آج کے اس ترقی یافتہ سائنس وٹیکنالوجی، ڈیجیٹل دورمیں دنیا نے نِت نئے ایجادات کی وجہ سے ایک طرف جہاں انسانی زندگی میں زبردست انقلاب برپاکیاہے وہیں دوسری جانب ان ٹیکنالوجیوں کی وجہ سے انسان محض مادی حیوان بن کر رہ گیاہے، اسی کی بنیاد پر آج کا انسان شعبہائے زندگی میں محض مادی منفعت، اور حصول زرکو ہی اپنا مقصدِ اصلی سمجھنے لگا ہے، اور اب اسکی زندگی میں اسلامی اخلاق وآداب، اخلاقی قدریں، مذہبی اصول وضوابط، نیز جذبہء خدمت خلق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے بلکہ اسکے برعکس دیکھنے میں تو یہاں تک آتاہے کہ آج کا انسانی معاشرہ خودغرضی، لالچ، حرص وطمع،جمع خوری، اور عدم تعاون کا اس حدتک عادی ہوچکاہے کہ اگر اسکے خستہ حالی وقت میں کسی انسان نے برائے ہمدردی، دادرسی،خدمت یا تعاون کرتا بھی ہے تو اسکو مشکوک اور تِرچھی نظروں سے دیکھا جاتاہے یا پھراسکو پاگل یا عقل وخردسے نا بلد گردانا جاتاہے،
اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی چوں چرا نہیں کہ وہی قوم عروج و ارتقاء حاصل کرتی ہے جو اساتذہ کرام کی عزت وتکریم کرتی ہے، اور جب تک معاشرے میں اساتذہ کرام کا احترام ہوتارہےگا تب تک معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا رہےگا، لیکن جب اساتذہ کرام کا احترام اور تقدس ختم ہوجائےگا تو وہ معاشرہ بھی زوال پذیر ہوجائےگا
، کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے،
ادب تعلیم کا جوہر ہےزیور ہے جوانی کا،
وہی شاگرد ہوتے ہیں جو خدمتِ استاذ کرتے ہیں،
مگر کسی نے سچ کہاہے کہ استاذ بادشاہ تو نہیں ہوتا مگراپنے شاگرد کو بادشاہ ضرور بناتاہے یہ استاذکی عظمت ورفعت کی دلیل ہے، استاذ بادشاہ بنا کر خود اپنی پرانی کرسی پر بیٹھ کرنئے بادشاہ بنانا شروع کردیتا ہے، بچےکو جب استاذ کے پاس بھیجا جاتاہے تو وہ اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو نہیں جانتا مگر جب استاذ اسکو پڑھالکھا کر روانہ کرتاہے تو وہی بچہ آگے چل کر قوم وملت کا رہبر ورہنما اور قائد بنتاہے ،جب استاذکے پاس آتاہے تو وہی بچہ ٹھیک سے اپنی ناک بھی صاف وشفاف نہیں کرپاتا، مگر جب استاذ اسے بنا کر سنوار کر پڑھا لکھا کر تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر کے آگے بڑھاتاہے تو وہی طالب علم طلباء کی یونین کا لیڈر بنتاہےپھر وہی بچہ جب اور آگے بڑھتاہے تو کبھی افسر اور کبھی بادشاہ بن جاتاہے ،دو اشعار اساتذہ کرام کےحوالے سےملاحظہ فرمائیں،
کوئی کچھ بھی جانتاہے تو معلم کے طفیل
کوئی کچھ بھی مانتاہے تو معلم کے طفیل،
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادارک جنوں تھا اور قبا ناچاک تھی،
ایک استاذ لوہے کو تپا کر کندن اور پتھر کو تراش کر ہیرا بناتاہے استاذکی عظمت ورفعت کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتاہے کہ امام الائمہ سراج الغمہ سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی المولی عنہ ارشاد فرماتےہیں کہ میں نے زندگی بھر اپنے استاذکے گھر کی طرف پیر نہیں کیئے،استاذکی عزت وتکریم کےحوالےسے بہت سے واقعات گزرےہیں،
استادہی وہ واحد شخص ہے جو اپنے سے نیچے والے شخص کو اوپر(کامیاب) پہنچاتاہے اور پھر خوش ہوتاہے مزید استاذکی یہ تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ اسکا شاگرد آسمان کو چھوئے، جو استاذ سچے معنوں میں محنت کرکے اپنے شاگرد کو کسی حقیقی مقام پر پہنچاتاہے وہی استاذ عزت ومقام بھیبحاصل کرتاہے شاگرد بڑا انسان بن کر جب استاذ کے پاس واپس آتاہے اور جب استاذ کے سامنےنہایت ادب کےساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے تو یہی بات استاذ کو بلندیوں پر لے جاتی ہے، ایک عام ٹیچرصرف پڑھاتاہے ایک اچھا ٹیچر اچھا سمجھاتاہے ،بہت اچھا ٹیچر ہوتو خود کرکے بتاتاہے لیکن ہمارے زندگی میں کچھ خاص ایسے ٹیچر ہوتے ہیں جو ہمیں زندگی بھر کے لئےانسپائریڈ(inspired) کرکے جاتے ہیں، (1)استاذ←بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی،
(2)استاذ- معاشرے کا نمک ہے جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باجود ذائقہ بدلنے کی حیثیت رکھتاہے
(3)استاذ۔- ایک ایسی شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے، (4)استاذ۔وہ ماں ہے جو سراسر محبت ہے جو خود ٹھنڈی جگہ لیٹ کر بچے کوخشک اور گرم بستر مہیا کرتی ہے،(5)استاذ۔شعور ذات کے سفر میں رہنمائی کرنے والا اور علم و دانش کا رکھوالا ہے ،استاذکی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
استاذ تو ہر دور میں انمول رہاہے
شاگرد اگر عظمت والے خاندان کاچشم وچراغ ہوگا تو پھر وہ ہمیشہ اپنے استاذ کو اچھائی کے ساتھ یاد کرتا رہے گا، اور اگر استاذ وصال فرما گئے تو وہ ہمیشہ اپنے
گھر کی طرح استاذ کے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرتارہے گا،
امیر المومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جن سے علم سیکھتے ہو ان سے ادب و عاجزی سے پیش آؤ، اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ زمانہءِ طالب علمی میں راقم الحروف اپنے تمام اساتذہ کرام کے ساتھ عاجزی اور ادب کے ساتھ ہی پیش آتارہاہے اور آئندہ بھی پیش آتارہےگا،
◆خاتمۂ بالخیر ایک سبق آموز واقعہ ◆
ایک استاد اپنے شاگردوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔ انہیں کلمہ "لا الہ الا اللہ” کا مفہوم اور اس کے تقاضے سمجھا رہے تھے۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے لیئے ایک طوطا بطور تحفہ لے کر حاضر ہوا۔ استاذ کو پرندے اور بلی پالنے کا بڑا شوق تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استاد کو اس طوطے سے بھی بڑی محبت ہوگئی۔ چنانچہ وہ اس طوطے کو اپنے درس میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ طوطا بھی "لا الہ الا اللہ” بولنا سیکھ گیا۔ پھر کیا تھا طوطا دن رات لا الہ اللہ اللہ بولتا رہتا تھا۔
ایک روز شاگردوں نے دیکھا کہ ان کے استاذ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں۔ وجہ دریافت کی گئی تو استاذ فرمانے لگے: افسوس! "میرا طوطا آج مر گیا” شاگردوں نے کہا: آپ اس کے لیے کیوں رو رہے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو ہم دوسرا اس سے خوبصورت طوطا آپ کو لا دیتے ہیں۔ استاذ نے جواب دیا: میرے رونے کی وجہ یہ نہیں۔ بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جب بلی نے طوطے پر حملہ کیا تو اس وقت طوطا زور زور سے چلائے جارہا تھا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ حالانکہ وہی طوطا اس سے پہلے لاالہ الا اللہ کی رٹ لگائے رہتا تھا۔ مگر جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو سوائے چیخنے اور چلانے کے کچھ اور اس کی زبان سے نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ "لا الہ الا اللہ” دل سے نہیں صرف زبان سے کہتا تھا۔
آگے استاد فرماتے ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی اس طوطے جیسا نہ ہو۔ یعنی ہم زندگی بھر صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہتے رہیں اور موت کے وقت اسے بھول جائیں اور ہماری زبان پر جاری نہ ہو ۔ اس لیے کہ ہمارے دل اس کلمے کی حقیقت اور اس کے تقاضے سے ناآشنا ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سارے طلباء بھی رونے لگے۔ سوچئے، کیا ہم نے بھی لا الہ الا اللہ کی حقیقت کو دل سے جانا اور سمجھا ہے؟یاد رکھئے،
آسمان پر جانے والی سب سے بڑی چیز اخلاص اور زمین پر اترنے والی سب سے بڑی چیز توفیق ہے۔ جس بندے کے اندر جتنا اخلاص ہوگا اسی کے بقدر اسے توفیق حاصل ہوگی۔قارئین کرام! اگرمیں یہ کہون تو بیجا نہ ہوگا کہ استاذ قوم کا محسن ہوتاہے، اور
استاذ قوم کی بقاء کا ضامن ہوتا ہےاستاذ آنے والی نسل کا لیڈر اور رہنما ہوتا ہے،ہم کو کو بلندیوں تک پہنچانے میں والدین کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کرام کا بھی بڑا کردار رہا ہے اللہ تعالی نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو بحیثیت معلم پیدا کیاہے،خودحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہےکہ میں لوگوں کے مابین معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے آپ کی دلی حسرت پوچھی گٸی تو آپ نے فرمایا ” کاش میں معلم ہوتا ،حضرت سیدنا امیرالمومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ کابھی فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا ہے میں اسے استاذ کا درجہ دیتا ہوں،علامہ اقبال فرماتے ہیں،استاذ دراصل قوم کے محافظ ہیں ،کیونکہ آٸندہ نسلوں کو سنوارنا اور ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔
*ایک استاذ نے اپنے شاگرد کو انوکھا سبق دیا*
ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لیئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے ۔ چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا ۔ صاف پتہ چل رھا تھا کہ کسی بڑے میاں کی ھے ۔ قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے ۔شاگرد نے جناب شیخ سے کہا : کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیں ۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیں ۔ وہ بزرگوار آ کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا رد عمل دل چسپی کا باعث ہو گا شیخ کامل نے کہا : بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیں ۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیں ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو اپنے لیئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لیئے بھی ۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں رکھ دو ۔پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے
کام ختم ہوا ۔ بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا تب پاؤں سے جو سکے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا جو اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آگئے ۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے بھی سکے کھنکتے باہر آگئے ۔
اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیں ۔ دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیں ۔ یقین ہو جاتا ھے کہ خواب نہیں تو آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں ۔ بڑے میاں سجدے میں ہو جاتے ہیں :استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیں ،میرے مولا میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ۔ تو میرا کتنا کریم رب ہے ۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ھے ۔ بچے بھی بھوکے ہیں۔ مزدوری بھی مندی جا رہی ھے ۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی ۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا ۔ کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا ، ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا استاد محترم ۔ آپ کا آج کا سبق کبھی نہیں بھول پاؤں گا ۔ آپ نے مجھے مقصد زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ھے۔ شیخ جی نے موقع مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائیبیٹا ۔ صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ
باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا عطاہے،
اخیر میں اپنے تمام اساتذہِ کرام کو تہہ دل سے سلام پیش کرتاہوں جن کی محنت، شفقت اور عنایت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام اور عزت عطاکی
سلام ٹیچرز ڈے، سلام یوم اساتذہ -اور اللہ تعالی سے دست بدعاہوں کہ مولی تعالی ہمارے جملہ اساتذہ کرام کوجملہ آفات وبلیات سے محفوظ ومامون عطافرما۔انکے عمرمیں رزق میں، گھر میں مکان میں بےپناہ رفعتیں برکتیں رحمتیں نازل عطافرما،
آمین یارب العالمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم