عربی کا ایک مقولہ ہے:إذا کانت الأنفاس بالعدد، ولیس لہا مدد، فما أسرع ما ینفد(جب زندگی بھر کی سانسیں گنی چنی ہیں اور ان میں اضافہ کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے توپھر ان کو گزرتے ہوئے دیرہی کتنی لگتی ہے) یقیناً یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ہر جاندار کے صبح و شام، ماہ وسال گنے چنے ہیں، بلکہ انسان کی برتھ سر ٹیفکیٹ ہی اس کی وفات کا گوشوارہ بھی ہے، جس پر اس کی مقرر شدہ زندگی کا ہر لمحہ درج ہوتا رہتا ہے اور ہر دن زندگی کا ایک ایک صفحہ اُلٹتا رہتا ہے،حضرت مولانا سیدمناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کے بقول ” دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جسے زندگی کا روگ لگا ہواور پھر وہ نہ مرا ہو، جس کو یہ لگ گیا اس کو بہرحال مرنا ہی ہے،“۔﴿کل نفس ذائقة الموت﴾ (ہر جاندارکو موت کا مزا چکھنا ہی ہے)
لیکن آہ!!! سعود مرحوم کی جدائی کا غم اور مفارقت کا داغ ایک ایسا المناک سانحہ بن کر دماغ پر نقش ہوگیا ہے کہ ایک جوان العمر نیک، صالح، ملنسار بے ضرر شخص کہ قدرت نے جسکی عمر میں صرف بیس بہاریں ہی لکھیں تھیں،اچانک ایک جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر اپنے والدین بھائیوں، بہنوں اورسینکڑوں ساتھیوں اوراساتذہ کو سوگوار چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمی
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کِھلا ضرور مگر کِھل کر مسکرا نہ سکا
مرحوم کا تعلق حیدرآباد کے ایک علمی و روحانی گھرانہ سے تھا، مرحوم بانی مدرسہ فیض العلوم حضرت حاجی احمد عبد الستار صاحب نور اللہ مرقدہ کے فرزند ارجمند، حضرت باندوی و جونپوری رحمھمہا اللہ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا احمد عبد اللہ طیب صاحب مدظلہ العالی کی بڑی صاحبزادی کے لائق و ہونہار فرزند تھے،پاکیزہ اخلاق،نیک صفت ،لائق و قابل ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ ملنساری،مہمان نوازی، بردباری کے اعلی اوصاف سے متصف تھے، ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد میں کچھ سال مرحوم نے قرآن مجید حفظ کیا پھر ایس ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے انٹرمیڈیٹ کا امتحان لکھا ہی تھا کہ کرونا مہاماری کے چلتے لاک ڈاؤن ہوگیا اور اسکے معا بعد یہ ناقابل برداشت سانحہ پیش آیا ایسے جوان العمر نیک صالح شخص کا چلا جانا یقینا ایک سانحہ ہے اور ایسا سانحہ جو آنکھوں کو اشک بار اور دل کو غمزدہ کردیتا ہے،
مرحوم سے راقم الحروف صرف ایک بار ملاقات ہوئی،
ہم میں سے کسی نے شاید یہ تصور نہیں کیا تھا وہ اس قدر جلد ہمیں داغِ مفارقت دے جائیں گے، اہل خانہ اپنے جوان العمر نیک صالح فرزند کی جدائی پر انتہائی غمزدہ ہیں انتہائی صبر کے بعد بھی بار بار صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگتا، اور آنکھیں اشک بار ہوجاتیں، گویا ایسا لگ رہا تھا کہ سخت آزمائش سے نہ پاؤں تلے زمین باقی ہے اور نہ سر کے اوپر آسمان
بلکہ ذہن ودماغ کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہوگیا ہوگا کہ اہل و عیال ایک جواں سال اور باکمال لاڈلے کو سپرد خاک کریں یا خود زندہ درگور ہوجائیں، لیکن یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اللہ کی طرف عود کرجانا ہے اور اسی نے اپنی حکمت ومصلحت سے جوان العمر سعود کو ہم سے جدا کردیا ہے۔ ہمارا حال اس حادثہ پر وہی ہونا چاہیے جو حبیب کبریا، احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے معصوم بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا اور زبان مبارک پر غم واَلم کے اظہار کے ساتھ تسلیم ورضا کے یہ کلمات جاری تھے: ان القلب لیحزن و إن العین لتدمع ولا نقول إلا ما یرضی اللّٰہ سبحانہ وإنا لفراقک یا إبراھیم لمحزونون(دل غموں سے نڈھال ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، لیکن زبان سے ہم صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں جو اللہ کو پسند ہے، اے ابراہیم تمہاری جدائی پرہم سبھی مغموم ہیں۔)
یہ محض آخرت کی زندگی پر ایمان ویقین کا کرشمہ ہے کہ آدمی تلخ سے تلخ تر گھونٹ پی جاتا ہے اور تسلیم ورضا اور صبر واحتساب کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوڑتا، اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو مصیبت اور حادثہ پیش آتا ہے وہ پہلے سے نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہوتا ہے، موت وقت سے پہلے نہیں آتی اور نہ اس کو اس کے وقت سے ٹالا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی بات کا فیصلہ کرلے تو اللہ کے علاوہ کوئی اسے ٹال نہیں سکتا، ساری کائنات مل کر بھی اللہ کا اگر فیصلہ نہ ہو تو ایک ذرہ کا فائدہ پہنچا سکتی ہے، نہ کسی کا ایک بال بیکا کرسکتی ہے، آخرت کی زندگی دنیا سے بہتر ہے، جنت کی نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔
وہ جناب ظفر صاحب زید مجدہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، مولانا احمد عبد اللہ طیب صاحب مدظلہ کے انتہائی چہیتے تھے، تین سال سے پابندی کے ساتھ ہر رمضان اعتکاف کررہے تھے،قرآن مجید سے بے انتہا شغف تھا اپنے ماتحتوں کے ساتھ انکا رویہ انتہائی مشفقانہ اور رحمدلانہ تھا، اپنے بڑوں کا ادب و احترام حد درجہ تھا، بڑے بول سے ہردم محتاط رہتے تھے، مجھے ایک قریبی نے اطلاع دی کہ انکا نکاح بھی طئے ہورکھا تھا لیکن مقدر میں شاید یہ لکھا تھا کہ اس دنیا سے پاکیزہ اور عفیف جنت جنت کی طرف چلے جائیں، اور وہاں جنت کی حوریں انکا استقبال کریں، مجھے رہ رہ کر میرے والد محترم کے سرپرست اور ہم سب کے مربی مولانا احمد عبد اللہ طیب صاحب مدظلہ کا صبر کا اندازہ ہورہا ہے،ضعف و نقاہت اور پیرانہ سالی کے اس دور میں جواں مرگ نواسہ کی موت سے دل کس قدر بوجھل ہوگا، جبکہ وہ لاڈلا بھی ہو،چہیتا بھی ہو، فرمانبردار بھی ہو، لائق و قابل بھی ہو، نماز جنازہ پڑھاتے پڑھاتے زار وقطار روتے رہے، دعا کرتے ہوئے صبر پیمانہ لبریز ہوکر رخسار آنسوؤں سے شرابور ہوچکی تھی، زبان جواب دے گئی تھی، گویا حال دل یہ کہہ رہا تھا :اگر گویم زباں سوزد نہ گویم مغز استخواں سوزد“ایسے جواں مرگ بیٹے کی موت پر صبر ورضا کا دامن تھامے رکھنا بھی رب غفور ورحیم کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
20 جنوری 2022 صبح نو بجے مسجد قطب شاہی مصری گنج چندو لال بارا دری میں مولانا احمد عبد اللہ طیب صاحب مدظلہ نے نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی شہر بھر سے سینکڑوں علماء و حفاظ اور سفید پوش افراد کا قافلہ امنڈ آیا، بطور خاص مولانا محمد بانعیم صاحب امام مسجد رحمن جدہ، مولانا عبد الرب صاحب ،مولانا ولی الدین صاحب، مولانا احمد عبید الرحمن اطہر صاحب، مولانا حافظ مقصود احمد طاهر صاحب ،اور دیگر کئی ایک علماء نے شرکت کی اور رنگریز قبرستان مصری گنج میں تدفین عمل میں آئی
دل میں حسرت اس غنچہ کی ضرور ہے جو بن کھلے مرجھا گیا لیکن سعود مرحوم کی موت نے یقیناً ایک پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور وقت مقررہ کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملتی، اس لیے اس وقت سے پہلے کہ ہمارا نامہ اعمال بھی بند ہوجائے اور موت کسی بہانے سے ہمیں بھی اپنے شکنجے میں لے لے ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے
ہماری دعا تو یہی ہے کہ اے اللہ! ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جن کا تحمل ہم نہ کرسکتے ہوں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں عفو سے بہرہ ور فرما اورجانے والے کو فردوس بریں میں جگہ دے اسے اس کے ماں باپ کے لیے ذخیرہ آخرت کی حیثیت سے قبول فرما اور پورے اہل خانہ اور متعلقین کو ھم وحزن سے نجات عطا فرما
آمین بجاہ سید المرسلین