سال دو ہزار بائیس ختم ہوکر ۲۰۲۳ کاآغاز ہونے والا ہے۔چاند سورج کی یہ گردش قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔اللہ تعالی نے دن رات کی تبدیلی اور ماہ وسال کی آمد ورفت کے ذریعے بھی جہاں اپنی قدرت کا نمونہ پیش کیا ہے وہیں یہ انسانوں کے لئے سبق اور پیغام بھی ہے۔اس کے ذریعہ بھی اللہ تعالی انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔قرآن کریم میں فرمایاگیا:ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلمواعددالسنین والحساب ماخلق اللہ ذلک الابالحق یفصل الاٰیٰت لقوم یعلمون ان فی اختلاف الیل والنہار وماخلق اللہ فی السموت والارض لاٰیٰت لقوم یتقون۔( یونس:۵۔۶)’’اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپاروشنی بنایا،اور چاند کو سراپانو،اور اُس کے (سفر) کے لئے منزلیں مقررکردیں،تاکہ تم برسوں کی گنتی اور( مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا۔وہ یہ نشانیاں اُن لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے رات دن کے آگے پیچھے آنے میں اور اللہ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے،اُن لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے۔‘‘
سال کا اختتام اور نئے سال کی شروعات انسانوں کے لئے نہایت اہم ہے ،کیوں کہ ماہ وسال کی تبدیلی سے صرف کیلنڈر کے اوراق تبدیل نہیں ہوتے اورنہ ہی صرف ہندسوں میں فرق پڑتا بلکہ انسانی زندگی پر اثر پڑتا ہے اس کی زندگی کے ایام بھی ختم ہورہے ہوتے ہیںاورحیات ِ مستعار کے لمحات بھی تیزی کے ساتھ کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔نئے سال کے آنے سے انسان کی عمر بڑھتی نہیں ہے بلکہ گھٹتی ہے،اس کی مدت ِ حیات میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کمی ہوتی ہے۔اس دنیا میں انسان کو بے مقصد نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی ہمیشہ کے لئے وہ دنیا میںرہنے کے لئے آیا ہے۔عقل مند اور دانا وہ ہے جو ماہ وسال کی آمد ورفت سے عبر ت حاصل کرے اور زندگی کے باقی ایام کو غنیمت جانتے ہوئے قدر کرنے والا بنے۔تاکہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہواور آخرت کی نجات بھی حاصل ہو۔نئے سال کے آغاز کے موقع پر چند باتیں یاد رکھنی ضروری ہیں ،تاکہ سال ِنوکاہم صحیح استقبال کرسکیں اور اس کو اچھے انداز میں گزارسکیں۔
زندگی فانی ہے:
پہلی چیز یہ ہے کہ دنیا کی زندگی فانی ہے ،یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے انسان کو نہیں بھیجا گیا،ایک نہ ایک دن اسے یہاں سے رخصت ِ سفر باندھ کر آخرت کی طرف روانہ ہونا ہے۔ہر پیدا ہونے والا انسان ایک دن ضرور موت کے گھاٹ اترے گا۔قرآن کریم میں فرمایاگیا:قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملقیکم ثم تردون الی علم الغیب والشہادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون۔( الجمعۃ:۸)’’جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے آملنے والی ہے،پھر تمہیں اُس ( اللہ ) کی طرف لوٹایاجائے گاجسے تمام پوشیدہ اور کھلی ہوئی باتوں کا علم ہے،پھروہ تمہیں بتائے گاکہ تم کیاکچھ کیاکرتے تھے۔‘‘اور قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا:کل نفس ذائقہ الموت۔(ال عمران :۱۸۵)ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘اور ایک مقام پر تو یہاں تک فرمایاگیا:این ماتکونوا یدرکم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ۔(النساء:۷۸)’’ تم جہاں بھی ہوگے( ایک نہ ایک دن ) موت تمہیں جاپکڑے گی ،چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔‘‘
موت کو یاد رکھنااور اپنی زندگی کے ایک دن ختم ہوجانے کے احساس کو تازہ رکھنا انسان کے لئے بہترین عبرت کا ذریعہ ہے۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:لذتوں کو توڑنے والی چیزیعنی موت کو کثرت سے یاد کیاکرو۔اس لئے کہ جو بھی اسے تنگی کے زمانہ میں یاد کرے گا تو اس پر وسعت ہوگی( یعنی اس کو طبعی سکون حاصل ہوگا کہ موت کی سختی کے مقابلہ میں ہر سختی آسان ہے) اور اگر عافیت اور خوش حالی میں موت کو یاد کرے گا تو یہ اس پر تنگی کا باعث ہوگا۔( یعنی موت کی یاد کی وجہ سے وہ خوشی کے زمانہ میں آخرت سے غافل ہوکر گناہوں کا ارتکاب سے بچا رہے گا۔( المعجم الاوسط للطبرانی:۸۷۸۴)
حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ موت نصیحت کا انتہائی موثر ذریعہ ہے لیکن اس سے غفلت بھی بہت زیادہ ہے ۔موت وعظ کے لئے کافی ہے اور زمانہ لوگوں میں جدائی پیدا کرنے کے لئے تیار ہے۔آج جو لوگ گھروں میں ہیں وہ کل قبروں میں ہوں گے۔( اللہ سے شرم کیجیے:۱۹۴)غرض یہ کہ انسان ایک دن مرنے کے لئے پیدا ہوا ہے اور اسے آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کے لئے دنیا سے جانا ہے۔جس کو یہ احساس ہوگا اور وہ اپنی زندگی کو عارضی اور فانی سمجھے گا تو پھر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی فکر وکوشش کرے گااور دائمی گھر کو آباد کرنے اور وہاں کی نعمتوں کا حق دار بننے کے لئے محنت کرے گا۔غفلت کے ساتھ اپنے شب وروز کو بسر نہیں کرے گا بلکہ اس کو ہر وقت اپنی اگلی منزل کی فکر ہوگی ۔
مقصد ِ حیات:
دوسری چیز اللہ تعالی نے یہ وسیع وعریض کائنات بے مقصد نہیں بنائی ۔اس میں انسانوں کو بھیج کر انسانوں کی پیدائش کا مقصد بیان کیاکہ :وماخلقت الجن والانس الالیعبدون ۔( الذریت:۵۶)’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
تخلیق ِ انسانی کا بنیادی مقصد اللہ تعالی کی عبادت وبندگی ہے۔جس کے ذہن ودماغ میں یہ مستحضر رہے گا کہ مجھے بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا بلکہ رب تعالی کی اطاعت وفرماں برداری میری پیدائش کا اصل مقصد ہے تو پھروہ مقصد کو پوراکرنے کی فکر وکوشش بھی کرے گا،کیوں کہ اسے پہلے سے علم یہ بھی ہے ایک نہ ایک دن اس کو رب کے حضور حاضر ہونا ہے ،لہذا اس حضوری کے موقع پر رسوائی وشرمندگی نہ ہو تواس کے لئے دنیا میں اس کی اطاعت ہی واحد ذریعہ ہے جس کی وجہ سے انسان کامیاب ہوسکتا ہے۔قرآن کریم میں زندگی اور موت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔( الملک:۲)جس نے موت اور زندگی اس لئے پیداکی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔‘‘
قرآن کریم میں جگہ جگہ نیک اعمال انجام دینے کی تعلیم وتلقین کی گئی اور احادیث میں نبی کریم ﷺ نے اعما ل صالحہ کی ترغیب دی ہے ۔ ناموافق حالات کے آنے سے پہلے ہی اعمال کی طرف بڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: عَنْ اَبی ھُرَیْرَۃَ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّہِ ﷺ قال : بَادِرُوْابِالْاَعْمَالِ سَبْعَاً: ھَلْ تَنْتَظِرُوْنَ اِلاَّ فَقْرَاً مُنْسِیَاً، اَوْ غِنیً مُطْغِیًا، اَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا،اَوْ ھَرَمًا مُفَنِّدًا، اَوْ مَوْتًا مُجْھِزًا،اَوِ الدَّجَّالَ ،فَشَرُّ غَائِبٍ یُنْتَظَرُ اَوِ السَّاعَۃ فَالسَّاعَۃُاَدْھٰی وَ اَمرُّ۔( ترمذی:۲۲۳۸)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:سات احوال سے پہلے اعمال ( آخرت) کرلو۔(۱) کیا تمہیں انتظار ہے بھلادینے والی محتاجی کا،(۲) یا سرکش بنانے والی مالداری کا(۳)یابگاڑدینے والی بیماری کا (۴)یاانتہائی بڑھاپے کا(۵)یافنا کرنے والی موت کا (۶)یا دجال کا ،پس وہ بن دیکھی ہوئی برائی ہے جس کاانتظار کیا جارہا ہے (۷)یا قیامت کا ،پس قیامت سخت حادثہ اور کڑوا گھونٹ ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:بَادِرُوْابِالْاَعْماَلِ الصَّالِحَۃِ ،فَسَتَکُوْنُ فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ ،یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًاوَیُمْسِیْ کاَفِرًا،اَؤْ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا،یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِّنَ الدُّنْیا۔( مسلم )یعنی نیک کام میں جلدی کرو،ان فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے۔اور وہ ایسے فتنے ہوں گے کہ آدمی صبح ایمان والی حالت میں کرے گااور شام کے وقت وہی اپنا ایمان چھوڑکر کافر ہوجائے گا۔یاشام کو ایمان کی حالت میں کرے گااور صبح اٹھتے اٹھتے وہ کافرہوجائے گا۔
حضرت ابوبکر ؓ کا قول ہے :’’جب تک موت نے مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک تم نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو،اس سے پہلے کہ موت آجائے اور عمل کرنے کاموقع نہ رہے۔‘‘حسن بصری ؒ ایک جنازے میں شریک ہوئے ،تو آپ نے لوگوں سے فرمایا:اللہ تعالی رحم فرمائیں اس شخص پر جو آج جیسے دن ( موت کے دن) کے لئے تیاری کرے۔آج تو تم لوگ وہ سب کچھ کرسکتے ہو،جوتمہارے یہ بھائی نہیں کرسکتے جو قبروں میں پہنچ چکے ہیں،اپنی صحت اور فرصت کو غنیمت سمجھو اور نیک عمل کرلواس سے پہلے کہ گھبراہٹ اور حساب وکتاب کا دن آپہنچے۔( قصر الامل مترجم :۱۱۶)
بہرحال آخرت کی دائمی زندگی کو کامیاب بنانا ہے تو پھر انسان کو دنیا کی مختصر زندگی میں رب کی اطاعت وفرماں برداری کرنا،نبی ﷺکی تعلیمات پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے اس کے بغیر کامیابی کا کوئی تصور نہیں۔
وقت کی قدر :
تیسری چیز دنیا کو کامیاب بنانے اور دین ودنیا کے اعتبار سے سرخرو ہونے کے لئے ایامِ زندگی کی قدر ضروری ہے،وقت کی قدر ومنزلت جس کے دل میں زیادہ ہوتی ہے وہ دین اور دنیا دو جہاں میں کام یاب ہوتے ہیں ،وہ اپنی فانی حیات کے لمحات کو فضول اور بے کار چیزوں میں ضائع نہیں کرتے ،تول تول کر اپنے اوقات کو استعمال کرتے ہیں۔وقت کی بے پناہ اہمیت قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے۔قرآن کریم کی مختصر سورت ’’سورۃ العصر ‘‘ میں اللہ تعالی نے زمانہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ تمام انسا ن بڑے خسارے میں ہیں اور اس خسارے سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو چار چیزوں کے پابند ہوں ۔(۱) ایمان (۲) عمل صالح(۳) دوسروں کو حق کی نصیحت ووصیت(۴) صبر کی وصیت۔مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں:یہاں پہلی غور طلب بات یہ ہے اس مضمون کے ساتھ زمانے کو کیا مناسبت ہے جس کی قسم کھائی گئی کیوں کہ قسم اور جواب قسم میں باہم مناسبت ضروری ہوتی ہے۔عام حضرات مفسرین نے فرمایاکہ انسان کے تمام حالات اس کا نشو ونما ،ا س کی حرکات وسکنات،اعمال ،اخلاق سب زمانے ہی کے اندر ہوتے ہیں ۔جن اعمال کی ہدایت اس سورت میں دی گئی ہے وہ بھی اسی زمانے کے لیل ونہار میں ہوں گے اس کی مناسبت سے زمانہ کی قسم اختیار کی گئی ہے اور توضیح اس کی یہ ہے کہ انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اس کا سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا وآخرت کے منافع عظیمہ وعجیبہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور برے کاموں میں لگادئیے تو یہی اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں ۔بعض علماء نے فرمایا:
حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منھا انتقصت بہ جزء ا
( یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے ۔جب ان میں سے ایک سانس گزرجاتا ہے توتیری عمر کا ایک جزء کم ہوجاتا ہے )( معارف القرآن :۸؍۸۱۱)
قیامت کے دن انسان کی زندگی ،اس کی جوانی کے بارے میں اللہ تعالی سوال کریں گے کہ اس کو کہاں کھپایا اور فنا کیا؟چناں چہ ارشا د نبوی ﷺ ہے:لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ عند ربہ حتی یسال عن خمس:عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبا بہ فیما ابلاہ ، وعن مالہ من این اکتسبہ ، وفیما انفقہ ، وماذا عمل فیما علم ۔(ترمذی:حدیث نمبر؛۲۳۵۳)قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (۱) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(۲)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟(۳)اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟(۴)مال کہاں خرچ کیا ( ۵)اور علم کے بارے میں کہ جو علم اس کو حاصل تھا اس پرکہاں تک عمل کیا؟
وقت جیسی عظیم نعمت کو اگر معمولی حساب سے بھی ضائع کریں گے کتنا زیادہ وقت برباد ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ :’’اگر آپ روزانہ اپنے ایک گھنٹے کا صرف پانچ منٹ کھوتے ہوں تو رات دن کے درمیان آپ نے روزانہ ۲ گھنٹہ کھودیا۔مہینہ میں ۶۰ گھنٹہ اور سال میں ۷۲۰ گھنٹے آپ کے ضائع ہوگئے ۔اسی طرح ہر آدمی اپنے ملے اوقات کا بہت سا حصہ بیکار ضائع کردیتا ہے۔۸۰ سال کی عمر پانے والا آدمی اپنی عمر کے ۴۰ سال بھی پوری طرح استعمال نہیں کرپاتا۔(راز ِ حیات:۱۴۰ )
فضول سے اجتناب:
چوتھی چیز فضول چیزوں سے اجتناب ہے ،بے کار اور لغو کاموں سے بچنا ہی آدمی کو کارآمد کاموں میں آگے بڑھاتا ہے۔نبی کریمﷺ نے آدمی کے اسلام کے حسن کی خوبی اور کمال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لایعنی مشاغل کو چھوڑدے۔چناں چہ ارشاد ہے:من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنییہ ۔(ترمذی:۲۲۵۰)
قرآن کریم میں کامیاب ہونے والوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ذکر کی گئی ہے وہ بیکار چیزوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ارشادہے:والذین ھم اللغو معرضون ۔( المؤمنون:۳)اوروہ جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔‘‘لغو کا مطلب بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کاکوئی فائدہ ہو نہ آخرت کا۔( توضیح القرآن)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قیمتی مقولہ ہے کہ:’’جس معاملہ سے تمہارا کوئی تعلق نہ ہو اُس میں دخل مت دو،اورلغو گفتگو مت کرو،اور اپنی زبان کو ایسے محفوظ رکھوجیسے اپنی نقدی کو محفوظ رکھتے ہو۔‘‘( رحمن کے خاص بندے:۶۰)حضرت جنیدبغدادی ؒ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اصل بھلائی تین چیزوں میں ہے،اگر تم اپنا دن اپنے مفاد میں نہیں گذارسکتے تو نقصان میں بھی مت گذارو،اوراگر نیک لوگوں کو اپنا دوست نہیں بناسکتے تو برے لوگوں کو بھی اپنا دوست مت بناؤ،اگر اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال نہیں خرچ کرسکتے تو اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں میں اسے خرچ مت کرو۔( اہل دل کا ادب :۱۰۷)
زندگی کا احتساب:
پانچویں چیز انسان اپنی زندگی کا جائزہ لیتے رہے،اپنے کاموں پر نظر ڈالے،کمیوں کو دور کرے اور اچھائیوں کو مضبوط بھی کرے اور مزید منظم انداز میں کرنے کی کوشش کرے۔حضرت عمر ؓ سے منقول ہے :فرماتے ہیں:حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا۔( ترمذی:حدیث نمبر:۲۴۵۵)اس سے پہلے اپنا محاسبہ کرو کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔نفس اور اعمال کی پڑتال کرنا عقلمندی کی بات ہے ،جس کی عقل نور ِ ایمانی سے منور ہوتی ہے ،اور آخرت اس کی نگاہ میں دنیا سے زیادہ اہم ہوتی ہے ،وہ ضرور اپنا محاسبہ کرتا ہے اور محاسبہ کافائدہ یہ ہے کہ جو غلطیاں سامنے آتی ہیں انسان آگے ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔( تحفۃ الالمعی :۶؍۲۳۷)
نئے سال کی آمد کے موقع پر ان چند امور پربطور خاص غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے،نیا سال ہنگاموں ،ناچ گانوں اور چیخ وپکار کے لئے آتا بلکہ ہر آنے والا دن انسان کے لئے عبرت وموعظت کا ذریعہ ہے،اس کی عمر میں کمی ہورہی ہے اور وہ اپنی قبر کی طرف بڑھ رہا ہے،ایسے میں اس کو خوشی ومسرت سے زیادہ فکر واحتساب کی ضرورت ہوتی ہے،وہ جائزہ لے کہ گزشتہ سال کیا کھویا اور کیا پایا، دینی اور دنیوی اعتبار سے کتنی ترقی کی ؟ کمیوں کو دورکرنے اور ایک نئے عزم وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کیاتیاری کی ہے؟
ہمارے معاشرے میں سال ِ نو کی آمد کے موقع پر جو غیر ضروری اور غیرشرعی و اخلاقی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اور نوجوان جن لہوولعب اور فضولیات میں مبتلا ہورہے ہیں اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے،غیر دینی کاموں سے اجتناب اور خلاف تہذیب و مروت کاموں سے احتراز کی فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم مقصد ِ زندگی کو سمجھیں ،خدا کی دی ہوئی نعمت ِ حیات کی قدر کرتے ہوئے اس کو صحیح استعمال کریں اور کامیابی وترقی کی راہوں پر چل سکیں۔
جس طرح ایک دکان دار شام کو جب دکان بند کرتا ہے تو اپنی آمدنی اور دن بھر کی وصولی پر نظر ڈال کر حساب کرتا ہے ،مسافر دنیا کو بھی سال کے اختتا م پراپنے گزرے ہوئے لیل ونہار پر نظر ڈال کر کمیوں کودور کرنے،کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی فکر کرنی چاہیے ۔آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا،خداکو جب تک مقصود ہے کائنات کا نظام چلے گا،انسان بدلتے رہیں گے،کوئی پیدائش کی خوشیاں لے کر آئے
گا،کوئی جدائی کا غم دے کر جائے گا،اس میں کامیاب وبامراد وہ ہے جس نے اپنی دین ودنیا کو سنوارنے ،بہتر بنانے ،مقصود کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی لگائی ،وہ دنیا میں نیک نام رہااور دین میں قابل قدر سمجھاجاتارہاہے،اس کا رشتہ خالق سے اچھا تھااور مخلوق سے بہتر،وہ غافلوں ،مدہوشوں کی طرح نہیں بلکہ فکرمندوں اور ہوشیاروں کی طرح زندگی گزارتارہا،اس نے اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش نہیں کیا۔بہرحال نئے سال کی آمد عبرت ہے،موعظت ہے اور دعوت ِ فکر وعمل ہے۔
سال ِ نو کی آمد؛ فکر ونصیحت کے چند پہلو
ADVERTISEMENT