اجتماعی کاموں میں دو باتوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے : امارت اور شورائیت — امارت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو ادارہ یا تنظیم کا سربراہ اعلیٰ منتخب کرلیا گیا ہو ، امیر ادارۂ و تنظیم کا امین ہوتا ہے نہ کہ مالک ، وہ گویا گاڑی کا انجن ہوتا ہے ، پہئے کتنے ہی مضبوط ہوں ؛ جب تک کوئی کھینچنے والا انجن نہ ہو ، گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی ، اور انجن کتنا ہی طاقتور ہو ، اگر اس کو پہیوں کا ساتھ حاصل نہ ہو تو اس کی طاقت اس کو فائدہ نہیں پہنچاسکتی ؛ اسی لئے دونوں کی اہمیت ہے۔
اجتماعی کاموں کے لئے دوسری اہم ضرورت "شورائیت” ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کو صلاحیت کے اعتبار سے ایک ناقص وجود رکھا ہے ، اس لئے جب ایک فرد کسی کام کو نہیں کرپاتا ہے تو بہت سے افراد مل کر اس کو انجام دیتے ہیں اور اجتماعی قوت سے وہ کام ہوجاتا ہے ، ایک شخص ایک چٹان کو اپنی جگہ سے کھسکا نہیں سکتا ؛ لیکن جب لوگوں کا جم غفیر اپنا ہاتھ لگاتا ہے تو چٹان اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے ، یہ اجتماعی کاموں کی ایک مثال ہے ، انسان جیسے اپنی جسمانی قوت کے اعتبار سے عاجز و نامکمل ہے ، اسے دُور تک دیکھنے کے لئے چشمہ کی ، آواز پہنچانے کے لئے مائیک کی اور فاصلہ طے کرنے کے لئے سواری کی ضرورت پڑتی ہے ، اسی طرح وہ عقل و فہم کے اعتبار سے بھی عاجز ہے ، اس کو کسی صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لئے بہت سے لوگوں کی مدد درکار رہتی ہے ؛ اس لئے اجتماعی کاموں میں خاص کر شورائیت ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے اہم کام مشورہ ہی سے انجام پانے چاہئیں : ’’ وأمرھم شوریٰ بینھم‘‘ (شوریٰ : ۳۶) رسول اللہ ا کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے : ’’ وشاورھم فی الأمر‘‘ (آل عمران : ۱۵۹) ؛ حالانکہ رسول اللہ کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ، خلفاء راشدین کے عہد میں بھی امیر کے ساتھ شوریٰ ہوا کرتی تھیں ، اور اس کو اس درجہ اہمیت حاصل تھی کہ جب عراق کی زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں اور ان زمینوں کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا کہ ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے یا بیت المال کی ملکیت بنالیا جائے تو تقریباً ایک ماہ تک مباحثہ و مناقشہ کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد فیصلہ ہوا۔ (دینی اداروں، تنظیموں اور جماعتوں میں اختلافات اسباب و حل (٢) از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
مذکورہ بالا تحریر سے معلوم ہوا کہ شورائی نظام ایک قابلِ اعتماد اور حد درجہ مفید نظام ہے، بلکہ اس دور زوال و ادبار میں یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ اصحاب فہم و بصیرت سر جوڑ کر بیٹھیں اور افراد امت کی رہنمائی کے لئے لائحہ عمل طے کریں۔
جہاں تک تعلق ہے ارکان شوری کی تعیین کا تو اس میں اصل الاصول یہ ہے کہ ایسے افراد کا انتخاب ضروری ہے جو قوم و ملت کے لئے مفید ہوں، اس نکتہ میں نہ مداہنت سے کام لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تملق و چپقلش کو دخل اندازی کا موقع دیا جاسکتا ہے، اس کو خالص دینی فریضہ اور ایمانی تقاضہ سمجھ کر انجام دینا چاہیے، اس لیے مناسب ہوگا کہ اراکین کے انتخاب میں ہر دو طرف سے تعاون ہونا چاہیے، لوگوں کو چاھیے کہ اپنی طرف سے وہ بہتر سے بہتر نمائندہ کھڑا کریں جس پر اعتماد افادے سے خالی نہ ہو اور اراکین شوری کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے طور پر جانچ کر دیکھ لیں کہ یہ شخص ہمارے شوری کے لئے مفید ہوسکتا ہے کہ نہیں؟ اس سلسلے میں اس کی زندگی کی سابقہ کارکردگی اور گزشتہ کارگزاریاں مد نظر رکھنا بھی مفید ہوسکتا ہے، تاہم اختلاف کی صورت میں یہ ہے کہ قوم خود اپنا نمائندہ منتخب کرے اور لوگ خود اپنا نمائندہ دیں؛ کیوں کہ اصل مقصود لوگوں کی نمائندگی اور انکے احساسات و ضروریات کی ترجمانی ہے جس سے وہ بہتر طور پر واقف ہونگے اور کمی کوتاہی کی صورت میں انہیں شکوہ و شکایت کا موقع بھی نہ ہوگا؛ اس لیے کہ وہ ان کا انتخاب کیا ہوا ہے۔
اراکین شوری کے انتخاب کے لئے مندرجہ ذیل رہنما اصول و ضوابط کو مد نظر رکھنا مفید تر ثابت ہوسکتاہے:
(١) یہ بات مسلم ہے کہ جتنے انبیاء کرام دنیا میں مبعوث ہوئے وہ امت کے لیے بہترین نمونہ تھے اور اپنی قوم کے لئے لیڈر و قائد تھے، ان تمام انبیاء میں جو مشترکہ صفت تھی وہ علم و فہم کی تھی، سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَ کُلًّاآتَیْنٰہُ حُکْماًوَّ عِلْماً (الانبیاء۔۷۹) اس سے معلوم ہوا کہ وہ افراد جو امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں انہیں علم و فہم کی نعمت سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے، چنانچہ اراکین شوری کے لئے بھی یہ وصف ضروری ہے۔
(٢)؛اسی طرح قرآن مجید میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور اہل صدق و صفا کے گروہ سے وابستہ رہا جائے، ارشاد ربانی ہے "واتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین” چنانچہ اراکین شوری کو چاہیے کہ وہ بھی تقوی کی نعمت سے بہرہ ور اور اہل صدق و صفا سے وابستہ لوگ ہوں۔
(٣) قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ کسی اہم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے انسان کے اندر قوت و امانت داری کی صفت کا ھونا بھی ضروری ہے "ان خیر من استأجرت القوي الأمين” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ امت کے بار کو اپنے شانے پر اٹھانا چاہتے ہیں ان کے لئے جسمانی و روحانی طاقت کے ساتھ امانت داری کا وصف ناگزیر ہے۔ یعنی اراکین شوری کا امین ہونا ضروری ہے۔
(٤) سورۂ نساء آیت نمبر 83 سے معلوم ہوتاہے کہ ذمہ دار قسم کے لوگوں کا معاملہ فہم ہونا بھی ضروری ہے، ارشاد ربانی ہے ( وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا )
النساء (83) اس آیت کے پس منظر میں اراکین شوری کے انتخاب میں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان کے اندر معاملہ فہمی کی صلاحیت اور قوت فیصلہ کی استعداد موجود ہو ورنہ وہ خود بھی ڈوبیں گے اور قوم کو بھی ڈبادیں گے۔
(٥) سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور دنیا کی رہنمائی کا فریضہ عطاء کیا گیا تھا تو اس موقع پر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جو باتیں کہی تھیں وہ بے حد بنیادی اور اصولی تھیں، جو کسی بھی رہنما و قائد کے لئے ضروری ہیں ان میں بنیادی طور پر دو أصول نہایت اہم ہے ایک "انک لتقری الضیف و تحمل الکل و تکسب المعدوم” ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی پائی جاتی ہے
(٦) اور دوسرا یہ کہ "و تعین علی نوائب الحق” یعنی آپ حق کی راہ میں مشکلات پر تعاون کرتے ہیں؛ یعنی دینی ہمدردی رکھتے ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی بھی ذمہ دار شخص کے لئے جو واقعی امت کا مفید فرد ہوسکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں "انسانی ہمدردی” اور "دینی ہمدردی” کا وصف بیک وقت پایا جائے۔ تبھی کوئی مفید اور مؤثر کام انجام پا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں چند نہایت اہم اور بنیادی اصول لکھ دیئے گئے ہیں جن کا ایک اچھے اور مفید رکن میں ھونا ضروری ہے۔ اس کی روشنی میں بآسانی اپنا شورائی نظام انتخاب عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔