سب سے پہلےدین اسلام نے انسانیت کو وحدت ِرب کے ساتھ وحدتِ اب کا سبق پڑھایااور بہ بانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اورلوگوں میں سب بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے کام کرے۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتہ سے بھائی مانتا ہے اور ان کو بھائیوں کی طرح باہمی اتحاد ویگانگت کے ساتھ زندگی گزارنےاور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنے کی تلقین کرتا ہے۔انسان تو انسان ہیں، اسلام جانوروں کو بھی ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کی بہ تاکید ممانعت کرتا ہے ۔ حدیث نبوی کے مطابق ایک عورت کو محض اس بناپر عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر اس کا کھانا پینا بند کردیا تھا۔اور ایک شخص کی اس لیےبخشش و مغفرت ہوئی کہ اس نے ایک پیاسےکتے کو کنویں سے نکال کرپانی پلادیا۔
افراد انسانی کے درمیان تعاون و ہمدردی اور محبت و خیر خواہی کا جذبہ‘عصرحاضرمیں سماجی استحکام، معاشرتی امن و سکون، اور معاشی ترقی وخوش حالی کے لئے از حد ضروری ہے؛ اسی لئے اسلام نے باہمی اخوت و رواداری اوربےلوث ہمدردی و خیرخواہی کو اعلیٰ انسانی اوصاف کا جزو لاینفک قراردیانیز’’احب الناس الی اللہ انفعھم للناس‘‘کے ذریعہ خدمت خلق کا ایسا جامع تصور پیش کیا کہ تلاش بسیار کے باوجود دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ؛یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی اوراس اہم فریضے کی ادائیگی پر مسلمانوں کو مختلف انداز وطریقے سے ابھارا گیا ۔
خدمت خلق کتاب و سنت کی روشنی میں :
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے : نیکی صرف یہی نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق کی جانب کرلو یا مغرب کی جانب؛ لیکن اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتب سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے حاجت مندرشتہ داروں کو اور نادار یتیموں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بے خرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو ۔ (البقرہ:۷۷ ) کامل مومن کی صفات وعلامات کا تذکرہ کرتے ہوئےایک اور مقام پر فرمان باری ہے :اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔(الدھر:۸)
ان دو آیتوں کے علاوہ خدمت خلق کی اہمیت و فضیلت سےمتعلق چند احادیث بھی ملاحظہ فرماتے چلیں !
۱) حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری)
۲)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں،رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے (لہٰذا) زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی)
۳) حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول خداﷺنے ارشاد فرمایا:تم ہرگز ایمان والے نہیں ہوگے جب تک کہ تم رحم نہ کرو۔صحابہ عرض کرنے لگے: ائے اللہ کے رسول !ہم میں سے ہر شخص رحم کرتاہے۔ آپ ﷺ نے فرمایااس سے وہ رحم اور ہم دردی مراد نہیں ہے جو تم میں سے کوئی اپنے قریب کے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہاں وہ رحمت عامہ مرادہے جو تمام انسانوں کے ساتھ ہو۔ (طبرانی(
۴)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور ﷺ نے ان کے پاس پہنچ کر فرمایاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بھلا کون ہے اور برا کون؟آپ ﷺ کے اس سوال پر سب لوگ خاموش رہے؛لیکن آپ نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا تو ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ارشاد فرمائیں کہ ہم میں بھلا کون ہے اور براکون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لو گ محفوظ رہیں،تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سےلوگ محفوظ نہ رہیں۔(ترمذی)
۵)حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے سینہ سے نکال دی جاتی ہے جو بدبخت ہو۔(ترمذی) نمونے کےطور پر یہاں چندہی احادیث نقل کی گئیں،ورنہ اس موضوع پر روایات کا احاطہ کیاجائے تو کئی دفتر تیار ہوجائیں ۔
خدمت خلق بارگاہِ الٰہی کا محبوب ترین عمل!
مذکورہ بالا آیات وروایات سے جہاں خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، وہیں یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہوتی ہےکہ مذہب اسلام خدمت خلق کے دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام افراد امت پر تقسیم کرتاہے، غریب ہو یاامیرہر شخص اپنی استطاعت کے بقدرخدمتِ خلق کی انجام دہی کا ذمہ دار ہے۔یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی؛ بلکہ آپ ؐکی عملی زندگی خدمت خلق کا جیتا جاگتانمونہ تھی ، کتب سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ بعثت سے قبل آپؐ خدمت خلق کے حوالہ سےمشہور تھے،
بعثت کے بعد خدمت خلق کا جذبہ مزید بڑھ گیا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال لوگوں کی مدد ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورںکی اعانت آپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلق خدا سے جوڑ رکھا تھا ،غیر مسلم بڑھیا کی گٹھری اٹھاکر چلنا ،یہودی کے بیٹے کی عیادت کرنا اورفتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرنا‘ اس کی روشن مثالیں ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ؓبھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے، حضرت ابوبکرؓ کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرنا ،حضرت عمرفاروق ؓ کا راتوں کو لباس بدل کر خلق خدا کی خدمت اور ان کی ضروتوں کو پورا کرنے کےلیے نکلنا ،حضرت عثمان ؓ کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لئے وقف کردینا ۔۔۔۔۔۔تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ہیں، انصار کا مہاجرین کے لئے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے۔خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابہ کرام میں ہی منحصراور محدود نہیں تھا ؛بلکہ تمام صحابہ کرام ؓکا یہی حال تھا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اخلاق نبوی کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میںمحفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام ِحیات پیش نہیں کرسکتا، یہ ملت اسلامیہ کی کم علمی اور تعلیمات نبوی سے دوری کا نتیجہ ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھا ہے اور معاشرت ،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے، حالانکہ یہ بھی دین کےاہم حصے ہیں۔ان واقعات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت خدمت کرنے سے آپسی انتشار واختلاف ختم ہوگا ،نیز ہمارے اور غیروں کے درمیان امن وشانتی کا ماحول قائم رہےگا۔
اسلام میں خد مت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کسی مجبور انسان کی مدد کو ایک درجہ میں رکھا گیا ہے۔ اسی لیے اگر کوئی بوڑھاپے میں یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے تو ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو کھلانا مقر ر کیا ہے۔آپﷺنے فر مایا: مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسند بھی وہ ہے جو اس کے عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔ (المعجم الکبیر )دوسری حدیث: آپ ﷺ نے فر مایا: یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔(صحیح مسلم)
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ خدمت خلق اور انسانیت نوازی کی اس درجہ تاکید کے باوجودہم اسلام کے نام لیوا، اس عظیم صفت سے عاری اور خالی ہوتے جارہے ہیں ،ہماری بے حسی اس انتہا کو پہنچ چکی ہےکہ ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں، جب کہ آپ ﷺنے فرمایاکہ وہ شخص مومن کامل نہیں جو خود تو شکم سیر ہوجائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو (بیہقی)
سیلاب کی سنگین صورت حال اورکرنے کے اہم کام :
۱) اپنی اپنی استطاعت کے بقدر مالی مدد کریں ،اصحاب خیر کو اس طرف توجہ دلائیں ۔
۲)گھر کے اشیائے ضروریہ پہونچانے کا اہتمام کریں،اگراپنےگھروں میں اضافی چیزیں ہوں توفوری ضرورت مندوں تک پہونچائیں ۔
۳)صفائی کرنے اور کچرا ہٹانے،گھر دھونے میں متاثرین کاتعاون کریں ۔
۴)کوئی مریض ہو تو اس کی دو اوغیرہ کا انتظام فرمائیں ۔کوئی معذوروپریشان ہو تو اس کی کم از کم اتنی مدد کریں کہ وہ دوبارہ اپنے بل پر کھڑا ہوسکے، اور اپنی ضروریات کا تکفل کر سکے۔
۵) مذکورہ تمام چیزوں کے ساتھ انابت ورجوع الی اللہ کا اہتمام کریں ،اوربلاضرورت فوٹو بازی ،ویڈیوگرافی سے کلی طور پر اجتناب کریں ،ورنہ سب کیے ہوئے کام اکارت وبیکار جائیںگے ۔
خلاصئہ کلام:
اس وقت حیدرآباد میں گھروں کےبارش و سیلاب کی زد میں آجانے ،املاک کے تباہ وبرباد ہوجانے، گھر کے ضروری اشیاء کے بہہ جانےکی بناء پر ، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثرو متمول افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں،دنیا کو اپنے عمل سےاسلام کےہمدردی وخیر خواہی کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ؛کیوں کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا سبب نہیں؛ بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثرترین ذریعہ بھی ہے۔