دوران سفر کرونا کی تشخیص پر امریکی خاتون ٹیچر نے کیا جہاز کے ٹوائلٹ میں قرنطینہ

شکاگو: یکم؍جنوری (ذرائع) کرونا کا مرض کسی بھی جگہ کسی کو بھی ہو تو خوف لاحق ہونا فطری سی بات ہے لیکن اگر فضا میں بیس تیس ہزار فٹ کی بلندی پر کسی کو معلوم ہو کہ اسے کرونا ہو گیا ہے تو پھر کیا ہو؟
کچھ ایسا ہی معاملہ امریکی سکول ٹیچر ماریسا فوشیو کے ساتھ ہوا جن کو 20 دسمبر کو امریکی شہر شکاگو سے آئس لینڈ جاتے ہوئے تقریباً پانچ گھنٹے طیارے کے بیت الخلا میں گزارنا پڑے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ دوران پرواز ماریسا کو محسوس ہوا کہ ان کے گلے میں خراش ہے تو انھوں نے فوراً اپنے پاس موجود ریپڈ کٹ کے ذریعے خود ہی اپنا کرونا ٹیسٹ کیا۔ تھوڑی دیر میں انھیں اس ٹیسٹ کا مثبت نتیجہ ملا جس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ 150 افراد سے بھری اس پرواز کے دوران کیا کیا جائے؟
مشی گن سے تعلق رکھنے والی ماریسا فوشیو نے شکاگو سے آئس لینڈ کا سفر شروع کیا تو انہیں شاید علم نہیں ہو گا کہ انہیں اپنا بیشتر سفر طیارے کے بیت الخلا میں اس ڈر کے ساتھ گزارنا ہو گا کہ انھیں کرونا وائرس ہے۔
امریکی شہر مشی گن سے تعلق رکھنے والی سکول ٹیچر کے مطابق یہ ان کی زندگی کا ایک عجیب و غریب تجربہ تھا۔ انھوں نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ انھیں کووڈ ہوا ہے تو ان کا سب سے بڑا ڈر یہ تھا کہ طیارے میں موجود دوسرے مسافروں کو ان سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔
اس خطرے کے پیش نظر انھوں نے طیارے کے بیت الخلا کا رخ کیا اور اگلے پانچ گھنٹے یعنی جب تک طیارہ منزل پر اتر نہیں گیا، وہیں پر گزارے۔
ماریسا نے طیارے کے ٹوائلٹ سے ایک ویڈیو بھی بنائی جسے ٹک ٹاک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کیا گیا۔ اس ویڈیو کو اب تک چالیس لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔
ماریسا کے مطابق آئس لینڈ پہنچنے کے بعد انھیں ریڈ کراس کے ایک ہوٹل میں خود کو قرنطینہ کرنا پڑا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس پرواز سے پہلے ماریسا اور دیگر مسافروں کو کرونا ٹیسٹ مہیا کرنے کی شرط تھی یا نہیں۔
ماریسا نے جس طریقے سے کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، طیارے کے سٹاف نے بھی ان کا اتنا ہی خیال رکھا۔
کسی طیارے میں دوران پرواز کرونا کی تشخیص اور بیت الخلا میں قرنطینہ کا شاید یہ ایک منفرد واقعہ ہے جو ماریسا کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

Exit mobile version