این آر سی لاگو کرنے حکومت کو ڈی این اے سے ہماری شناخت کرنی ہوگی، جامعہ ملیہ احتجاج میں مقررین کا خطاب

نئی دہلی: 14؍جنوری (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، سی اے اے کے خلاف طلبائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا آج 33؍واں دن تھا۔ حسب سابق آج بھی بڑی تعداد میں طلبا و اطراف کے عوام نے احتجاج میں شرکت کی اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے لگائے۔ آج کےاس احتجاج میں مظاہرین سے رام موہن رائے (جنرل سکریٹری گاندھی گلوبل فیملی ، چیف ایڈیٹر نتیہ نوتن میگزین، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)وارث پٹھان (ترجمان مجلس اتحادالمسلمین) ، ناصر سرپنج (سرپنج بجنور)، جسٹس کولسے پاٹل، مدثر حیات (سابق جنرل سکریٹری اے ایم یو اولڈ بوائز ) ، صدف جعفر (سماجی کارکن)، پروفیسر بھوپیندر چودھری ، شہزاد احمد، ڈاکٹر دیو کمار (دہلی یونیورسٹی)، انگھش مان چودھری (نئی دہلی) نے خطاب کیا۔ تمام مقررین نے طلبہ کے حوصلوں کی تعریف کی اور تحریک شروع کرنے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کو ملک تقسیم کرنے والا قانون قرار دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس کولسے پاٹل نے کہا کہ موجودہ حالت میں ہندوستان کو بچانا سب سے اہم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نریندر مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے دلال ہیں اور آر ایس ایس ملک کا دشمن ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مسلمان خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت غریبوں اور مظلوموں کی دشمن ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں اور ہمارا خون بھی ایک جیسا ہے، اگر حکومت این آر سی لاناچاہتی ہے تو اسے ڈی این اے سے ہماری شناخت کرنی ہوگی۔ ہم کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہیں، میں ہندوئوں سے کہناچاہتا ہوں کہ ہم ان کے نہیں بی جے پی اور آیس ایس کا مخالف ہوں، انہوں نے کہاکہ حکومت اس ملک کو تاجروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناناچاہتی ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان وبائیکلہ حلقہ اسمبلی کے سابق ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہا کہ پولس جب کیمپس میں ہوتی ہے تو کچھ غنڈے یونیورسٹی میں گھس جاتے ہیں، او رمودی زندہ باد، گولی مارو سالوں کو جیسے نعرے لگاتے ہیں، اور پولس خاموش تماشائی رہتی ہے اس سے پولس کا دوہرہ رویہ اجاگر ہوتا ہے۔ سی اے اے کے تعلق سے انہو ںنے کہاکہ میں اپنے کاغذ نہیں دکھائوں مجھے دیکھنا ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم سی اے اے کو سمجھ نہیں رہے ہیں، حکومت کو یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو اس کے حقوق سے محروم رکھے۔ اخیر میں انہوں نے آئین کی تجاویز بھی پڑھیں۔ سماجی کارکن انشومان چودھری نے کہاکہ آسام کے ڈٹینشن سینٹروں کے حالات خوفناک ہیں، جہاں اپنی شہریت ثابت نہ کرسکنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد نے خودکشی کرلی ہے، انہو ںنے کہاکہ این آر سی، این پی آر، سی اے اے آسام کے لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹا ہے اگر پورے ملک میں یہ نافذ ہوا تو عوام کےلیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے رکن بھوپیندر چودھری نے کہاکہ میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جو طویل وقفے سے شاہین باغ میں ڈٹی ہوئی ہیں، انہوں نے حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا چاہتا ہے، انہوں نے کہاکہ حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر چل کر ملک میں ہاہا کار مچا رہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہم کسی بھی حال میں اپنے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف لکھنو میں جیل جاچکی صدف جعفر نے کہاکہ یہاں موجود ہرلڑکا، ہر لڑکی تاریخ بنانے کے لیے ہے، خود کو پولس حراست میں لیے جانے پر انہو ںنے کہاکہ میرا احتجاج قانون کے مخالف نہیں تھا، بلکہ یہ متاثرین کے حقوق کےلیے تھا۔ انہوں نے حکومت کو للکارتے ہوئے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، کیوں کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ڈٹینشن سینٹر کی دیواریں کتنی مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گلوبل فیملی کے جنرل سکریٹری رام موہن رائے نے کہاکہ آزادی کا معنی ہوتا ہے مساوات لیکن یہ حکومت تقسیم کی سیاست کررہی ہے انہوں نے مزید کہاکہ حکومت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سے، خواتین سے ان کے حقوق سلب کرناچاہتی ہے۔ واضح رہے کہ 15؍ دسمبر کو جامعہ کے طلبا کو کیمپس میں گھس کر دہلی پولس نے خوب مارا پیٹا تھا اس کے ایک ماہ مکمل ہونے پر آج بڑی تعداد میں طلبا گیٹ نمبر ۷؍ پر اکٹھا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ طلبا نے چلو جامعہ‘ کے نام سے تحریک شروع کی ہے جس میں بڑی تعداد میں طلبا وعوام شریک ہوں گے۔ اس تعلق سے طلبا کا کہنا ہے کہ ہماری اونچی آواز کو حکمرانوں کو سننی پڑے گی، جامعہ ملیہ کی آواز ہر یونیورسٹی کی آواز ہے۔

Exit mobile version