Site icon Asre Hazir

فقراءاورمساکین کی امداداہم فریضہ اورضرورت

جیساکہ آئےدن ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ لوگ اپنے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور کچھ فقراءتو نعوذباللہ ایمان کا بھی سودا کر بیٹھتے ہیں، اور بعض فقرومسکنت کی وجہ سے دم گھٹ کر مر جاتےہیں، لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے،
ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو بھیک مانگنےکو ہی پیشہ بنا لیتا ہے، اور حقیقی فقراء کے حقوق ھڑپتارہتا ہے،
بہرحال دنیوی فیصلہ ظاہر پر کیا جاتا ہے، اس لئے ان تمام میں سے کسی کے ساتھ بھی ناروا سلوک کرنا دونوں جہاں میں بہت ہی خطرناک ثابت ہوگا،
قرآن کریم میں ہےکہ آپ سائل کو نہ جھڑکیے،
نیز احادیث مبارکہ میں تو یہاں تک وارد ہوا ہے کہ اگر آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو اچھی بات ہی کہد یجئے،
ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر ایک بات غور کرنے کے قابل ہے کہ اگر دکاندار ہم سے ضرورت کا سامان خریدنے میں اصل قیمت سے کچھ زائد رقم لے لے تب بھی ہم انکاسامان خریدنے سے نہیں رُکتے ہیں،کیونکہ ہمیں سامان کی ضرورت ہوتی ہے، آخر کیوں ہم معمولی سے رقم فقراء کو دینے سے رُک جاتے ہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ اصلی فقیر نہ ہو؟
اس میں تو صرف سامان نہیں لیتے ہیں جو دوسری جگہ سے لیا جا سکتا ہے ،لیکن فقراء کونہ دینےکی صورت میں ہم انکے حقوق کو دبالیتےہیں،حالانکہ فقراءکے حقوق ان تک پہنچاناازحدضروری ہے ،آخرت میں پوچھ ہوسکتی ہے،
اس سلسلے میں بھی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول اور طریقے سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے،
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کوغرباء فقراء اور مساکین کا بہت ہی زیادہ خیال کیاکرتے تھے،
ایک روایت کے مطابق حضور ﷺ نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے عیدگاہ کی جانب تشریف لے جارہے تھے، راستے میں کچھ بچّے کھیلتے ہوئے نظر آئے، جو نئے اور خوبصورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ بچّوں نے حضورﷺ کو دیکھ کر سلام کیا۔ حضورﷺ ان کے پاس رکے، انہیں پیار کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور آگے تشریف لے گئے۔ راستے میں آپﷺ نے دیکھا کہ ایک بچّہ پرانے کپڑے پہنے اداس بیٹھا ہے۔ حضورﷺ بچّے کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’بیٹا! کیا بات ہے؟ اتنے اداس اور پریشان کیوں ہو؟‘‘ بچّے نے، جو اتنے محبت بھرے الفاظ سنے، تو روتے ہوئے بولا ’’یارسول اللہﷺ! میں یتیم ہوں، میرا باپ حیات نہیں، جو مجھے نئے کپڑے لا کردے اور نہ میری ماں ہے، جو مجھے نہلا دھلا کرتیار کرے اور میں بھی اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاسکوں۔‘‘بچّے کی باتیں سن کر سرکارِدوعالمﷺ آب دیدہ ہوگئے، بچّے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے۔ امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ’’اے عائشہ ؓ! اس بچّے کو نہلادو۔‘‘ بچّہ امّاں عائشہ کے حوالے کیا اور خود اپنی چادر کے درمیان سے دوٹکڑے کردیئے۔ کپڑے کا ایک ٹکڑا بچّے پر تہ بند کی طرح باندھا اور دوسرے کوبدن کے اوپری حصّے پر لپیٹ دیا اور پھر آپﷺ اور سیّدہ عائشہ ؓ نے مل کر بچّے کو تیار کردیا۔ جب عیدگاہ کی جانب چلنے لگے، تو آپﷺ نے فرمایا ’’آج تم چل کر مسجد نہیں جائوگے، بلکہ میرے کاندھے پر سوار ہوکر جائوگے۔‘‘ جب آپﷺ اس بچّے کو کاندھوں پر بٹھاکر اس گلی سے گزرے، جہاں بچّے کھیل رہے تھے، تو بچّوں نے اس یتیم بچّے کو حضور نبی کریمﷺ کے کاندھوں پر سوار دیکھ کر حیرت اور حسرت سے کہا ’’کاش! ہم بھی یتیم ہوتے، تو آج ہمیں بھی حضورﷺ کے کاندھوں پر سوار ہونے کا شرف نصیب ہوتا۔‘‘ آپﷺ عید گاہ کے منبر پر جلوہ افروز ہوئے، تو بچّہ نیچے بیٹھنے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’آج تم زمین پر نہیں، بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے۔‘‘ آپﷺ نے اس بچّے کو اپنے ساتھ منبر پر بٹھایا، پھر اس کے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر ارشاد فرمایا ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔‘‘ مزید فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔ وہ اسے مصیبت کے وقت تنہا نہیں چھوڑتا۔ جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت کے دن اس سے سختی دور کرے گا۔‘‘
نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت کی جوفقراءیامساکین سے اسکے فقر کی وجہ سے نفرت کرے،
اب آپ ہی سوچیے جو فقراء کو ڈرادھمکا کر دھکّے دے کر بھگائے ،انکا کیا حشر ہوگا،
اور ایک حدیث میں ھیکہ غرباء کو لایا جائےگا اور مالداروں کی لائن لگی ہوگی، کہا جائےگا کہ جا اسمیں سے جس نے ایک روٹی کا ٹکڑابھی دیا ہواسکو جنت میں لے کر چلا جا ،
ایک روایت میں یہ بھی وارد ہواھیکہ غرباءکومالداروں سے۵۰۰ سال پہلے جنت میں داخل کردیا جائےگا،
اتنی سارے فضائل کےباوجود انکے مقام ومرتبہ کا لحاظ کیے بغیر آج کل ہمارے معاشرے میں انھیں جھڑکنے ڈانٹ ڈپٹ کرنے پر ہی بس نہیں کیا جاتا ،بلکہ معاملہ تو اتنا آگے نکل چکاہے کہ انھیں ماراپیٹا بھی جاتا ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے،
خلاصئہ کلام یہ ھیکہ فقراء اور مساکین کے ساتھ جونارواسلوک کیا جاتا ہے اسے ختم کرکے انکا بھی خیال رکھنا انکی امدادکرنا ایک اہم فریضہ اور وقت کی پکار ہے،
اس سلسلے میں ذرا ہم سوچیں کہ ہم پیارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں، انکی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے، اور ہم ان ہی کی غلامی کا دعویٰ کرتے ہیں ،تو آخر ہم انکے طریقے سے انکی زندگی سے سبق لے کر کیوں صحیح رخ پر نہیں چلتے؟
ہمارا عمل ہمارے دعوی کے خلاف کیوں ہے؟
یہ کیسی منافقت ہے ہمیں اس منافقت کو چھوڑکر عملی زندگی کو بھی اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھالناہوگا،اور معاشرےکو اس بد سلوکی سے بچانا ہوگا، ورنہ انجام صحیح نہیں ہوگا،
دیکھ لیجیے! تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور تجربات بھی اس بات کاشاہد ھیکہ جنھوں نے بھی غرباء کی بے عزتی کی، انکو جھڑکا،اللہ تبارک وتعالی نے انھیں دنیا میں بھی فقرکا لبادہ اوڑھادیا ،اور وہ لوگ جو کل دوسروں کو جھڑک رہے تھے خودلوگوں کے در پر بھیگ مانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں،
یاد رکھیے! فقراءاور مساکین کی امداد اخلاص کے ساتھ کیجیے اور احسان نہ جتلائیے ورنہ آخرت میں اتناخرچ کرنے کے باوجودکچھ بھی حصہ نہیں ملے گا،اوراُسوقت سوائےحسرت وندامت کےکچھ بھی نہیں حاصل ہوگا،

ADVERTISEMENT

موبائل نمبر: 8000109710
shaikhhsiddique@gmail.com

Exit mobile version