سحری کی سنت اور اسلام کا معتدل مزاج

روزہ پر اجر اور ثوابِ عظیم کا وعدہ اس لیے بھی ہے کہ یہ ایک بہت مشقت اور خاصے تحمل و برداشت اور محنت کی عبادت ہے، صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی خواہش کے تقاضے پر عمل کرنے سے اپنے کو روکے رکھنا زیادتی ثواب کا باعث بنادیتا ہے یہ خداوندِ عالم کی خاص رحمت اور خصوصی مہربانی ہے کہ اس نے سحری کی ثواب اور عبادت بناکر ضعیف انسانوں پر خاص انعام فرمایا اور سحری کھانے پر ثواب میں کمی تو کیا ہوتی اور زیادہ ثواب کا وعدہ فرمایا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِيْ السُّحُوْرِ بَرَکَۃً۔{بخاري بَاب بَرَكَةِ السَّحُورِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ}
سحری کھاؤ، سحری کھانے میں برکت ہے
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں ارشاد فرمایا اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ
{سُنن النسائی،کتاب الصیام}
ترجمہ:بے شک یہ برکت جو اللہ نے تُم لوگوں کو عطا کی ہے لہذا اسے چھوڑو نہیں
حتی کہ حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ {صحیح ابن حبان،کتاب الصوم،باب السحور}
 ترجمہ:سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو،ایک اور جگہ حضرت عبداللہ ابن عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إنَّ اللَّہ و ملائِکتہ یصّلُونَ عَلی المُتسَحَرِینَ {صحیح ابن حبان،کتاب الصوم، باب السحور}
 ترجمہ:بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا کرتے ہیں،سحری‘‘ کھانے پر بہت ساری احادیث میں فضائل وارد ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ بدر الدین عینیؒ نے تقریباً سترہ (۱۷) صحابہؓ سے اس کی مفضیلت پر احادیث نقل فرمائی ہیں اور اس کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری)
 اِن احادیث شریفہ سے پتہ چلا کہ سحری کھانا برکت ہے، اور جان بوجھ کر رات ہی میں کھانا کھا کر سجانا اور سحری چھوڑنا نہ صرف سنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اغیار کی نقالی بھی ہے یہاں تک ارشاد ہے کہ سحری اہل کتاب اور اہل اسلام کے درمیان حد فاصل ہے چنانچہ
 حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ؛اَکلَۃ السَّحَرِ {صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٦}
 ترجمہ:ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے
 سحری کے سات فائدے
 علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:(1)اتباع سنت
 (2)مخالفت اہل کتاب
 (3)عبادت میں قوت کا حصول
 (4)چستی اور نشاط
 (5)بری عادتوں کا دفاع
 (6)صدقہ کا سبب
 (7)ذکر اور دعا کا سبب اس لیے کہ سحری کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے
سحری کھانے میں بے اعتدالی
مذہب اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے نہ سحری چھوڑنا اسلام میں پسندیدہ ہے، اور نہ ہی سحری میں مقصد روزہ تقوی کو فراموش کرنا کوئی اچھا عمل ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ سحری کے سلسلے میں ایک طرف بہت سے احباب حد درجہ تفریط میں مبتلا ہیں تو وہیں دوسری طرف لوگ افراط کے شکار بھی ہیں کہ عین قبولیتِ دعا کے موقع پر مکمل وقت سحری کی نذر کردیتے ہیں، یا یہ کہ اذان تک سحری چلتی ہی رہتی ہے یہ دونوں چیزیں ناپسندیدہ اور اسلام کے مزاج اعتدالی کے مخالف ہے
نیز ایک عام غلطی سماج یہ پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص کی کسی دن سحری چھوٹ جائے تو وہ روزہ ہی چھوڑ دیتا ہے تو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ سحری کا کھانا صرف مستحب و افضل ہے، روزہ کی شرط نہیں ہے اور نہ ہی سحری کا چھوٹ جانا روزہ کے قضا کردینے کے لیے کوئی شرعی عذر ہے؛اس لیے سحری کے فوت ہوجانے کی وجہ سے روزہ کو ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے،بلکہ بغیر سحری کھائے بھی روزہ کا رکھنا فرض اور لازم ہے۔
نیز ایک عام برائی ہمارے معاشرے میں یہ بھی پائی جاتی کہ سحری کھاکر لوگ اکثر سوجاتے ہیں اور فجر کی نماز کے لیے آنکھ نہیں کھلتی، یا پھر اکثر ایسے وقت پر آنکھ کھلتی ہے کہ جماعتِ فجر ہو چکی ہوتی ہے اور بعض مرتبہ تو وقتِ فجر ہی باقی نہیں رہتا اور سورج نکل چکا ہوتا ہے۔ جہاں یہ بہت بڑی غلطی ہے وہیں نعمتِ خداوندی کی سخت نا قدری بھی ہے؛اس لیے سحری کھا کر فجر کی نماز ادا کئے بغیر ہرگز نہیں سونا چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کی صحیح قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے مزاج اعتدال کے موافق ہمیں اپنے اعمال کو سدھارنا نصیب فرمائے
Exit mobile version