’’ آپ سب جو ووٹ دے سکتے ہیں وہ ضرور ووٹ ڈالیں ،جن کا نام ابھی درج نہیںاور درج ہوسکتا ہے تو ضرور ،ضرور،اورضرور اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کروائیں ۔
اگر ووٹ دینے کا دن جمعہ پڑ جائے تو میں اپنے مسلم بھائیوں ، بہنوں اور نوجوانوں سے تو یہ کہوں گا آپ صبح بہت جلدی (ووٹ ڈالنے )آئیے،تاکہ جمعہ کی نماز میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔
موسم گرمی کا ہے مسلمان ووٹر ہوں یا ہمارے غیرمسلم بھائی بہن ،نوجوان ہوں ،وہ جتنی صبح سویرے جلدی آجائیں گے اتنی زیادہ گرمی سے پہلے ہی وہ ووٹ دے کر فارغ ہوکر اپنے گھر چلے جائیںگے، اس لئے بھی صبح جلدی آنا مفید ہوگا ۔ اگر کسی وجہ سے کسی کو دیر ہوجائے تو ایک بہت بڑے مقصد کے لئے تھوڑی سی گرمی برداشت کر لیجئے ، کچھ دیر لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کر لیجئے ، اس چھوٹی سی قربانی سے آپ بہت بڑی نیکی انجام دے لیں گے۔
جو ہمارے لوگ نوکری ملازمت مزدوری کرنے کے لئے دور جاکر کہیں رہتے ہیں ان سے میری گذارش ہے کہ وہ ذراقربانی دیں اور اس جگہ پر پہونچ جائیں جہاں ان کا ووٹ پڑتا ہو، ویسے لوگ بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں ۔
اور میں تو یہاں تک کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ان دنوں میں عمرے کے لئے جانے کے بہ جائے اپنا اپنا ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیں ،عمرہ تو پہلے بھی ہوسکتا ہے اور بعد میں بھی ہوسکتا ہے ۔
اسی طرح تبلیغی جماعت میں جانے والے حضرات ، میرے پیارے دوست ان سے بھی گذارش ہے کہ یا تو وہ ان دنوں جماعت میں نہ نکلیں یا نکلیں تو اپنی جماعت کے امیر سے قاعدے کے مطابق اجازت لے کر وہ ووٹ دینے کے دن اپنے جگہ پر واپس آجائیں، ووٹ ڈالیںاور پھر جائیں ۔

حضرت مولانا شاہ جمال الرحمٰن صاحب مفتاحی مدظلہ العالی (امیر شریعت تلنگانہ وآندھرا )
’’ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں ، سو فی صد کریں، جو لوگ نہیں خود چل کر نہیں جاسکتے اُن کو لے جانے میں مدد وخدمت کریں اور مال دارو بڑے شلوگ اپنے گھروں میں ووٹ ڈالنے کے بہ جائے آرام نہ کریں ،ووٹ ڈال کر آئیں ، اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتا ہی نہ ہو ، ہماری بہت عرصے سے خواہش ہے کہ سو فی صد ووٹنگ کی اطلاع ملنی چاہیئے ،گھر گھر جائو، آدمی کو لے کر آئو ۔ آپ دیکھیں گے کہ شادی کا رقعہ دینا ہوتو مال دارحضرات گھر گھر جاتے ہیں اس لئے کہ گھر کی شادی کا رقعہ ہے، بیٹے کانکاح ہے ، پوترے کا نکاح ہے ،اس لئے ہر گھر کو جاکے رقعہ دیاجاتا ہے ،جب اس سے کہا جاتا ہےکہ ارے بھائی ! آپ نے کیوں زحمت کی ؟ بچے کو بھجا دیتے !تو جواب دیتےہیں: بھائی صاحب! ہمارے گھر کا مسئلہ ہے اس واسطے میرے کو ہی آنا پڑا۔ اللہ کے بندو! یہ پور ی قوم کا مسئلہ ہے ،کیوں اپنے گھروں سے نہیں نکلتےاور کیوں ووٹ نہیں ڈالتے ؟
حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب مدظلہ العالی (بانی ومہتمم ادارہ اشرف العلوم ٹرسٹ حیدرآباد)نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ووٹ کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:
’’ووٹ ہمارا قانونی وشرعی حق ہے ،اور امید وار کے حق میں عوام کا مناسب نمائندہ ہونے کی شہادت ہے اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہر ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں ۔اس میں آپ اپنے اور اپنے لوگوں کے ووٹ کا استعمال کرنا نہ بھولیںاور ووٹ کا صحیح استعمال کریں ، ضائع نہ کریں ۔
ضائع کرنے کی ایک صورت یہ ہےکہ ووٹ ڈالنے ہی نہ جائیں ، ایک صورت یہ ہےکہ فرقہ پرست امید وار کو ووٹ دیں ، ایک صورت یہ ہےکہ کمزور امید وار کو ووٹ دیں جو جیت ہی نہ سکے ، ایک صورت یہ ہےکہ ہم کئی امید واروں کے حق میں بٹ جائیں ۔
اس لئے مناسب ہے کہ حلقے کے امید واروں اور ان کے حالات پراچھی طرح نظر کرکے کسی غیر فرقہ پرست سیکولر مزاج امید وار کو جس کے جیتنے کی زیادہ امید ہے اپنا ووٹ دے کر مضبوط کریں ۔
یاد رکھیں !ہماری تھوڑی سی غفلت فرقہ پرست امید واروں کی جیت کا سبب بنے گی ،جس کا خمیازہ ہم ہی کو بھگتنا پڑے گا ،یہ مسلکوں ، جماعتوں ، پارٹیوں اور شخصیتوں کا مسئلہ نہیں ہے ، پوری ملت کے چین وسکون اور امن وامان کا مسئلہ ہے ۔خدارا؛ اس مسئلے میں احساس واتحاد کا ثبوت دیں ۔ ‘‘(اشرف المعارف: ۲۴۳)
اپنے ایک صوتی پیغام میں فرمایا: ۱۳ ؍ مئی ۲۰۲۴ کو ہماری ریاست میں الیکشن ہوگا ،اور قومی حکومت بننے کے واسطے ہوگا ، اس لئے جب ملک میں مرکز صحیح ہوتا ہے تو ریاستیں صحیح ہوتی ہیں ،مرکز خراب ہوتا ہے تو ریاستی خراب ہوتی ہیں ، اس وجہ سے مسلمانوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ مرکز میں بننے والی حکومت کے سلسلے میں اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کریں اور صحیح استعمال کریں ۔خاص طور سے ہمیں اپنی ریاست میں اس کی فکر کرنا ہے ،ہم لوگ یہاں حیدرآباد میں رہتے ہیں اس لئے ہمیں سنجیدہ سوچ کو اختیار کرنا اور شعور کو آواز دینا ہے ،حالات کو سمجھنا اور نفع نقصان میں فرق کرنا ہے، ملک کے لئے ملک میں رہنے والے تمام انسانوں کے لئے اور ملک میں رہنے والی ملت ِاسلامیہ کے لئے کیا بھلا ہوسکتا ہے؟سوچ کراپنے ووٹ کا استعمال کریں،عند اللہ جواب دہی کا احساس اپنے اندرپیدا کریں ۔
پورے تلنگانہ کے تمام علماء کرام، تمام مکاتب فکر اور تمام جماعتو ںاور مسلکوں کی طرف سے یہ پیغام یہاں کے مسلمانوں کو دیا جارہا ہے کہ آپ ووٹ کو ضائع نہ کریں ، ووٹ ڈالیں اور صحیح جگہ پر ڈالیں ۔مسلمانوں کو اس مسئلے میں گھر میں نہیں رہنا چاہیئے ، سونا نہیں چاہیے، خود بھی کرنا چاہیے اور جو اپنے اطراف ہیں اگر ان کو نہیں سمجھ میں آرہا ہے تو اُنھیں بھی ساتھ لے جاکران کا ووٹ بھی ڈلوانا چاہیے ،اس کو عبادت سمجھ کر کرو ،اس کو دین سمجھ کر کرو، اس کو مسجدوں ، مدرسوں اور جماعتوں اور مسلکوں کی حفاظت کا وسیلہ سمجھ کر کرو ، ورنہ سب پر آنچ آئے گی اور سب اس آگ میں جھلس سکتے ہیں ، اب سو فی صد شعور کا ،عقل کا ، علم کا ،پڑھے لکھے ہونے کا ، سمجھ دار ہونے کا بڑے شہر کےشہری ہونے کا ثبوت آپ کو دینا ہوگا ،اللہ آپ کو ہم کو سب کو سمجھ دے ۔‘‘
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی( صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بور ڈ)کیسے امیدوار کوووٹ ڈالیں ؟ اس سلسلے میں۲۴؍ نومبر ۲۰۲۳ء کے شمع فروزاں میں راہ نمائی فرماتے ہیں:
’’موجودہ حالات میں ایسے امیدوار کو تلاش کرنا جو دیانت اور صدق وراستی کے معیار کومکمل طورپر پوراکرتاہو، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے مواقع پر شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر دوبرائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے سوا چارہ نہ ہو تو کم تردرجہ کی برائی کا انتخاب کیاجائے،فقہاء نے بے شمار احکام کی بنیاد اسی اصول پر رکھی ہے، اورآج کے حالات میں اس اصول کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ۔
ہندوستان ایک کثیر مذہبی اورکثیر تہذیبی ملک ہے، اس ملک کی آزادی میں تمام طبقات کا حصہ رہاہے، اس کے لئے سبھوں نے قربانیاں دی ہیں،اورسب کے خون جگر سے مل کر اس سرزمین نےترقی کا سفر طے کیاہے، ملک کے دستور میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے ، مساوات ،بھائی چارہ اورتہذیبی رنگارنگی ہمارے دستور کی روح ہے،ایک مذہب یا ایک تہذیب کی بالادستی دستور کی روح اوراس ملک کے معماروں کے خواب کے برعکس ہے، مگر افسوس کہ اس وقت بعض قوتیں دستور کی روح کے خلاف کام کررہی ہیں، اورانہوں نے نفرت کو اپنا ایجنڈہ بنالیاہے، اکثریت،اقلیت، ہندومسلمان، ہندوسکھ،ہندو کرسچین، مسجد مندر اورمندرچرچ وغیرہ کے نام سے وہ الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں اوراپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارکر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے عناصر سے بچنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہمیں کم تر برائی کو اختیار کرناچاہئے، اگرایک امیدوار نے اپنا فرقہ پرستانہ نقطۂ نظر واضح کررکھاہے،اوراسی کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہاہے،خواہ یہ خود ا س کی رائے ہو، یاجس پارٹی نے اس کو امیدوار بنایاہے، اس کامنشور ہو توایسے امیدوار کو ہرگز ووٹ نہیں دیناچاہئے، یہ ملک اور قوم کے ساتھ بے وفائی ہے،اس کے مقابلہ ایسے امیدوار کوووٹ دیاجاناچاہئے جوکم سے کم اپنے منشور کے اعتبار سے ملک کے دستور سے وفاداری کا اظہار کرتاہواورملک کے تمام شہریوں کے ساتھ برابری اور انصاف کی بات کہتاہو ،موجودہ حالات میں اس کالحاظ رکھنابے حد ضروری ہے۔‘‘

حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی زید مجدہٗ (استاذ ِ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)تحریر فرماتے ہیں:
ملک کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر ملک کے ہر سیکولر باشندے کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص آنے والے انتخابات میں بھرپور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا؛ اس کے لیے ذیل میں دی گئی نکات پر عمل ضروری ہے:
۱۔ مسلمانوں میں 100 فیصد ووٹنگ کو یقینی بنانا ضروری ہے؛ انتخابات کے موقع پر اکثر مسلمان غفلت کا شکار رہتے ہیں؛ امت کا ایک بڑا طبقہ ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیتا ؛ مسلم نوجوان رائے دہی سے کتراتے ہیں؛ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے گریز کرتی ہے ؛بہت سے ضعیف اور بوڑھے احباب بھی رائے دہی کو اپنے لیے ایک نامرغوب عمل سمجھتے ہیں؛ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمانوں میں 100 فیصد ووٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل باتوں پر عمل کیا جائے:
(۱) انتخابات سے قبل ہر ہر مسجد کے تحت محلے کے تمام افراد تک ڈور ٹو ڈور پہنچنے کا اہتمام کیا جائے؛ مسجد کمیٹی اور محلے کے نوجوانوں کی طرف سے مسجد کے اطراف کی تمام آبادی کا احاطہ کرتے ہوئے گھر گھر پہنچ کر انتخابات کی تاریخ کی وضاحت کرتے ہوئے گھر کے تمام افراد کو ووٹ ڈالنے کی تاکید کی جائے اور گھر کے سرپرستوں کو ذمہ دار بنا کر مکلف کیا جائے کہ وہ اپنے گھر کے مرد و خواتین جوان اور بوڑھوں کو رائے دہی میں حصہ لینے کا پابند بنائیں؛ یہ کام ووٹنگ کی تاریخ سے چند دن قبل شروع کیا جائے ؛پورے محلے میں ووٹ کے تعلق سے عمومی شعور بیدار ہو جائے۔( ۲)قبل از وقت پولنگ بوتھ سے ووٹر لسٹ حاصل کر لی جائے اور اپنے ناموں کے تعلق سے اطمینان حاصل کر لیا جائے۔(۳) الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے والوں کو لے جانے کے لیے باقاعدہ نوجوانوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جن کا کام اپنی رائے دہی سے فارغ ہو کر محلے کے تمام افراد کی رائے دہی کو یقینی بنانا ہو؛ وہ گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو پولنگ بوتھ تک پہنچانے کی باقاعدہ مہم چلائیں؛ خصوصیت کے ساتھ خواتین کو ان کے محرم مردوں کے ساتھ پولنگ بوتھ جانے کی ترغیب دیں؛ بہتر ہے کہ ضعیف اور بوڑھے احباب کو پولنگ بوتھ تک جانے کے لیے سواری کا انتظام کر دیا جائے۔(۴) انتخاب کے دن نماز فجر کے بعد اولین وقت میں رائے دہی کے عمل سے فراغت مناسب ہے اکثر لوگ بھیڑ کے اندیشے سے بہت تاخیر سے پولنگ بوتھ پہنچتے ہیں کبھی پہنچنے تک ووٹنگ کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے؛ اس طرح ایک بڑی تعداد اپنے ووٹوں کے استعمال سے محروم ہو جاتی ہے؛ مسجد کمیٹی کے احباب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ہفتہ قبل ہی سے مسجد میں مسلسل اعلان کرواتے رہیں کہ مصلیان مسجد اپنے اہل خانہ کے ساتھ الیکشن کے دن نماز فجر کے بعد اولین فرصت میں ووٹ ڈالنے کا اہتمام کریں۔(۵)جو لوگ اپنے وطن سے دور دوسرے مقامات میں قیام پذیر ہوں وہ وقت سے پہلے اپنے وطن پہنچنے کے انتظامات فرما لیں تاکہ ایک بڑی تعداد حق رائے دہی سے محروم نہ ہو جائے۔(۶) ملک کے ہزاروں مدارس میں ہزاروں طلباء قیام پذیر ہوتے ہیں ان کے ووٹوں کا استعمال بھی نہایت ضروری ہے؛ ارباب مدارس کو چاہیے کہ وہ دو دن قبل ہی طلبہ کو انتخابات کے لیے وطن پہنچنے کا پابند بنائیں تاکہ ہزاروں طلبہ اپنے ووٹوں کا استعمال کر سکیں ۔
۲۔ مسلمانوں میں 100 فیصد ووٹنگ کو یقینی بنانے کے ساتھ دوسرا اہم ترین کام مسلم ووٹوں کو بکھرنے سے بچانے کا ہے اکثر موقعوں پر مسلم ووٹ سیکولر امیدواروں کے درمیان منقسم ہو جاتے ہیں؛ ووٹوں کا متحدہ استعمال وقت کا اہم تقاضا ہے اس کے بغیر ہم فرقہ پرست امیدواروں کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتے اس وقت سارے اکابر ملت کی جانب سے اپیل کی جا رہی ہے کہ مسلمان مرکز میں فرقہ پرست جماعت کو اقتدار سے روکنے کے لیے غیر فرقہ پرست کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کریں۔
الغرض !اکابرینِ امت ، علماء ِ اسلام ، اور دانشورانِ قوم وملت کی پر درد گذارشات اور اُن کی فکر وں سے ملک کے حالات کو سمجھیں،اور حق رائے دہی کے دن اپنے اپنے مقام پر احساسِ ذمہ داری اور مستقبل کو ذہن میں رکھ کرضرور ووٹ ڈالیں ، گھر کا کوئی اہل فرد محروم نہ رہے ۔اللہ پاک فہم سلیم نصیب فرمائے ۔آمین

Exit mobile version