اترپردیش میں مندر کے پجاری سے مانگا گیا بھگوان کا آدھار کارڈ!

باندا: 9؍جون (عصرحاضر) اتر پردیش کے باندا سے ایک عجیب و غریب اور دلچسپ معاملہ سامنے آیا ہے۔ ضلع کے اٹّارا تحصیل واقع کرہرا گاؤں کے ایک مندر کی زمین میں اگائے گئے گیہوں کو فروخت کرنے کے لیے سرکاری خرید مرکز پر گئے ایک پجاری کو دیوتا کا آدھار کارڈ دکھانے کو کہا گیا۔ جب اس واقعہ کی خبر لوگوں کی ملی تو سبھی ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے اور افسر کے مطالبہ پر حیران و ششدر ہو گئے۔

کرہرا گاؤں واقع رام جانکی مندر کے پجاری مہنت رام کمار داس کا کہنا ہے کہ وہ ایک سرکاری منڈی میں 100 کوئنٹل گیہوں فروخت کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے دوسروں کی مدد سے آن لائن رجسٹریشن کرایا تھا۔ اس کے بعد جب فصل بیچنے کے لیے سرکاری منڈی پہنچے تو انھیں اس دیوتا کا آدھار کارڈ دکھانے کے لیے کہا گیا جس کے نام پر زمین رجسٹرڈ تھی۔

مندر کے کارگزار پجاری مہنت رام کمار داس نے بتایا کہ مطالبہ پورا نہ کیے جانے پر رجسٹریشن رد کر دیا گیا۔ مہنت نے ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ ’’مجھے بھگوان کا آدھار کارڈ کہاں ملے گا؟‘‘ مہنت کے مطابق بھگوان رام اور جانکی کے نام پر سات ہیکٹیر زمین درج ہے۔ پجاری نے یہ بھی بتایا کہ جب اپنا مسئلہ انھوں نے ایس ڈی ایم سوربھ شکلا سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ آدھار کے بغیر رجسٹریشن نہیں کیا جا سکتا ہے، اور اسی لیے ان کے دفتر نے اسے رد کر دیا ہے۔ بعد میں ایس ڈی ایم نے بتایا کہ پجاری کو دیوتا کا آدھار کارڈ دکھانے کے لیے نہیں کہا گیا تھا بلکہ انھیں گیہوں فروخت کرنے کے پورے عمل کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

اس درمیان ضلع سپلائی افسر گووند اپادھیائے نے کہا کہ قوانین واضح ہیں کہ مٹھوں اور مندر سے پیدا اناج نہیں خریدا جا سکتا ہے۔ خرید پالیسی میں بھی ایسا کوئی انتظام نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ پہلے کھتونی (اراضی ریکارڈ) دکھانا لازمی تھا، لیکن اب رجسٹریشن لازمی ہو گیا ہے۔ رجسٹریشن کے لیے اس شخص کا آدھار کارڈ ہونا ضروری ہے جس کے نام پر زمین رجسٹرڈ ہوئی تھی۔

پجاری کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی پیداوار کو فروخت کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال انھوں نے سرکاری منڈی میں 150 کوئنٹل پیداوار فروخت کی تھی، لیکن کبھی اس طرح کی حالت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بہر حال، اب پجاری فکر مند ہے کہ اناج منڈی میں فروخت نہیں ہو پائے گا تو کیا ہوگا۔ انھوں نے کہا ’’اگر ہم منڈی میں فصل نہیں فروخت کر سکتے ہیں تو ہم مندر کے انتظام میں ہونے والے خرچ کو کیسے پورا کریں گے اور اپنا پیٹ کیسے بھریں گے۔‘‘

Exit mobile version