نئے سال کی آمد کا جشن اور اسلامی تعلیمات

دسمبر کی 31 اور جنوری کی پہلی تاریخ کی رات کو گھڑی میں جیسے ہی 12 بجتے ہیں ، پوری دنیا میں سال نو کا جشن منایا جاتا ہے ، New year celebrate کیا جاتا ہے ، ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی جاتی ہے ، 31 /دسمبر کی شام سے ہی دنیا کے بڑے شہروں کے مختلف پارکوں اور عوامی مقامات پربھاری تعداد میں مرد وخواتین ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں ،رات کو11:59کے بعد جیسے ہی گھڑی میں 12:00بجتے ہیں ، شور ، ہنگامہ ، چیخ و پکار کا ایک طوفان بدتمیزی شروع ہوجاتا ہے ، پٹاخوں سے پورا شہر گونج اٹھتا ہے ، گانے بجانے ، رقص سرود ، ڈانس اور ناچ کا درو شروع ہوتا ہے ، شرابیں پی جاتی ہیں ، نشہ کیا جاتا ہے ، گاڑیوں کی ریسنگ کی جاتی ہے ، اجنبی نوجوان لڑکے ، لڑکیاں ، مرد وخواتین ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں ، چمٹتے ہیں لپٹتے ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں ، جشن مناتے ہیں ، ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ،Happy new year کہتے ہیں ، بے حیائی اور فحاشی کی تمام حدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ لاکھوں ، کڑوروں نہیں بلکہ اربوں اور کھربوں کی تعداد میں اس جشن پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے ، مال کی تباہی و بربادی کے ساتھ اس جشن میں عفت و عصمت بھی تار تار ہوتی ہے اور بڑی تعداد میں جان کی بھی ہلاکت ہوتی ہے جیسا کہ دوسرے دن کے اخبار سے معلوم ہوتا ہے ۔
وہ قومیں جو اللہ اور رسول پر ایمان نہیں رکھتیں ، نہ انہیں کسی خدا کا خوف ہے اور نہ ہی مرنے کے بعد کی زندگی کا ڈر ، وہ اگر یہ بیہودہ حرکتیں کریں تو کئی تعجب کی چیز نہیں ؛ لیکن تعجب بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سے ہمارے مسلمان مرد وخواتین اور مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس لعنت کے شکار ہیں ، بلکہ بعض مسلم ماڈرن طبقہ اس طرح کی تقریبات اورCelebrationمیں شرکت کو باعث افتخار اور علامت تہذیب سمجھتا ہے ، اسے مہذب ، شریف اور تعلیم یافتہ حضرات کی تہذیب سمجھا جاتا ہے ، ایسے حضرات اس طرح کی تقریبات میں شرکت کرکے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اور جو حضرات ان میں شرکت نہیں کرتے ، انہیں معاشرتی طور پر کمتر ، جاہل ، فرسودہ اور پرانے یعنی بے کار خیالات کا سمجھا جاتا ہے ؛ حالانکہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ ہم ایسی قوم کی تہذیب کو خوشی سے گلے لگار ہے ہیں ، اس پر ناز کررہے ہیں ، اسے بلند معیار زندگی تصور کررہے ہیں ، جو قوم ہم مسلمانوں سے دشمنی رکھتی ہے ، ہمارے دین ، ہماری تہذیب اورہمارے نبی ﷺکی دشمن ہے، ایسی قوم کی تہذیب اور کلچر کو ہم اختیار کررہے ہیں ، جسے ہمارے ہرایک طریقہ اور تہذیب سے نفرت ہے ، چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتے ہیں : سنو تم اے مسلمانوں! یہ (یہود ونصاری)وہ لوگ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہیں ؛لیکن یہ تم سے محبت نہیں رکھتے ۔اور آگے اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ تمہارے خلاف ان کے دلوں میں اتنا غیض و غضب بھرا ہوا ہے کہ یہ تنہائی میں غصہ سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران/ 119)ہم روزانہ ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم سورہ فاتحہ کی یہ آیت پڑھتے ہیں : اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا ، جن پر آپ نے انعام کیا ہے ، ان کے راستے پر نہ چلا ، جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور جو گمرا ہ ہیں ، اور راجح قول کے اعتبار سے ان دونوں سے مراد یہود ونصاری ہیں ، تو نماز میں تو ہم یہ دعا مانگتے ہیں ؛ لیکن عملی زندگی میں نہ صرف ان کی تہذیب و تمدن کو اپنا رہے ہیں ؛ بلکہ اسے ہی تہذیب سمجھ رہے ہیں اور باقی یعنی اپنی اسلامی تہذیب کو معاذ اللہ فرسودہ خیالات کی حیثیت دے رہے ہیں ، ہمیں شاید اللہ کا دیا ہوا نظام پسند نہیں ، ہمارے نبی کا زندگی گزارنے کا پیارا طریقہ اچھا نہیں لگتا ، افسوس! اسلام کے دشمن ، اللہ کے دشمن ، قرآن کے دشمن ، رسول کے دشمن اور کعبہ کے دشمن کی تہذیب تو ہمیں تہذیب لگ رہی ہے اور پیارے نبی ﷺ کا پیارا نظام پرانی باتیں لگ رہی ہیں۔
بہت سے مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہم خوشی منائیں ، جشن منائیں ، پٹاخے پھوڑیں ، ایک دوسرے کو مبارکباد دیںتو اس میں شریعت کے خلاف کیا چیز ہے ، کیا اسلام خوشی اور جشن منانے سے روکتا ہے ، یہ سوالات کسی کے بھی ذہن میں آسکتے ہیں ؛ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان تمام سوالات کے صحیح جوابات ہمیں کہاں تلاش کرنے چاہیے ؟کسی فلاسفر کے فلسفہ میں ، کسی سائنس دان کی تھیوری میں ، کسی ڈرامہ نگار کی کہانی میں یا پھر اللہ کی کتاب ، اللہ کے نبی کی مبارک احادیث اور ان کی اور ان کے صحابہ کی زندگی میں ؟ظاہر کسی بھی مسلمان کا جس کے دل میں ایمان ادنی حیثیت میں بھی ہو ، اس کا آخری جواب ہی ہوگا تو چلیں ہم قرآن میں دیکھتے ہیں ، قرآن عزیز میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور یہ اسی دن سے ہے جب سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہوئی ہے ۔یعنی دنوں ، ہفتوں ، مہینوں اور سال کی تعداد کوئی نئی چیز ، نیا فلسفہ اور نئی سوچ اور ایجاد نہیں ہے ، بلکہ یہ سب اللہ کابہت قدیم نظام ہے تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے انبیاء علیہم السلام نے New year celebrate کیا ہے ، اس دنیا کے سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی ، جنہوں نے انسانی دنیا کا سب سے پہلا نیا سال دیکھا یعنی حضرت آدم علیہ السلام ،کیا انہوں نے یہ جشن منایا تھا ، پوری انسانی تاریخ کا سب سے پہلا نیا سال انہوں نے ہی دیکھا تھا ، آگے چل کر کیا حضرت نوح ، ادریس ، شیث ، لوط ، سلیمان ، داؤد، یحیی ، زکریا ، ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، موسی اور عیسی وغیرہ علیہم الصلاۃ والتسلیم نے یہ جشن منایا تھا ، چلو انہیں بھی چھوڑیں ، یہ تو پہلے کے نبی ہیں ، ہم جن کے نام لیوا ہیں ، جن کے امتی ہیں ، ہمارے رسول ﷺ کی پوری زندگی دیکھ لیں ، صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کی تمام زندگی دیکھ لیں کیا انہوں نے یہ جشن منایا تھا ؟؟نہیں نہیں نہیں ، تو پھر ہمیں کس نے جائزکا سرٹیفکٹ دیا ، ہم اللہ اور اس کے رسول کے سرٹیفکٹ کو مانیں گے یا یہود ونصاری کے ؟
نبی پاک ﷺ کی زندگی میں ایک عمل ملتا ہے کہ آپ پورے اہتمام کے ساتھ مہینہ کے اختتام پر چاند دیکھتے تھے اور اگر چاند نظر آجاتا تو یہ دعا پڑھتے تھے : اے اللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن و ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ نکال ۔یعنی یہ جو مہینہ آرہاہے ، اس میں امن و سلامتی عطافرما اورہمارے ایمان اور اسلامی کی حفاظت فرما، ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ،اللہ کے نبی ﷺنے مہینہ کے اختتام پر امن وسلامتی اوردین و ایمان کی حفاظت کی دعا مانگی ہے ، جبکہ اب سال نو کے آغاز پر امن وامان کو تباہ اور دین وایمان کو پامال کیا جاتا ہے ، تمام کی تمام غیر دینی اور غیر ایمانی حرکتیں کی جاتی ہیں ۔
اسلام میں اجتماعی خوشی اور جشن منانے کی صرف دو موقعوں پر اجازت ہے : ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحی ، اس کے علاوہ خوشی منانے کے بہت سے موقعہ ہیں ، اگر عقل کا فیصلہ مانا جائے تو ان موقعوں پر بھی خوشی منانی چاہیے، جیسے جس دن قرآن کا نزول شروع ہوا ، جس دن نزولِ قرآن کی تکمیل ہوئی، جس دن ہمارے نبی ﷺ کی ولادت شریفہ ہوئی ، جس دن اسلام مکمل ہوا ، جس دن مکہ فتح ہوا ،وغیرہ وغیرہ، لیکن ہم عقل کے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں ، اللہ نے ان دو موقعوں کے علاوہ کسی تیسرے موقع پر اجتماعی خوشی منانے کی اجازت نہیں دی ہے اور سال نو کا جشن تو دور کی بات ہے ، سال نو کا تصور بھی پورے اسلام میں کہیں نہیں ہے ۔
اسلام خوشی منانے سے روکتا نہیں ہے ، لیکن ایک مسلمان کو کب اور کس طرح ، کن حدود اور شرائط کے ساتھ خوشی منانی ہے ، یہ یہود ونصاری طے نہیں کریں گے ، بلکہ اسلام طے کرے گا، سال نو کا جشن جس میں نہ صرف اسلامی اقتدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ، بلکہ عقل کی نگا ہ سے دیکھیں تو ان میں سے بیشتروہ کام ہیں جو انسانیت کے خلاف ، لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نقصان دہ ، ملک اور قوم کی اقتصادی تباہی کا سبب ہیں ۔
یہ تمام فحاشی اوربے حیائی مغرب سے Importہوئی ہیں ، یہ یہود نصاری کی لعنت ہے ، مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ ہمیں اس لعنت کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں ، قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : اے ایمان والوں یہود ونصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوسکتے ہیں،تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا ، وہ انہی میں سے شمار کیا جائے گا۔(سورہ مائدہ ؍51) یعنی کل قیامت کے دن اس کا حشر یہود ونصاری کے ساتھ ہوگا ، نبی پاک ﷺ کی مبارک حدیث میں بھی یہ دھمکی اور وعید ملتی ہے ، چنانچہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔(ابو داؤد؍4031)ایک دوسری حدیث میں حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں:جس نے ہمارے علاوہ کسی کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میںسے نہیں ، تم یہود ونصاری کی مشابہت اختیار مت کرو۔ ۔ (ترمذی؍ 2695) لہذا ہمیں اس لعنت کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، خود بھی اس سے پرہیز کریں اور اپنے نوجوان بچوں اوربچیوں کو بھی اس سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کریں ۔
سال کا اختتام اور نئے سال کی آمد ہمیں محاسبہ کی دعوت دیتی ہے ، یہ لمحہ فکر ہے اور خوشی نہیں بلکہ غم منانے کا موقع ہے ، احتساب کی گھڑی ہے ، اس بات کا احتساب کہ ہماری قیمتی زندگی کا ایک سال گزر گیا ، اللہ کی طرف سے ہمیں جتنی عمر ملی ہے ، اس میں سے ایک سال اور کم ہوگیا ہے ، ہم اپنی آخری زندگی کہ ایک سال اور قریب ہوگئے ، ہم موت سے مزید ایک سال نزدیک ہوگئے ، لہذا اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا عقل مندی نہیں بلکہ حماقت ہے ، جیسے اگر کسی مجرم کو ہندوستان کے کسی شہر سے پھانسی پر لٹکانے کے لیے ٹرین سے دہلی لے جایا جارہا ہو اور بیچ میں کئی اسٹیشن آتے ہوں تو جب کوئی اسٹیشن آئے تو کیا اس اسٹیشن پر لوگ جمع ہوکر اس کو مبارکباد دیں گے کہ تم اپنی موت کی جگہ یعنی دہلی سے ایک اسٹیشن اور قریب ہوگئے ہو ، کیا اس موقع پر اسے Happy new stationکے ذریعہ مبارکباد دی جائے گی تو جس طرح یہ غم کا موقع ہے کہ ہر آنے والا اسٹیشن اسے یہ احساس دلا رہا ہے کہ وہ دہلی یعنی اپنی موت کے قریب ہورہا ہے اور اس موقع پر خوشی منانا اور مبارکباد دینا سراسر حماقت ہے ، اسی طرح ہر نیا سال اس بات کا پیغام لے کر ہماری زندگی میں آرہا ہے کہ ہم اپنی موت اور قبر کے اور قریب ہوگئے ، ہماری عمر کا ایک سال اور کم ہوگیا ، شاعر نے اسے اچھے انداز میں کہا ہے :
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے ٭نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک
لہذا نئے سال کے موقع پر ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی کا ایک سال بہت سے گناہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیوں میں گزرگیا ، ہمیں اس پر ندامت ہونی چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ سال کے لیے عزم کرنا چاہیے کہ اپنی زندگی کے رخ کو موڑیں گے اور اللہ کے راستہ پر چلیں گے ، نیا سال ہمارے لیے باعث جشن نہیں بلکہ لمحہ فکریہ اور وقت عبرت و نصیحت ہونا چاہیے ، اللہ تعالی اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں :اللہ دن اور رات کو بار بار لاتے ہیں ، یقینا اس میں بصیرت والوں کے لیے عبرت ہے۔(سورہ نور / 44 )ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مشہور بزرگ حضرت فضیل بن عیاضؒ کہیں تشریف لے جارہے تھے ، راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ، اس سے دریافت کیا کہ تمہاری عمر کتنی ہے تو اس نے جواب دیا کہ 60سال ، حضرت فضیل بن عیاضؒ نے فرمایا : تم 60سال سے اللہ کی طرف اور قبر کی طرف جارہے ہواور عنقریب پہنچنے والے ہو ، یہ سنکر اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: انا للہ و انا الیہ راجعون ، اسے عبر ت ہوئی اور اس نے ان سے پوچھاکہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے تو حضرت فضیل نے اس سے کہا کہ زندگی کا جو حصہ باقی ہے اسے اللہ کی فرمانبرداری میں لگادو، اللہ پچھلے گناہ بھی معاف کردے گا۔
مسلمان اور دیگر اقوام کی زندگی گزارنے میں فرق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہود ونصاری اور بہت سی قوموں نے ڈارون کے نظریہ ترقی کو اپنایا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پہلے جانور اور بندر تھے ، ترقی کرکے انسان بن گئے ، لہذا اس سوچ کا اثر ان کے اعمال میں ہونا ضروری تھا اسی لیے وہ جانوروں والے کام کرتے ہیں ، لیکن مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہم آدم کی اولادہیں ، لہذا ہمیں آدم ، آدمی اور انسان والے ہی کام کرنے چاہیے اور دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر اقوام کا نظریہ ہے کہ قدرت نے انہیں یہ زندگی انجوائے کرنے کے لیے دی ہے ، چنانچہ وہ Life for enjoyکے قائل ہیں اور اسی لیے دنیا میں جائز ناجائز ، قانونی غیر قانونی ، اور صحیح و غلط جشن منانے ، خوشیاں منانے اور Enjoyکرنے کے تمام راستے اور طریقہ بلا کسی خوف اور ڈر کے اپناتے ہیں ۔ جبکہ مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ،ہم یہاں جیسی کھیتی لگائیں گے ، کل آخرت میں ویسے ہی پھل پائیں گے، ہم Life for enjoyکرنے کے لیے نہیں آئے ، بلکہ اپنی آخرت بنانے کے لیے آئے ہیں ، یہ دنیا ہمارے لیے امتحان گاہ ہے اور امتحان گاہ میں دوران امتحان Enjoyنہیں کیا جاتا،یہ دنیا Destinationنہیں ؛ بلکہStationہے، لہذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس کا محاسبہ کرنا چاہیے اور اس طرح کی تمام تقریبات سے گریز کرنا چاہیے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ کی پیشی میں لائے جائو گے، پھر ہرشخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔(سورہ بقرہ آیت؍281)

Exit mobile version